Tuesday, June 25, 2019

کیا خاوند کو بیوی کے ریپ کا مذہبی حق ہے؟ شبنم چوھدری


قران کی تعبیر و تشریع کا پہلا اصول یہ ہے کہ قران خود قران کی تعبیر و تشریع کرتا ہے. سوال کتاب کا نہیں بلکہ معاشرے اور فرد کے حقوق کا بنیادی اصول ہے۔ کیا دنیا کے سات ارب انسان مجھے قتل کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ کیا معاشرہ میرے بنیادی حقوق میں مداخلت کرسکتا ہے؟ میرے بنیادی حقوق میں میری جان، میرے عقائد، میری پسند و ناپسند، میرا حق انصاف، حق برابری (مواقعوں میں) اور حق خود اختیاری ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو معاشرے اور فرد کی زندگی کے درمیان قاعدے قانون کا تعین کرتی ہیں اور قاعدے قانون وقت اور ماحول کی سماجی ضرورتوں کا اظہار ہوتے ہیں اور سمجاجی ضرورت کے بدلنے سے بدلتے ہیں۔ جبکہ یہ خاتون (ڈاکٹر ھاشمی) اور اس جیسے دوسرے فرقہ پرستانہ سیاست کے علمبردار اپنے عقائد کو اللہ کے نام کے ساتھ دوسروں پر مسلط کرنا اپنا دینی فریضہ اور حق سمجھتے  ہیں۔ 

سوال عورت کی رضامندی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی تعلق جنسی تشدت ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ جرم ہے یا نہیں؟ میرے نزدیک یہ سخت جرم ہے جبکہ یہ عورت (ڈاکٹر فرحت ھاشمی) اسے ایک دوسرے مرد کا مذہبی حق سمجھتی ہے اور یہ تشریع کئے بغیر کے ایک فرد کا کسی دوسرے فرد کے جسم پر حق کس طرح ممکن ہے؟ میری اجازت اور رضامندی کے بغیر کس طرح دوسرا شخص میرے جسم کے حقوق کی ملکیت رکھتا ہے؟ یہ دراصل لانڈی کے ساتھ اس کے مالک کی جنسی لذت کے کلچر کی تاریخی سوچ ہے جس کا رنگ حدیث لٹریچر میں نظر آتا ہے جب کہ عہد غلامی اب ختم ہوچکا ہے۔ خاوند اور بیوی کے درمیان اسلام میں پہلے دن سے شادی ایک سول کنٹرکٹ ہے، جبکہ کرسچنٹی نے 18 ویں صدی میں اسے اختیار کیا گیا تھا اور ھندو عقائد کے لوگ آج بھی شادی کو سول کنٹرکٹ مانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسی بنیاد پر وہ خاوند کو بیوی کے ریپ کرنے کے حق کو مذہبی حق سمجھتے ہیں اور اسی بات کی تبلیغ یہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی  اور برقعہ/داڑھی برگیڈ مسلمانوں کے اندر کرتے ہیں۔ 

کنٹرکٹ دو برابر کی پارٹیوں کے درمیان ہوتا ہے اور دو افراد، گروپوں، معاشروں، قوموں یا اقوام کے درمیان کنٹریکٹ  پر عمل، دونوں کی مرضی اور منشا کا شامل ہونا لازمی ہے۔ پارٹیوں کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہو تو اس کی تعبیر و تشریع کے لیے عدالت جایا جاتا ہے نہ کہ کوئی ایک پارٹی دوسرے پر طاقت کا استعمال کرے۔ کیا یہ لاقانونیت کے کلچرکی سوچ کو معاشرے میں فروغ نہیں دیا جارہا ہے؟ لاقانیت، بیڈروم، فیملی میں ہو یا معاشرے میں، لاقانیت ہی ہے۔ کیا کوئی معاشرہ لاقانونیت کی اجازت  دے سکتا ہے؟ دراصل معاشرے کے اندر یہی وہ مذہبی اور سماجی فکر ہے جو مسلم معاشروں کے اندر بلخصوص اور تیسری دنیا کے معاشروں کے اندربلعموم ایسے کلچر کے فروغ  کی بنیاد بن رہی ہے جو فرد اور معاشرے کوقانون اپنے ھاتھ میں لینے، انتہا پسندی، عدم برداشت، نفرت اور تشدد سے دوچار کرتا ہے۔  انسان کے اس رویے کے خلاف سماجی ساہنس کے ثبوت کی روشنی کی بنیاد پر اور فرد کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور مہذب دنیا کی عدالتیں، آج یہ تسلیم کرچکی ہیں کہ یہ عورت اور مرد کا حق خود اختیاری ہے اور کوئی بھی پارٹی رضامندی کے بغیر دوسرے کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق قائم کریگا/گی یا کرنے کی کوشش، ایک قانونی جرم ہوگا۔
 
