Tuesday, June 25, 2019

جدید دور کی مسجدیں اور مندر لوگوں کو مذہب کے نام پر گمراہ کرتے ہیں۔ تحریر شبنم چوھدری۔



اس یوٹیوب کے وڈیو میں یہ عورت (ڈاکٹرھاشمی ) لوگوں کو گمراہ کررہی ہے۔ مجھے تو ایسا معسوس ہوتا ہے کہ اس کی اسلام سے متعلق تعلیمات سطعی اور سیاسی نظریات کا چربہ ہیں۔ یہ خاتون اپنے نام کے ساتھ ڈاکرتو لکھتی ہے مگر جدید سماجی اور فطری ساہنس کے قوانین کو سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کے اندر برقعہ/ داڑھی برگیڈ کے پاس لفظ اللہ ایک ایسی جاگیر ہے جواپنے غیرحقیقی نظریات کے فروغ کے لیے ہمیشہ استعمال کرتے ہیں۔ 
 شادی اسلام میں پہلے دن سے ایک سول کنٹرکٹ ہے جسے کرسچنوں نے اٹھاروی صدی میں اختیار کیا تھا اور ھندو آج بھی مانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ دو سوسال بعد نبی اور صحابہ کے نام پر جھوٹی حدثیں گھڑ کر اسلام کو یہودیت میں بدل دیا گیا تھا جس کو آج تک کبھی بھی چیلنج نہیں کیا گیا ہے۔ یہ جھوٹی کہانیاں لاکھو تک پہنچ گئی تھی جس سے خود قران کی ترید ہونے لگی تھی اور پھر اس میں کانٹ چانٹھ کر کہ 5000 کی تعداد کوباقی رکھا گیا تھا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ لوگ جو حدیثیں اپنے موقف کی ہمایت میں استعمال کرتے ہیں وہ لازمی طور پر ان پانچ ہزار میں سے ہوں۔ یہ وہ جھوٹی کہانیاں ہیں جن کو یہ بنیاد پرست سنہ /حدیث کے نام سے استعمال کرکے لوگوں کو بیوقوف اور معاشرے پر مذہبی فسطایت مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بخاری حضورﷺ کی وفات کے 178 سال بعد پیدا ہوا تھا اور امام حنبل کا شاگرد تھا۔ بخاری اور حنبل کی حدیثیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس بنیاد پرستی کی وجہ یہودی مذہب کا اثر تھا جو امام شافعی لیکر آئے تھے جس کے نتجے میں اسلام آخرکار خلیفہ متوکل کے دور میں نبیﷺ کے اسلام کے خلاف ایک قباہلی مذہبی اخلاقیات میں بدل گیاتھا۔ خلیفہ متوکل کے دور میں یہ حدثیں یعنی دو سوسال بعد بغیر کسی تحریری ثبوت کے جمع کر کے اسلام میں قبول اور ان کے ذریعے قران کو مسخ کیا گیا تھا جو آج تک جاری ہے۔ جس شخص سے سب سے زیادہ حدیثیں منسوب کی جاتی ہیں وہ ابوہریرہ ہیں جو اپنی آخری عمر میں مسلمان ہوا تھا اور اس کے لے مشہور تھا کہ وہ نبی اور صحابہ کے نام پر جھوٹی کہانیاں گھڑتا تھا۔ 
عورت اور مرد کا جنسی تعلق حق خود اختیاری کی بنیاد پر کسی قانونی اور مذہبی ضابطے کی موجودگی کے بغیر اج تک self-regulatory نظام کے تحت اپریٹ  ہوتا رہا ہے۔ اس میں بیوی اور خاوند کی مرضی شامل ہوتی ہے مگر مسلہ ایسے لوگوں کا ہے جو اپنے رویے میں غیر مہذب، لالچی اور خود غرض واقح ہوتے ہیں۔ جب ایک مہذب خاوند کو سیکس کی ضرورت معسوس ہوتی ہے مگر بیوی اس وقت ایسی ضرورت معسوس نہیں کرتی تو خاوند ہمیشہ صبر کرتا ہے نہ کہ طاقت کے زور پر جبر اور زبردستی کا طریقہ استعمال کرکے جنسی تسکین حاصل کرے۔ زبردستی لاقانونیت کا نام ہے جس کی بنیاد جدید دور کی مسجدیں اور مندربنے ہوئے ہیں جس کا اظہار ہم آج کل ھندوستان کے معاشرے میں لوگوں کا گوشت کھانے کی بنیاد پر قتل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں مذہب کے نام پر طاقتور کمزورں پراپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جبرکے اسی نظریے کے تحت اس خاتون کی فکر بیڈ روم کے جبرکو تحفظ دینے کی کوشش ہے جس میں خاوند چونکے طعبی طور پر طاقتور اور بیوی کمزور ہے، اس لیے طاقتور کو کمزور کے جسم کا حق ملکیت دیا جارہا ہے۔ یہ نام نہاد اسلامی فکر کمزور کے خلاف طاقتور کو جبر کا حق دینے کی کوشش کررہا ہے جس کی بنیاد جبر کے نظریے کا فلسفہ ہے اور انگریزی میں might is right اور اردو میں جنگل کا قانون کہلاتا ہے۔  اس مذہبی فکر کے حامل لوگ جدید سماجی ساہنس سے نابلد نظر آتے ہیں۔ آج حق خوداختیاری، فرد کا بنیادی حق ہے جس کو فرد سے دنیا کے 7 ارب  لوگ بھی چھینے کا حق نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہ معترم حضرات جنے میں داڑھی/برقعہ برگیڈ قرار دیتی ہوں، اللہ کے نام پر معاشرے کو حق آزادی سے محروم کرکے بادشاہت/مطلق العنانیت کی غلامی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
حضرت عائشہ جب اپنے گلے کا ھار گم ہونے پرتلاش کرنے کے لیے گئی تھی تو پیچھے سے قافلہ جاچکا تھا۔ انہوں نے رات وہاں پر ہی بسر کی تھی اور دوسری صبح صفہان بن مہطل کے ساتھ اس کے اونٹ پر آئی تھی۔ اگر حجاب اور محرم ہوتا تو کیا بنی ﷺ کی بیوی بغیر محرم کے اکیلی ھار تلاش کرنے کے لیے جاسکتی تھی؟ کیا وہ نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر جاسکتی تھی؟ کیا اگر حجاب/محرم ہوتا تو وہ صفہان کے ساتھ اکیلی آسکتی تھی؟ کیا نبی ﷺ نے عائشہ سے ایسا کوئی سوال کیا تھا کہ اس نے حجاب یا محرم کی خلاف ورزی کی ہے؟ جنگ جمل جو حضرت عائشہ اور حضرت علی کی فوجوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔ حضرت عائشہ نے اپنی فوج کی مدینہ سے کمان/قیادت کرتے ہوئے عراق کے شہر بصرا تک کا سفر کیا تھا اور اونٹ پر بیٹھکر میدان جنگ میں اپنی فوج کی کمان/قیادت کی تھی۔ اگر حجاب اور محرم ہوتا تو کیا نبی کی بیوی مدینہ سے عراق تک دوسرے مردوں کے ساتھ بغیر محرم کے سفر کرسکتی تھی جن میں نبی ﷺ کے قریبی صحابہ جنگ کے دونوں طرف شامل تھے؟ کیا صحابہ اعتراض نہ کرتے؟
اس لیے حجاب، محرم، سنگ سار، شراب پر پابندی قران سے متصادم  ہے جسے دوسوسال بعد خلیفہ متوکل اور حنبلی سکول کے دور کی بات ہے اس کا شروع کے اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سارے مسلمان حنفی تھے بعد میں شمالی افریقہ اور یورپ نے مالکی اور جنوبی افریقہ اور مشرق بعید نے شافعی سکول اختیار کیا تھا۔ حنبلی سکول کسی نے اختیار نہیں کیا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار حنبلی سکول سعودیوں نے سرزمین حجاج پر ۱۹۲۵ میں  قبضے کے بعد اختیار کیا تھا۔ پہلے ان کے نجدی/وھابی علما نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ہم صرف حدیثی ہیں لیکن بعد میں ان کو پتہ چلا کہ قران اور حدیث ٹکسٹ ہے اور ٹکسٹ نطام نہیں ہوتا اس لیے انہوں نے اپنی بچکانہ سوچ سے روجو کرکے اسلام میں سب سے بنیاد پرست سکول جس کو کسی نے اس سے قبل اختیار نہیں کیا تھا، یعنی حنبلی سکول کو قبول کیا جو 1925 کے بعد کی بات ہے۔ اس عورت کوتحقیق کے بجائے جدید سیاسی نظریات کے پروپیگنڈا کا حامل مذہبی لٹریچر کو بنیاد بناکر لوگوں کو گمراہ کرنے پر شرم آنی چاہے اور مجھے معسوس ہوتا ہے کہ اس قسم کی تبلیغ حکمرانوں کا مال کھاکر لوگوں کو جبرکے نظریات کی خوراک دیکر ایسی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ معاشرہ جبر کے نظریات کو قبول کرنا سیکھ جاٗئے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ کس طرح معاشرہ قانون کو اپنے ھاتھ میں لیکر انتہاہ پسند اور تشدد کے راستے پر چل نکلا ہے جس کی عادت میرے نزدیک مرد کو بیڈروم اور گھر کے اندر بیوی، بچوں، سکول/مدرسے میں بچوں اورگھریلوں حیوانات پر تشدد سے ہی بنتی ہے۔ جو بھی ریکارڈ دیکھا جائے مرد ہی انتہاہ پسندی اور تشدد کی قیادت کرتا نظر آتا ہے۔ 


1

No comments: