ریحان خان کا یوٹیوب پر سوال کہ مسلمانوں کی بقاء صرف اللہ کا نظام ظالموں کی بقاء شیطانی نظام اسلئے آپ سب سے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا پر اللہ کے نظام کیلئے آواز بلند کریں جزاکم اللہ خیر
جواب :لوگوں کو گمراہ کر نے کے لیے مذہبی نعرے سنتے ہوئے پاکستان کے عوام کو 70 سال گزرگے ہیں مگر عوام آج تک مغرب کے قریب تو دور کی بات ہے اس کے ادھے تک بھی معاشرے کو بہتر نہ کرسکے۔ میری جو قران کی سمجھ ہے اس کے مطابق نہ اللہ کا کوئی نظام ہوتا ہے اور نہ ہی شیطان بلکہ یہ علامتی اظہار ہوتا ہے جسے لوگ لٹرل سنس میں سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ قانون فطرت اللہ ہی کا نظام ہے لیکن دنیا کا سماجی نظام انسان کی سماجی ضرورتوں کی تخلیق ہے اللہ کی نہیں اور انسان اس سلسلے میں مکمل خودمختار ہے۔
ہر نظام قانون طعبیات کے تابعے ہوتا ہے اور دنیا ما بعد الطبعیات میں نہیں آتی۔ مابعد الطعبیات عقیدہ یا مذہب ہوتا ہے جس کی تصدیق یا تردید انسان کے حواس خمسہ سے ممکن نہیں لیکن وہ نظام جو قانون طبعیات کے تابعے ہو اس کی تصدیق یا تردید انسان اپنے حواس خمسہ سے کرسکتا ہے اس کے لیے ایمان یا عقیدے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے سیاسی مفادات کے لیے مذہبی نعرہ سیاسی/سماجی/معاشی مسائل سے توجہ ھٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو میرے نزدیک دھوکہ دہی ہے جس سے معاشرے کو نقصان ہی ہوتا ہے۔
نظام دنیا میں بسنے والے انسانوں کی سماجی ضرورتوں کا نتجہ ہوتا ہے اللہ کا نہیں وہ ساری کائنات کا مالک ہے۔ اسی لیے نبی کی اسلامی تحریک جو سب لوگوں کو شامل کرکے تھی اور جس میں مسلمان اور غیر مسلم کی تفریق نہیں تھی اور اپنے وقت کی ایک بڑی ترقی پسند معاشی، سماجی، سیاسی اور تہذیبی تحریک تھی جو یقینا" اپنے ماحول اور وقت کی ضرورتوں کے تابعے تھی، جسے غلط طور پر بعد کی تاریخ نے مذہبی تحریک کا رنگ دے دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے پہلے دو سو سال کی اسلامی سلطنت کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد صرف 8% تھی۔ ایک مسلمان کی حثیت میں قران ہماری رانمائی، انسان اور فطرت کے رشتے کے حوالے سے کرتا ہے۔ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ قران میں لوگوں کا عقیدہ بدلنے سے اس بنیاد پر روکتا ہے کہ اگر اللہ سب لوگوں کو ایک ہی مذہب کا بنادیتا تو پھر بھی لوگ اختلاف کرتے۔ پھر قران دلیل کی بنیاد پر نبی سے سوال کرتا ہے کہ "اے نبی کیا اس کے باوجود تم لوگوں کا عقیدہ بدلنا چاہتے ہو؟ قران کا کلام جو اپنے حاضر سے مخاطب ہے اس کی غلط تعبیر و تشریع اور حدیثوں کے سبب قران کا صیح پیغام اور اس کی روح مسلمانوں کے درمیان نبی کی وفات کے ساتھ ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسخ ہونا شروع ہوگئی تھی جو آج تک جاری ہے۔
سیاست کسی معاشرے کی کسی خاص ماحول اور وقت کے تقاضوں کی ضروتوں کے تعابعے ہوتی ہے۔ معاشرتی ماحول اپنے پیداواری رشتوں میں تبدیلی اور ترقی کے سبب ناگزیر طور پر بدلتاریتا ہے جس سے ماحول بدلتا ہے۔ وہ لوگ جو سیاست کو اللہ/رسول کی سیاست قرار دیکر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انتہا درجے کی مذہبی ریاکاری کے مرتکب ہوتے ہیں جس سے ان کی نہ صرف سماجی سائنس کے بارے میں کم علمی آشکار ہوتی ہے بلکہ ان کی قران سے عدم وقفیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ پاکستان میں سوال نہ مذہبی تھا نہ ہے بلکے معاشرے کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کا ہے۔ اس ضرورت کو مذہبی نعرے بازی کرکے فکری انتشار پیدا کرکے دبادیا جاتا ہےجس سے معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتامگر جہالت کو تحفظ ضرور ملتا ہے جو سیاسی ریاکاری کے سوائے کچھ اور نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی مفادات کی ضرورت کے لیے تاریخی طور پر اسلام اور قران کو لوگوں سیاسی دھوکہ دہئی اور مالی مفادت کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر کامیابی سے استعمال کیاگیا اور آج تک ہورہا ہے۔
مذہبی نعرہ سب سے پہلے جن لوگوں نے اسلام کے اندر لگایا تھا "لا حکم الاللہ" وہ جنگ صفین میں صلح کے خلاف حضرت علی کی فوج سے الگ ہونے والے بارہ ہزار افراد پر مشتمل فوج تھی جو تاریخ میں خوارج کے نام سے جانی گئی ہے۔ یہ خوارج ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے الائمر بلمعروف والنھی عن المنکر متعارف کرایا تھا۔ یہ خوارج ہی تھے جنہوں نے قران پر فحاشی کا الزام لگایا اور سورۃ یوسف کو فحاشی کی داستان قرار دیکر قران سے خارج کردی تھی۔ یہ خوارج ہی تھے جنہوں نے اسلام میں سب سے پہلے فتواہ بازی کا آغاز کیا اور حضرت عثمان، حضرت علی اور امیر معاویہ کو کافر قرار دیا تھا، اسی بنیاد پر حضرت علی اور امیر معاویہ کو واجب القتل قرار دیاتھا۔ حضرت علی انہی کے ھاتھوں شہید ہوئے جبکہ امیر معاویہ زخمی ہوئے تھے مگر بچ گے تھے۔
سیاست کسی معاشرے کی کسی خاص ماحول اور وقت کے تقاضوں کی ضروتوں کے تعابعے ہوتی ہے۔ معاشرتی ماحول اپنے پیداواری رشتوں میں تبدیلی اور ترقی کے سبب ناگزیر طور پر بدلتاریتا ہے جس سے ماحول بدلتا ہے۔ وہ لوگ جو سیاست کو اللہ/رسول کی سیاست قرار دیکر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انتہا درجے کی مذہبی ریاکاری کے مرتکب ہوتے ہیں جس سے ان کی نہ صرف سماجی سائنس کے بارے میں کم علمی آشکار ہوتی ہے بلکہ ان کی قران سے عدم وقفیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ پاکستان میں سوال نہ مذہبی تھا نہ ہے بلکے معاشرے کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کا ہے۔ اس ضرورت کو مذہبی نعرے بازی کرکے فکری انتشار پیدا کرکے دبادیا جاتا ہےجس سے معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتامگر جہالت کو تحفظ ضرور ملتا ہے جو سیاسی ریاکاری کے سوائے کچھ اور نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی مفادات کی ضرورت کے لیے تاریخی طور پر اسلام اور قران کو لوگوں سیاسی دھوکہ دہئی اور مالی مفادت کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر کامیابی سے استعمال کیاگیا اور آج تک ہورہا ہے۔