 قران کی سورۃ بقرہ کی آیات ۲۸۲ (Qur'an 2:282) جس میں دو افراد کے درمیان لین دین کے عمل کو تحریری شکل، گواہوں کی موجودگی میں لازمی قرار دیتا ہے اور خود تشریع کرتا ہے کہ شک کی صورت میں یہ قابل قبول ثبوت ہوگا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ نبی کے ساتھ منسوب باتوں کو بغیر کسی تحریر کے چھوڑ دیا جاتا جو 1400 سال بعد بھی امت کے لیے پیش کی جارہی ہوتی؟ دو سو سال بعد حدیثوں کی ضرورت ہی اس لیے پیش آئی تھی  کہ وہ (خلیفہ متوکل/حنبلی سکول)  اسلام کو جس طرف لیجانا چاہتے تھے خود قران ان کے راستے میں رکاوٹ بناہوا تھا۔ اس لیے قران کے مدمقابل یہودیت کے ربانکل لٹریچر کے چربے کو نبی ﷺ اور صحابہ کے نام پر دو سو سال بعد کہانیاں گھڑ کر اس کو سنہ/حدیث لٹریچر کا نام دیکراسلام کے اندر درآمد کرکے، اسلام کو ایک فرقہ پرست قبائلی اخلاقیات کا حامل ایک قبیلہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جب کہ اسلام کا پہلا تصادم ہی اپنے قبیلے قریش کے اندر سے شروع ہوا تھا اور قبیلے سے غداری ہی کا حضورﷺ پر بڑا الزام تھا۔ 

 قران مذہب یا لامذہب کی تعریف سورۃ یونس کی آیات ۹۹ (Qur`an 10:99) اور سورۃ حد کی آیات ۱۱۸ (Qur'an 11:118)   میں کرتا ہے کہ مذہب کا تعلق لوگوں کی فطرت سے ہوتا ہے جس کا لازمی رشتہ فرد کے دل و دماغ سے جڑا ہوتا ہے، جسے فرد خود بھی نہ ڈال سکتا ہے نہ نکال سکتا ہے بلکہ انسان کے مخصوص ماحول میں پیدا ہونے کے سبب کا تعلق رکھتا ہے اور ماحول کے مطابق ہی اپریٹ ہوتا ہے جسے نہ صیح اور غلط کے پیمانے پر ناپہ اور تولہ جاسکتا ہے اور نہ ہی طاقت کے ذریعے مسلط کیا جاسکتا ہے۔ قران نبیﷺ کو دلیل دیکر سوال کرتا ہے ، کہ کیا اس کے باوجود بھی آپﷺ لوگوں کے عقائد کو تبدیل کرینگے؟ یعنی نبیﷺ کو لوگوں کے عقائد تبدیل کرنے سے روکا جارہا ہے جبکہ آج کے مسلمانوں کی مذہبی فکریہ ہے کہ دوسروں کے عقائد کو تبدیل کرنا نبیﷺ اوراسلام کی آمد کا مقصد تھا۔ یہ مذہبی فکر قران سے متصادم ہے مگر اس سوچ کو فروغ حدیث لٹریچر سے ملا ہے۔  اسلام اپنے وقت کی ایک ترقی پسند تحریک تھی جس نے معاشرے کوساہنسی فکر و نظر سے دیکھا اور سمجھا اور سماجی، مذہبی، معاشی اور سیاسی طور پر اس کو ریفارم کرنے کی کوشش کی  نہ کے مخصوص عقائد کو فروغ دینے تک محدود ایک عمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دوسوسال کے دوران اسلامی سلطنت جو افریقہ، یورپ اور ایشیاء تک پھیلی ہوئی تھی،اور اس کی کل آبادی میں مسلمان عقائد کے افراد کی تعداد صرف 8% تھی۔ 

 قران کی روشنی میں جب ہم نبیوں، ولیوں اور انقلابیوں کی تحریکوں کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں ایک بات صاف نظرآتی ہے کہ سب کی یہ قدرے مشترک تھی کہ اپنے اپنے عہد کے معاشروں کو مذہبی تنگ نظری، جبر، جہالت اور امریت سے آزاد کرانا رہا تھا تاکہ معاشرے مذہبی سیکولر رویے اور اخلاقیات کی طرف مڑسکیں اور فرد کو معاشرے میں آمن اور برابری کی بنیاد پر حق و انصاف کے ساتھ رینے اور جینے کی جگہ مل سکے مگر جبرپسندوں، ناانصافی کے علمبرداروں  اور تعصب کے قیدیوں نے کمزوروں کو انصاف دینے سے ہمشہ سے ہی انکار کیا اور آج تک کررہے ہیں۔ اس لیے بیڈروم تشدد/بیوی کے ساتھ زنا بلجبرکے نظریات کے علمبردار تاریخی طور پراسی بہودہ فکر کا تسلسل اور ترجمان ہیں۔

No comments: