پاکستان
کے دانشورں اور مفکرین نے اس بات کو نظرانداز کیا ہے کہ 1947 میں وجود میں آنے والے
ملک پاکستان کی ضرورت دومتصادم مفادات کے اتحاد کا نتجہ تھا۔ ایک مسلم لیگ جس کی
قیادت محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور شیر بنگال جیسے لوگ کررہے تھے جن کے نزدیک
برصغیر کے عوام کے مفادات کا تحفظ دو ریاستی نظام کے اندر بہتر طور پر ہوگا جس سے
یہاں کے عوام کو جمہوریت، قانون کی حکمرانی، برابری، امن اور ترقی کرنے کے بہتر مواقعے
دستیاب ہونے کا خیال تھا، لیکن دوسری طرف برطانیہ تھا جس کے ساتھ رینے کے لیے
یونینسٹ سیاسی پارٹی جو آزادی کی مخالف تھی اور اس کے علاوہ برطانیہ کی نوآبادی کو
چلانے کے لیے بنائی گئی بیوروکریسی اور فوج تھی جن کی فکری اور پیشہ ورانہ تربیت برطانیہ
کے عالمی مفادات کے تحفظ کی مشین کے ایک پرزے کے طور پر کی کئی تھی۔ اس لیے مسلم
لیگ کی آزادی کی جدوجہد برطانیہ کے خطے میں عالمی مفادات سے متصادم تھی۔ مفادات کی
اس کشمکش کو پاکستان کے سیاسی ارتقاء میں بنیادی رول رہا ہے۔
مسلم لیگ کے نزدیک ھندوستان ایک پڑوسی ملک ہوگا، کا تصور تھا، جس کے ساتھ تعلقات پاکستان کے
عوام کی تاریخی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی ضرورتوں کی روشنی میں اور دوسرے ملکوں کے
مقابلے میں زیادہ قریب ہونگے مگر یہ اصول ھند-پاک کی قربت برطانیہ کے کنٹرول کرنے
کے لیوریج کو کمزور کرتا تھا۔ برطانیہ کے لیے خطے کو اپنے اثرمیں رکھنے کے لیے
سویت یونین سے باہیں بازوں کے نظریات کو روکنا تھا جو سویت یونین کے بعد چین میں
فتح یاب ہوچکے تھے۔ ھندوستان میں اسکے لیے ھندوستان کی برطانیہ سے ورثے میں ملنے
والی خفیہ ایجنسی آئی بی کے ساتھ ملکر امریکہ نے نیپال کی سرزمین کو استعمال کیا
اور چین کے خلاف تبت میں مسلح تربیت دیکر جتھوں کو اسی طرح منظم کرکے اندر بھیجنا شروع
کیا تھا جس طرح ہم افغانستان میں دیکھ چکے ہیں۔ راہل نیپال ایرلائن اسی اپریشن کے
لیے بنائی گئی تھی۔ نیپال سے لوگوں کو امریکہ کے ڈینور کے فوجی آڈے پر تربیت کے
لیے لیجایا جاتا مگر واپسی تک ان کو یہی بتایا جاتا تھا کہ آپ تایوان میں ہیں اور
جب واپس تبت پنچتے تو وہ اس یقین کے ساتھ کے وہ تایوان سے مسلح تربیت لیکر واپس
آئے ہیں۔ چینیوں نے امریکہ کے اس اپریشن کو بری طرح ناکا بنایا اور چینیوں کی
دفاعی جنگ نے امریکیوں کو ششدر کردیا مگر اس کا نتجہ 1962میں ھند - چین جنگ ہوئی
جہاں ھندوستان امریکہ کی مدد میں اسی طرح انتظار کرتا رہا جس طرح پاکستان 1965 کی
جنگ میں۔ دونوں، ھند-پاک یہ بات بھول گے تھے کہ عالمی طاقتوں کی عالمی مفادات کی
سیاست ہوتی ہے۔ امریکہ/برطانیہ، ھندی چینی بھائی بھائی کے نعرے کو اگنور نہیں
کرسکتے تھے۔ اسی لیے ھندوستان کو تبت میں ملوث کرنے کا مقصد ہی ھندوستان اور چین
کے درمیان دوری پیدا کرنا تھا جو نہرو اور اس کی حکومت نہ سمجھ سکی تھی۔ جب
ھندوستان کو چین کے ساتھ جنگ میں بری طرح شکست ہوئی اور اسے امریکہ اپنے ساتھ نظر
نہ آیا تو ھندوستان بھاگتا ہوا سویت یونین کے پاس پنچ گیا۔ امریکہ نے پاکستان میں ایوب
خان کی حکومت سے ھند-پاک دفاعی معادے کی تجویز دلوا کر، ھندوستان کو سویت یونین کے
قریب جانے سے روکنے کی کوشش ضرور کی تھی مگر جنگ کے تجربے نے ھندوستان کو بہت کچھ
سکھا دیا تھا۔ میری رائے ہے کہ سویت یونین کی مدد سے ھندوستانیوں نے 1967 میں
برطانوی نظام سے باہر اپنی بیرونی خفیہ ایجنسی را کو وجود میں اسی لیے لایا تھا
تاکہ اس داہرے سے نکل سکے۔
پاکستان
میں اس کے مقابلے میں آئی ایس آئی کو جنرل ویلم کتھران نے 1948 میں قائم کیا تھا
جو برطانوی نظام کا ایک حصہ اور کل پرزہ تھی۔ چونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد
برطانیہ نے امریکہ سے مدد مانگی تھی کہ ھندوستان کی کالونی کو اپنے قابوں میں
رکھنے کے لیے اس کی مدد کی جائے مگر امریکہ نے انکار کردیا تھا۔ امریکہ کے انکار
کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ آزادی پسند تھا اور ھندوستان کے عوام کی آزادی چاہتا تھا
بلکہ اس کا خیال تھا کہ اگر ھندوستان کو آزادی نہ ملی تو وہاں پر کیمنسٹ قبضہ
کرلینگے۔ اس لیے اس وقت کی عالمی سامراجی قوتوں کا فطری تصادم باہیں بازوں کے
نظریات کے ساتھ تھا۔ اگر 1917 میں روس میں بالشوک انقلاب نہ آتا تو قوموں اور عوام
کی آزادی کے سوال کو بنیاد حق کے طور پر کس طرح تسلیم کیا جاتا اور کس طرح
برطانیہ، سلطنت عثمانیہ، فرنچ امپائر اور دوسری عالمی سامراجی طاقتیں اپنے زیر قبضہ
علاقوں سے دستبردار ہوتی اور عوام کے حق آزادی کو تسلیم کرتی؟ اس لیے قوموں، ملکوں
اور عوام کی موجودہ آزادی میں بنیادی رول 20 صدی میں طبقاتی شعور، فرد اور معاشرے
کے بنیادی حقوق کا سوال، جمہوریت
BY THE PEOPLE, OF THE PEOPLE, FOR THE
PEOPLE
کا اصول تسلیم کیا گیا،عوام کے حق حکمرانی کے اصول کو مانتے
ہوئے اپنے مقامی اور نوآبادی کے عوام کے سارے حقوق دیئے تاکہ غریب طبقے کے انقلاب کو اگر روکا نہیں جاسکتا ہے تو اس
کے آگے بند ضرور باندھا جاسکتا ہے۔ یہ وہ بنیادی سوچ ہے جس کو روکنے کے لیے عالمی
طورپر مذہبی سیاسی نظریات کو آگے بڑھایا جاتا رہا ہے تاکہ ورکنگ کلاس کو رنگ، نسل، جنس اور
مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے کمزور کیا جائے اور ان پر حکومت اس طرح سے کی جائے
کے عوام کو اپنے استحصال کا سبب اپنی ہی وجہ لگے نہ کہ حکمرانوں کی امریت اور ساری
تیسری دنیا میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ اس لیے آئی ایس آئی کا کام پاکستان میں عوام کو
مسلم لیگ کے منشور سے دور لیجانا تھا نہ کے قریب اور فاطمہ جناح بانی پاکستان کی
بہین اس میں تو بلکل فٹ نہیں بیٹھتی تھی۔ چو نکہ اس کے اندر فکری رنگ اس طرح سے
بھرنا تھا جو مسلمانوں کے اندر مذہبی سیاسی کلچر کے فروغ اور سیاسی کشمکش کے فرقہ
وارنہ تصور کے مذہبی زاویے سے دیکھنے کا رجحان پیدا ہو جو نہ صرف فاطمہ جناح اور
دوسری مسلم لیگی رانماہوں کی سوچ سے متصادم تھا بلکہ عوام کو طبقاتی شعور اور معاشرے
کی ساہنسی تعبیر اور تشریع سے بھی دور لیجاتا تھا اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔
اسی لیے قادیانی اور مسلم کی لڑائی شروع کرائی گئی جس کا فطری نتجہ مین اسٹریم
عوام کو مذہبی تفرقہ بازی کی طرف لیجایا گیا تاکہ سعودی عرب کی طرز پر آل سعود اور
آل وھاب طرز کے نظام کے تحت فوج کے کنٹرول اور مولوی کے تعاون/ اثر سے ملتا جلتا
نظام تشکیل دیا جائے جو فوجی صدر اور فوج کے کنٹرول سے باہر نہ جاسکے اور امریکی
مفادات کا علاقائی تحفظ ہوتا رہے۔
لہذا
آئی ایس آئی کا پہلا کام باہیں بازوں کے نظریات کا خاتمہ تھا جس کے لیے ریاستی
اداروں سے ایسے لوگوں کو نکالنا جو باہیں بازوں کے نظریات اور ریاستی پالیسی پر
اثرانداز ہونے کی قوت رکھتے ہوں۔ اس کے لیے پنڈی سازش کیس بنا جس کے ذریعے فوج،
آئی بی، بیوروکریسی اور عدلیہ سے باہیں بازو کے خیالات رکھنے والوں کا صفایا کیا
گیا۔ تعلیمی اور مذہبی تعلیم کو اسی طرز پر استوار کیا گیا جسے نظریہ پاکستان قرار
دیا گیا۔
سیاست
ایک حقیقت ہے جو خلا میں نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر باہیں بازوں کے نظریات کا خاتمہ
کرنا تھا تو لوگوں کو کوئی متبادل دینا لازمی تھا۔ وہ متبادل حقیقت ہو یا
تصوراتی دھوکہ، عام عوام کو جاننے اور سمجھنے کے لیے زمانے گذر جاتے ہیں۔ میرا
اپنا تجربہ ہے کہ جب میں بچہ تھا تو یہ سنتا تھا کہ صدر محروم سردار قیوم صاحب کی
حکومت نے اسلام نافظ کردیا ہے لیکن اب میں بڑھاپے میں پنچ چکا ہوں مگر پاکستان میں
لوگ ابھی تک اسلام نافذ کرنے کی باتیں کرتے ہیں جسے شگر کوٹیڈ زہر یا افیون آف
ماسیس ہی قرار ہی دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے متبادل کے طور پر مذہبی نظریات کو فروغ
دینا ہی ٹہرہ تھا نہ کہ جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی
حکمرانی۔ آج اگر پاکستانی معاشرے میں غیر جمہوری رویہ، انسانی حقوق کی پاسداری سے
دوری اور قانون کی حکمرانی سے اجنبیت کا رنگ ابھرتا ہے تو اس کے پیچھے ایک لمبی
ریاستی پالیسی ہے۔
تاریخی
طور پر مذہبی نظریات کو فروغ دیکر ایک کامیاب سیاسی/جنگی ہتھیار کے طور پر
استعمال کرنا برطانیہ اپنے تاریخی عہد میں فرانس کے مقابلے میں زیادہ کامیابی سے
استعمال کرچکا تھا۔ اگر برطانیہ خفیہ طریقے سے محمد ابن عبدلوھاب کو تیار کر کے
وھابی تحریک کی بنیاد نہ ڈالتا اور فرانس کی طرح کسی علاقے پر ڈارکٹ قبضہ کرتا جس
طرح فرانس نے اسکندریہ پر قبضہ کیا تھا، تو برطانیہ سلطنت عثمانیہ کو توڑنے میں
کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ لہذا آئی ایس آئی بنانے والوں کے سامنے برطانیہ کا تاریخی
تجربہ سامنے تھا۔ اسی لیے نام نہاد پاکستان کی خفیہ سلامتی کی ایجنسی کا بنیادی رول
اسلامی نظریات کا فروغ، فوج کے اندر سے کسی قسم کی بغاوت کو روکنا، فوج کے وقار
کو عوام کی نظروں میں بڑھانے کے لیے ھندوستان کا خوف لوگوں کے دل و دماغ میں اس
طرح سے ڈالنا کہ ملک اور مذہب کے تحفظ کا جھنڈا فوج اور مولوی کے ھاتھ میں نظر آئے جس
کا لازمی نتجہ یہ کہ عوام فوج اور مولوی کو اللہ کی طرف سے ایک نعمت کے طور پر دیکھیں جو
ھندوستان جسے خطرناک دشمن سے تحفظ کی ایک امید کی کرن نظر آئے۔ آج بھی
پاکستانیوں کو عراق، شام اور لبیا کا حشر میڈیہ کے ذریعے ذہینوں میں ڈال کر خوف زداہ کیا جارہا ہے۔ کیا اقبال، جناح اور فاطمہ جناح کے نزدیک اس قسم کا
پاکستان تھا جس کے اندر شہریوں کو ہمشہ خوف زادہ ہوکر زندگی گذارنہ پڑے؟ یہ مذہبی فرقہ وارنہ سیاست کا سبب ہے کہ فوج جو بنیادی طور پر پیشہ
ور اور ایک سیکولر ادارے کے طور پر جانی جاتی تھی،اب اجتماعی طور پر مذہب اور فرقہ
پرستی کے نظریات کی طرف راغب نظر آتی ہے۔ جنرل مشرف پر خود کش حملہ خود فوج کے
اندر سے ہوا تھا۔ جی ایچ کیو پر حملے میں بھی فوج کے لوگ شامل تھے ۔
کشمیر
جسے ھند پاک اپنی کشمکش کا سبب قرار دیتے ہیں لیکن تاریخی حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ
کا کیمنسٹ خطرے کا خوف یہاں بھی نظر آتا ہے۔ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی حکومت کا 1952
میں خاتمے کا سبب بھی اس کے تین وزیروں کا کیمنسٹ ہونا اور شیخ عبداللہ کآ اپنا
رجحان بھی انہی نظریات کی طرف قرار دیا جاتا ہے۔ پورے برصغیر میں سب
سے پہلے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کرنے والی حکومت، شیخ عبداللہ کی ہی حکومت
تھی۔ کرنل نادر برطانیہ کا وہ ٹیلی گرام انٹرنٹ پر شائع کرچکا ہے جس کے ذریعے
برطانیہ نے اقوام متحدہ میں اپنے نمائندے کو ھدایت کی تھی کے اگر اقوام متحدہ میں
کشمیر کی خودمختاری کے سوال پر بات ہو تو تم اس کی مخالفت کرنا۔ برطانوی حکومت کے
مطابق، چونکہ شیخ عبداللہ کے تین وزیر کیمنسٹ ہیں اور شیخ عبداللہ خود بھی ان کا
ہمدرد ہے اور اگر کشمیر خودمختار ہوگیا تو سویت یونین سری نیگر میں اپنا سفارت
خانہ کھولے گا جس کے ذریعے اس کو دھلی اور کراچی کی حکومتوں کو انگلی کرنے کا
موقع مل جایگا۔ ستم طریفی دیکھیں کے ھندوستان جو اس وقت خود امریکہ کا پٹھو تھا،
شیخ عبداللہ کی حکومت کو اس الزام کی بنیاد پر ختم کیا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ
ملکر کشمیر کی آزادی کا اعلان کرنے جارہا تھا۔ اسی طرح پاکستان میں پنڈی سازش کیس
کے بعد خدائی خدمتگاروں بشمول باچا خان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ مزید تعجب خیز ستم ظریفی یہ ہے
کہ بھٹو صاحب کے دور میں نیپ کی حکومت کو بلوچستان میں آئی ایس آئی نے امریکہ کے
اشارے پر فوج کو گمراہ کرکے ختم کرایا تھا چونکہ وہ کیمنسٹ، سوشلہسٹ اور سیکولر
خیالات کے علمبردار ، سویت یونین سے ہمدردی اور ھندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی
حامی تھی جو امریکہ، آئی ایس آئی اور فوج کو قبول نہیں تھی جس کا نتجہ مسلح تصادم
کی شکل میں نمودار ہوا جس کے سبب اس قدر دشمنی اور نفرت بلوچ عوام کے اندر پیدا
ہوئی کہ پاکستان اس وقت تک اس سے نہیں نکل سکا۔
لہذا ایوب
خان کی حکومت جب فاطمہ جناح اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو امریکہ اور ھندوستان کا
ایجنٹ قرار دیتی تھی تو وہ اپنی کمزوری/احساس جرم کو چھپانے کی نہ صرف کوشش کرتی
تھی بلکہ یہ ایجنٹ کی بنیادی تربیت ہوتی ہے کہ جو وہ خود ہوتا ہے اس کا الزام اپنے
مخالفین پر لگانا شروع کردیتا ہے۔ ایوب خان کو پتہ تھا یہ پاکستان جناح کا نہیں
بلکہ کسی اور کا ہے۔ اسے کہتے ہیں چور مچائے شور۔ اس طرح آج وہ لوگ جو پاکستان میں
صحافیوں اور سیاستدانوں کی کردار کشی کررہے ہیں وہ خود وہی کچھ ہیں۔ ان کو جو کچھ
خفیہ ایجنسیا بتاتی ہیں، وہی کچھ آکر میڈیہ اور سوشل میڈیہ پر اگلتے نظر آتے ہیں
جو ایجنسیوں کی ڈس انفارمیشن کی جنگ اپنے عوام کے خلاف ہے کسی اور کے خلاف نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ
روز مرہ کے حقائق ہیں جن سے حکومت عوام کو گمراہ کرنا چاہتی ہے۔ سنسر کے ذریعے
کرپشن کے اصل مجرموں کو چھپانا اور ان کی جگہ اپنے سیاسی مخالفین، آزاد صحافیوں
اور بے گناہ انسانوں کو عوام کے سامنے بدنام کرنا اور ظلم کا شکار بنانے کی سازش
کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔
جعلی اکاونٹ کا کاروبار منشیات سے منسلک اور پاکستان کی سلامتی کے اداروں کی پالیسی کی ایک لمبی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ سچ اور جھوٹ صرف ایک عدالت جو آزاد کے سامنے کیس لانے کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے جن اداروں کی ذمداری منشیات کی روک تھام تھی وہ منشیات کی تجارت کو تحفظ اور فروغ دینے میں لگے رہے ہیں اور اب اپنے آپ کو بچانے کے لیے بے گناہوں کو تختہ مشک بناکر پاکستان کے عوام/دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور سچ بولنے اور لکھنے والوں کو غدار اور لفافہ قرار دیکر ان کی زبان بندی اور ان کی قلم کو توڑنہ چاہتے ہیں مگر ایسا ہوگا نہیں ۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ابھی بھی پاکستان کی غیرسرکاری آئی ایس آئی دہشتگری کو نہ صرف فروغ دینے کے ایجنڈے پر کاربند ہے بلکہ اس کے ذریعے اپنی مخالف آوازوں کو مٹانا چاہتی ہے لیکن اس کا میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دہشتگردی کے پردے میں سیاسی جرائم اور منشیات کی تجارت کو جو تحفظ ملتا ہے وہ کسی اور طریقے سے نہیں مل سکتا ہے۔ کیا کوئی معاشرہ جو میڈیا پر پابندی لگائے، ججوں/عدالتوں کو اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرے، قانون کی حکمرانی کا مذاق اڑائے، فیصلے عدالت کے بجائے میڈیا پر کرنا شروع کردے، ایسے معاشرے کو کرپشن ختم کرنے اور قانونی کی حکمرانی قاہم کرنے پر سنجیدہ لیا جاسکتا ہے؟ میری نظر میں پاکستان اس وقت مکمل طور پر عالمی منشیات کے تاجروں کے زیر اثرنظر آتا ہے۔ اللہ پاکستان کے عوام کو ان سازشیوں سے محفوظ رکھے۔ امین۔
جعلی اکاونٹ کا کاروبار منشیات سے منسلک اور پاکستان کی سلامتی کے اداروں کی پالیسی کی ایک لمبی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ سچ اور جھوٹ صرف ایک عدالت جو آزاد کے سامنے کیس لانے کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے جن اداروں کی ذمداری منشیات کی روک تھام تھی وہ منشیات کی تجارت کو تحفظ اور فروغ دینے میں لگے رہے ہیں اور اب اپنے آپ کو بچانے کے لیے بے گناہوں کو تختہ مشک بناکر پاکستان کے عوام/دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور سچ بولنے اور لکھنے والوں کو غدار اور لفافہ قرار دیکر ان کی زبان بندی اور ان کی قلم کو توڑنہ چاہتے ہیں مگر ایسا ہوگا نہیں ۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ابھی بھی پاکستان کی غیرسرکاری آئی ایس آئی دہشتگری کو نہ صرف فروغ دینے کے ایجنڈے پر کاربند ہے بلکہ اس کے ذریعے اپنی مخالف آوازوں کو مٹانا چاہتی ہے لیکن اس کا میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دہشتگردی کے پردے میں سیاسی جرائم اور منشیات کی تجارت کو جو تحفظ ملتا ہے وہ کسی اور طریقے سے نہیں مل سکتا ہے۔ کیا کوئی معاشرہ جو میڈیا پر پابندی لگائے، ججوں/عدالتوں کو اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرے، قانون کی حکمرانی کا مذاق اڑائے، فیصلے عدالت کے بجائے میڈیا پر کرنا شروع کردے، ایسے معاشرے کو کرپشن ختم کرنے اور قانونی کی حکمرانی قاہم کرنے پر سنجیدہ لیا جاسکتا ہے؟ میری نظر میں پاکستان اس وقت مکمل طور پر عالمی منشیات کے تاجروں کے زیر اثرنظر آتا ہے۔ اللہ پاکستان کے عوام کو ان سازشیوں سے محفوظ رکھے۔ امین۔
No comments:
Post a Comment