مذہبی نعرہ سب سے پہلے جن لوگوں نے اسلام کے اندر لگایا تھا "لا حکم الاللہ" وہ جنگ صفین میں صلح کے خلاف حضرت علی کی فوج سے الگ ہونے والے بارہ ہزار افراد پر مشتمل فوج تھی جو تاریخ میں خوارج کے نام سے جانی گئی ہے۔ یہ خوارج ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے الائمر بلمعروف والنھی عن المنکر متعارف کرایا تھا۔ یہ خوارج ہی تھے جنہوں نے قران پر فحاشی کا الزام لگایا اور سورۃ یوسف کو فحاشی کی داستان قرار دیکر قران سے خارج کردی تھی۔ یہ خوارج ہی تھے جنہوں نے اسلام میں سب سے پہلے فتواہ بازی کا آغاز کیا اور حضرت عثمان، حضرت علی اور امیر معاویہ کو کافر قرار دیا تھا، اسی بنیاد پر حضرت علی اور امیر معاویہ کو واجب القتل قرار دیاتھا۔ حضرت علی انہی کے ھاتھوں شہید ہوئے جبکہ امیر معاویہ زخمی ہوئے تھے مگر بچ گے تھے۔
اللہ، نبی، اسلام اور قران کا نام سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے نبی کی وفات کے بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا جس کے سبب اسلامی معاشرہ پہلے 20 سال کے دوران ہی خانہ جنگی کا شکار ہوگیا تھا جس کا نتجہ حضرت عثمان کی شہادت ہوئی تھی اور جہاں سے مسلمانوں میں شدید خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔ حضرت عثمان جو مسلمانوں کی سلطنت کے خلیفہ تھے مگر اس وقت کا نظام انصاف اپنے خلیفہ کو ناحق قتل ہونے پر انصاف نہ دے سکاتھا تو عام افراد کو کس قسم کا انصاف ملتا ہوگا اور آج کتنا انصاف دیے سکے گا؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنے اپکو مسلمان کہلانے والوں نے ہی اپنے سیاسی اقتدار کی لالچ کی خاطر اپنے ہی نبی کی اولاد کا قتل عام کیا تھا۔ مسجد نبی میں گھوڑے کسی غیر مسلم نے نہیں مسلمانوں نے باندے تھے۔ مدینہ کے اندر تین دن میں خواتین کے ساتھ ہونے والا ریپ جس کے سبب 500 خواتین حاملہ ہوئی تھی، کسی غیر مسلم فوج نے نہیں بلکے مسلمانوں کی فوج نے ہی کی تھی اور ریپ ہونے والی خواتین میں نبی کے قریبی صحابہ کی بیویاں، بہنیں اور بہٹیاں بھی شامل تھی۔
اس لیے نظام ایک سائنسی حقیقت ہے نہ کہ روھانی یا مذہبی اور اس کی بہتری صرف اسی وقت ممکن ہوگی جب عوام کی تہذیبی، سماجی، مذہبی اور سیاسی تربیت سائنسی طریقے سے کی جائے نہ کہ مذہبی فلسفے کی بھول بولایوں میں ڈالکر عوام کو گمراہ رکھا جائے۔ مذہب کو سماجی اور فطری حقیقت کے ساتھ گڈمڈ کرنے سے نہ ہمیں مذہب کو صیح طور پر سمجھنے میں مدد ملیگی اور نہ ہی معاشرے کی بہتری ہوگی۔ مذہب ایک حقیقت ہے جس کا تعلق لوگوں کے دل و دماغ سے ہوتا ہے اور جس کی سماجی نویت دو افرد کے درمیان بھی فرق ظاہر کرتا ہے اور جس کی سماجی ضرورت معاشرے کو متحد نہیں کرتی بلکے مذہب معاشرے کے داخلی اتحاد کو تقسیم کرتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہب اپنی فطرت میں معاشرے کو سماجی طور پر تقسیم اور کمزور کرتا ہے جس سے سماجی آئم آئنگی پیدا نہیں ہوتی۔ مذہبی فکر کے مدمقابل سماجی شعور، سماجی فکر اور سماجی ضرورت معاشرے کو متحد کرتی ہے۔ اس لیےعقیدہ پرستی کی سیاست معاشرے کے لیے ذہر قاتل ثابت ہوتی رہی ہے اور آج بھی ہے۔ مذہب کا تعلق فرد کی ذات سے ہوتا ہے جسے اجتماعی زندگی پر مسلط کرنا خودکشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور قران ہمیں یہی رانمائی کرتا ہے۔ اس لیے مذہب کو سماجی اور فطری سائنس کے ساتھ مکس نہیں کیا جاسکتا۔
(Ref Qur`an 10:99 and 11:118)
(Ref Qur`an 10:99 and 11:118)
No comments:
Post a Comment