کیا حرام ہے؟ کیا حلال ہے؟ قران کیا کہتا ہے؟
ڈاکٹر موسی کا وڈیو دیکھیں۔
ڈاکٹر موسی نے اس وڈیوں میں بتایا ہے کوئی چیز اسلام کے
حوالے سے حرام یا حلال نہیں ہوسکتی جب تک قران واضح الفاظ میں اسے حرام قرار نہ دے۔ میں خود اس بات کی وکلات کرتا رہا ہوں اور اکثر بحث میں یہ چیز سامنے آئی ہے کے عام مسلمان کا اسلام مولویوں کی گمراہ کن تحریروں اور تقریروں کا عکس جو قران سے سو فیصد متصادم اور جھوٹی کہانیاں ہیں۔ مثال کے طور پر کھانے پینے کی جو چیزیں حرام ہیں ان کی لسٹ بقرہ ایت 173 اور المائدہ ایت 3 میں ہے۔ اس لسٹ میں شراب شامل نہیں ہے۔ اسی طرح شادی کس سے کر سکتے ہیں نساء ایات 23/24 میں ہے اور بقرہ کی ایت 221 صرف ایڈوازری/اختیاری ہے کوئی شرعی حکم نہیں ہے اس سے نہ حرام حلال کا کوئی پہلو نکلتا ہے نہ قانون کی کوئی بنیاد۔ اسی طرح طالبان نے افغانستان کی خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کئے ہوئے ہیں، ان کے بنیادی انسانی حقوق ختم کیئے ہوئے ہیں جو نہ صرف قران سے متصادم ہیں بلکے ان چیزیں کو بھی حرام قرار دے رہے ہیں جن کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہےمگر پوری دنیا کی مساجد خاموش ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کے ممبر و محراب ان کے ان جرائم میں برابر کے شریک ہیں؟ کیا طالبان قسم کے انتہاء پسندوں کا وجود میں آنے کا سبب مساجد اور مدارس کی دین کے نام پر مسخ شدہ تعلیم نہیں ہے؟
نیچے وڈیو میں آپ خود سن لیں مولوی کا جھوٹ اور اس کے
فالورز کس طرح اس کے جھوٹ اور فراڈ کو اللہ اکبر کے
نعرے کی گونج میں جواب دے رہے ہیں؟ ڈاکٹر اسرار نے اس مولوی کے مرکزجو لاہورمیں تھا۔ کا دورہ کیا تھا اور مشائدے کے بعد لکھا تھا کے مرکز کی سیکورٹی جماعت الدعوہ والے دیتےتھے۔ کیا یہ سرکاری مذہبی فراڈ تو نہیں تھا؟
یہ مولوی اپنے فالورز کو کہے رہا ہے کے"نبی ہیں نا اور اگر نبی ہیں توان کے اصاحب بھی تو ہیں۔" لاالہ اللہ محمد رسول اللہ؛ اللہ کے سوائے کچھ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ رسول آج مابعد الطبیعیات میں ہیں طبیعیات میں نہیں ہیں۔ اسے طبیعیات میں ہونا اور مابعد الطبیعیات میں ہونے کا فرق تک نہیں پتہ۔ نبی ہے، شہدا ہیں مگر وہ مابعد الطبیعیات میں ہیں طبیعیات میں نہیں ہیں۔ خود اللہ ہے مگر وہ بھی طبیعیات میں نہیں ہے مابعد الطبیعیات میں ہے جس کی بنیاد فرد کا ایمان ہے جسے نہ وہ اپنے دل و دماغ میں خود ڈال سکتا ہے نہ نکال سکتا ہے بلکے اسے یہ اُس ماحول سے ملتا ہے جس ماحول میں وہ پیدا ہوتا ہے یا زہنی ارتقاء کی شعوری کیفیت ہوتی ہے۔
جب ان مولویوں کی تعلیم و تربیت کا یہ حال ہے کے مذہب کے بنیادی فلسفہ سے ہی ناواقف ہوں تو ایسے نام نہاد علما اسلام، قران، قانون، سیاست اور تہذیب کو کیا خاک سمجھیں گے؟ جہالت کو قران نے کفر قرار دیا ہے۔ اس مولوی کے سامنے بیٹھے انسان نما بت اللہ اکبر کے نعرے کی گونج میں مولوی کی کذب بیانی کی تائید کر رہے ہیں۔ وراثت میں ملے مذہبی تعصبات کی بنیاد پر مذہبی کٹرپن ابوجہل اور ابولہب کی سنت تھی نبی کی نہیں۔ عقیدے پر دلیل کو فوقیت نہ دینا ابوجہل اور ابولہب کی سنت ہے اللہ کی نہیں۔ مذہب کی بنیاد لوگوں کا عقیدہ بدلنا نہیں بلکے دلیل اور عقیدے میں فرق کو سمجھنا ہوتا ہے۔ اسی لیے خود نبی کو سورہ یونس ایت ۹۹ میں اللہ نبی کو لوگوں کا مذہب تبدیل کرنے سے منع دلیل کی بنیاد پر کرتا ہے۔
اس وڈیو میں مولوی طارق جمیل جنت کی حور کو ایک سو
تیس فٹ لمبی بتا رہا ہے؟ کیا کسی نے اس سے پوچھا کے
یہ تفصیلات کب ریکارڈ ہوئی؟ قران کی کون سے ایت میں ہیں؟ اگر قران میں نہں تو کیا اللہ بھول گیا تھا تاکے مولوی بتائے؟
کیا آج معاشرے کے مذہب اور فرقوں کی بنیاد اسی قسم
کے مولویوں کی جھوٹی کہانیاں نہیں ہیں؟ کیا معاشرے
کو مولویوں سے آزاد نہیں کرانا ہوگا؟
اس وڈیو میں محروم خادم رضوی ہزاروں لوگوں کے سامنے
کذب بیانی کرتے ہوئے کہے رہا ہے کے حضرت موسی علیہ
سلام برطانوی ھند میں ساہیوال جیل میں آئے تھے یعنی اس کے
باوجود کے اس کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے
کے محمدﷺ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آیگا۔
کیا حضرت موسی صرف علمدین کو ملنے آئے تھے اور
علمدین کو پھانسی لگوا کر واپس چلے گے تھے؟ کیا
نبی کے پاس سے حضرت موسی علمدین کو نہ دیکھ سکتے تھے نہ بات کرسکتے تھے جو انکو
دوبارا طبیعیات کی زندگی ملی تاکے وہ دنیا پر صرف ایک
شخص کو ملنے کے لیے جایں یعنی اللہ خود قانون طبیعیات کے تعابے ہے۔ کیا یہ نور ایت 35 کی تردید نہیں؟ کیا یہ بلسفیمی نہیں؟ کیا ممبر پر بیٹھکر جھوٹ اور کذب بیانی جرم نہیں؟
کیا فرقہ خادم رضوی مسلمان ہیں؟
نیچے اس وڈیو میں مولوی کا جھوٹ سن لیں! کعبہ خود چل کر بغداد میں شیخ عبدالقادر جیلانی کا طواف کرنے آیا تھا یعنی وہی کعبہ نبی کا طواف کرنے کبھی مدینہ نہ جاسکا مگر عراق چلا گیا۔ یعنی بے جان چیز نے چلنا شروع کردیا اور اللہ کا فطرت کا قانون ہی بدل ڈالا مگر کسی کو کعبہ بغداد میں طواف کرتے نطر نہ آیا تاوقت چودہ سو سال بعد کے جھوٹے مولوی نہ پیدا ہوگے! کیا آج کے مذہبی فرقوں کی مذہبی بنیاد اسی قسم کے مولویوں کا جھوٹ اور دھوکہ دہی کی بیان بازی کا کلچر بلکل ایسے ہی نہیں جس طرح سیاسی پارٹیوں کے سیاسی کارکن اپنے سیاسی مفاد یا خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اپنے کام کو چھپانے اور انڈر کور رینے کےلیے من گھڑت کہانیاں گھڑنے کے کلچر کے طرز کی کہانیاں نہیں ہیں؟ کیا ان کہانیوں کے پیچھے ذاتی، سیاسی، مالی، گروہی اورفرقے کے مفادات نہیں چھپے ہوتے؟ کیا ان کذب گوہی کے ماہر تقریر بازوں کو جوابدے بنائے بغیر معاشرے میں بہتری ممکن ہے؟ جھوٹ مذہبی نگاہ سے گناہ کبیرہ اور سماجی طور پر بہت بڑا جرم ہے جسکا ارتقاب ہر مسجد کے ممبر سے آج تک ہوتا رہا ہے مگر اسے کسی نے نہٰیں روکا جو معاشرے کو سچائی سے دور انسانوں کو انسانوں سے درندہ بنانے کا رول (سرتن سے جدا) ادا کررہا ہے۔
اس پوسٹ میں ایک طرف ڈاکٹر موسی کا وڈیو ہے جو قران کو ثبوت کے طور پر پیش کر کے بتا رہا ہے کے کیا حرام ہے اور کیا حرام نہیں ہے اور جو کچھ بھی حرام ہے وہ قران میں لکھا ہوا ہے اور حرام اور حلال صرف اللہ (مثال کے طور پر بہت ساری ایات بشمول سورہ نحل ایت 116 سورہ اعراف ایت 32) کرسکتا ہے اور نبی کو بھی اسکا اختیار نہیں ہے۔
دوسری طرف چار وڈیوز میں معاشرے کا مذہبی عکس نظر آرہا ہے جس میں چاروں مولوی اپنے اپنے جھوٹ کو اپنے سامنے بیٹھے ہزاروں فالورز کو سچ بناکر پیش کررہے ہیں اور وہ اسے سچ مان رہے ہیں۔ کیا ان چاروں مولویوں کے اسلام کا نقشہ افغانستان میں جنسی اور مذہبی نسل پرستی کا اظہار نہیں ہے؟ طالبان، داعش، القاعدہ، حیات تحریر الشام اور ان جیسے درجنوں دوسرے گمراہ گرہو جو خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں بلخصوص اسرائیل کے لیے کام کرتے رہے ہیں، ان مولویوں کی جھوٹی تحریروں اور تقریروں کا ہی پروڈکٹ نہیں ہیں؟ کیا ان مولویوں کو معاشرے کے سامنے جوابدے بنانے کا وقت نہیں ہے؟ کیا جو بھی ملک ان گمراہ کن نطریات کو اسلام اور شریعت کے نعرے کا ٹیگ لگا کرعوام کے مذہبی جذبات سے کھیل کر ان کو گمراہ کر رہا ہے اُس ملک کوبھی جوابدے بنانے کا وقت نہیں ہے؟
یہ کسی فرد یا گروہ کی ذات یا انفرادیت کا سوال نہیں بلکے اجتماعی معاشرتی سوال ہے۔ کوئی معاشرہ جھوٹ، دھوکہ، فریب کاری وہ مذہب کے نام پر ہو یا کسی اور نام پر، اجازت نہیں دے سکتا، چونکے اس قسم کے جھوٹ اور فریبکاری کا کلچر معاشروں کو تبائی سے دوچار اور انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا سبب ہوتا رہا ہے جس طرح افغانستان کے عوام سے ان کا بنیادی حق، جو آج کے عہد میں انکا پیدائشی حق تسلیم ہے یعنی حق خود اختیاری، جسے بندوق، امریکہ اور دوسری بیرونی طاقتوں کی مدد سے چھین لیاگیا ہےاور عوام کو جبر کی بنیاد پربھیڑ بکریوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
افغانستان کی خواتین جو معاشرے کا 49.53% ہیں، ان سے ان کا انسان ہونے کا حق بھی چھینا جاچکا ہے لیکن دوسری طرف مسجد کے ممبر و محراب پر ناجائز قابض، اپنی انسان/سماج دشمن سوچ کی وجہ سے اس چنگیزیت کو وہ اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ چونکےان کی نظر میں خواتین برابر کا انسان نہیں لہذا خواتین کو گھروں میں مقید کرنے کا نام آزادی، اسلام اور انصاف ہے جو قران سے متصادم ہے اور یہودی مذہبی فکر کی بنیاد ہے۔ آج بھی بنیاد پرست یہودی نہ عورت کو اپنے آگے چلنے دیتا ہے نہ عورت کو اپنے آگے بیٹھنے دیتا ہے نہ ہاتھ ملاتا ہے، بلکے گاڑی میں بھی عورت کو پیچھے بیٹھاتا ہے۔ سنگسار کی سزا بھی یہودی تورات اور ھندو کی منوہ میں ہے نہ کے قران میں۔ اس یہودی بنیاد پرستی اور زرتش مذہبی رواج کا غلاف حدیث کے نام پر اسلام پر دو سو سال بعد بغداد میں چڑنا شروع ہوا تھا مگراسلام کو مکمل یہودیت رنگ میں رنگنے کی تحریک کے علمبردار ابن تعمئیی جیسا بدبخت شخص تھا جو خود بنیاد پرست یہودیت کے اثر سے کبھی آزاد نہ ہوسکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کے اس یہودی جنسی نسل پرستی کی فکر کے خلاف اللہ نے ھاجرہ جو ایک خاتون اور انسان تھی کے تاریخی سماجی عمل کو بلند کر کے انسانیت (مرد و زن) کے لیے عبادت کا درجہ دیا اور بقرہ ایت158 میں اِنَّ الصَّفَا وَالۡمَرۡوَةَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰهِۚ قرار دیکر عورت کے تاریخی
سماجی ذمداری کے عمل کوعبادت کا درجہ دیکر عورت کے مقام کو نہ صرف بلند کیا بلکے مذہبی تقدس میں اللہ نے اپنے قریب کھڑا کیا مگر مردوں نے اُسی نبی کے اسلام پر قبضہ کرکے دو سو سال بعد عورت سے نہ صرف برابر کا انسان ہونے کا حق چھین لیا بلکے جنس کی بنیاد پر اس سے امامت اور قیادت کا برابری کا حق بھی چھین لیا۔ مسجد سے بدخل یا اپنی صف سے پیچھے دھکیل کر بچوں کے برابر بیٹھا کراسکے بالغ ہونے پر بھی شک کا بیج بویا گیا۔ یہاں تک کے اسے ان ٹچ ایبل مخلوق کا درجہ دیکرمرد کی جنسی لذت یا بچے پیدا کرنے کی مشین (پراپرٹی) کا تصور دیکرمذہبی تقدس کا غلاف صرف مرد کے لئے مخصوص قرار دیا جس سے اسلام ایک جنسی نسل پرست یہودی مذہب بن گیا۔
غور طلب بات یہ ہے کے یہ یہودیت سے اسلام کا بنیادی اختلاف تھا۔ قران نے مدینہ میں یہودیت کے ساتھ ویلو کنسنسس کے لیے بقرہ ایت 173 المائدہ ایت 3 کا حکم جس سے کھانے پینے کی چیزوں میں مقامی آبادی میں اشتراک پیدا ہوا تھا، نساء ایت 3 میں مکہ کے لامحدود شادیوں کے رواج کو کم کرکے چار کیا چونکے مدینے کے یہودی اُس وقت چار کرتے تھے جسے انہوں نے 12 ویں صدی میں ختم کیا تھا، کے علاوہ بچوں کا ختنہ اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے عبادت بھی قران کے حکم کے بغیر مدینے کے یہودی مذہبی رواج کو پراری کے طور پراسلام نے اختیار کیا تھا تاکے مدینہ کے لوگوں کے درمیان رنگ، نسل، مذہب، جنس اور قومیت کے درمیان فرق کو کم کرکے سماجی ہم آہنگی پیدا کی جاسکے جو اُس وقت مدینہ کی سماجی سائنس کی ضرورت تھی اور کسی بھی سماج کے اندورنی امن اور بھائی چارے کے لیے انسانوں کے فطری اختلاف کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ناگزیر بھی ہوتا ہے مگر اس کوشش کے باوجود جب یہودی اپنے مذہبی کٹرپن کو دلیل پر مسلط کرنے سے باز نہ آئے تو تب قران نے
کعبہ کا رخ مکہ کی طرف کرنے کا حکم دیا جہاں پر ہاجرہ کا سماجی ذمداری کی تاریخی کہانی پہلے ہی عبادت کا درجہ پا چکی تھی (مرد و زن حج و عمرا پر اسی جگہ دوڑ کر جہاں ھاجرہ دوڑی تھی کی تقلید کرتے ہیں جہاں خود نبی دوڑا تھا) اور قران نے اسے اُسی طرح قبول کرکے جنسی نسل پرستی کے عقائد پر کاری ضرب لگائی تھی۔
No comments:
Post a Comment