Friday, March 8, 2019

Pakistan Given Advice To Accept The State Of Israel | What Imran KHan Re...

میرا اس وڈیوں میں جو خبر ہے اس پر تبصرا یوٹیوب پرپوسٹ کیا اور دوبارا پیش کررہا ہوں۔

صوفی صاحب آپ کا جو پورا جہادی نظام ہے جس نے مسلمانوں کو تباہ و برباد
کرکے رکھ دیا ہے وہ اسرائیل کے صیونی نظریات کا ہی حصہ ہے۔ بھائی ضیاالحق
کے دور میں ایک طرف جی سی سی کے ذریعے عراق کو ڈھڑا ڈھڑ فوجی ساز و سامان
سپلائی کیا جارہا تھا جس کے پیچھے بھی اسرائیل اور امریکہ تھے تو دوسری طرف
افغان مجاہدین کے پردے میں اسرائیلی جنرلز امریکی پاسپورٹ پر فوجی
سازوسامان کراچی سے اسمگلرز کے ذریعے ایران بھیج رہے تھے تاکہ جنگ جاری رہے
اور عراقی/ایرانی معاشروں کو کمزور کر کے دونوں کو کنٹرول میں لایا جائے۔
یہ سامراجی اصول ہے۔ یہ سب کچھ آپ کی "لمبر" (نمبر) وان آئی ایس ایس اور
ضیاالحق کے تعاون سے ہورہا تھا۔ بات صرف اتنی تھی کے اسرائیلی جنرل ضرور
پاکستان سے ہوکر کام کریں مگر شرط یہ تھی کہ وہ امریکی پاسپورٹ پر ہوں ۔
کراچی کا امن خود پاکستان کی ایجنسیوں نے اسی لیے تباہ کیا تھا کہ وہ اس
قسم کی خفیہ کاروایوں کو ایک سموک سکرین دے سکیں۔ عربوں اور مسلمانوں کی
تبائی کا سبب آپ جسے صوفی سیاست دان ہیں۔ سب سے بڑی غلطی عربوں اور
مسلمانوں کی یہ تھی کہ ۱۹۴۸ (1948) میں یواین کی قرار داد جس میں دو
ریاستییں ایک فلسطین اور دوسری اسرائیل تھی کو اسرائیل نے قبول کرلیا تھا
مگر عربوں اور مسلمانوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد دوسری غلطی چین کے
مشورے کے باوجود فلسطین کی جدوجہد کو تشدد کے راستے پر لیجاکر ھاجینکنگ
اور اولمپکس میں اسرائیل کے کھلااڑیوں پر حملہ تھا جس سے مغرب کے عوام
اسرائیل کی حمایت کرنا شروع یوگے اور آخری بڑی غلطی فلسطینی معاشرے میں
حماس کو آگے بڑھاکر مسلم کرسچن اتحاد کو کمزور کرنا تاکہ اسرائیل کو دو
ریاستی حل سے بھاگنے کا جواز دیا جاسکے۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو
اس کی شادی کے پیچھے بھی آئی ایس آئی اور موساد شریک تھی۔ میں تو خود یہ
بات فرام ھارسس موتھ سے جانتا ہوں اور اس کے پیچھے خیال یہ تھا کہ اس شادی
کے ذریعے یہودیوں اور مسلمانوں کو قریب لاکر اور ان کے درمیان اتحاد قائم
کیا جائے۔ جو بات مذہبی فرقہ پرستوں کی سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ مذہب
یا عقیدہ سماجی اکائی نہ تاریخ میں کبھی تھی، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگی۔
ریاست ایک لازمی سماجی اکائی ہوتی ہے جس طرح ایک گھر میں رینے والے فیملی
ممبرز۔ مذہب/عقائد سماجی اکائی کے اندر ایک تنوع یا ڈاورسٹی ہوتی ہے۔ رنگ
نسل، مذہب، جنس، نظریات سماج کا ناگزیر حصہ ہیں اور سماج سے جنم لیتے نہ کہ
سماج ان سے۔ سماج یا زمین پراری ہے زمین کے بغیر انسان، حیوان، پرند اور
نباتات ممکن ہی نہیں ہے۔ صیونی سیاست سماج کو مذہب/عقائد کی نظر سے دیکھنا
ہوتا ہے نہ کہ اس کی اپنی ساہنس کی بنیاد پر۔ اس لیے مذہبی سیاست وہ
یہودی کرے، کرسچن، ھندوں یا مسلماں سب صیونی نظریات ہی کا حصہ ہے۔ اسلام
پسندوں نے جیوش کے مذہبی لٹریچر کا کاپی پیسٹ کیا ہوا ہے۔ ھندوستان میں آر
ایس ایس، وشو ھندو پرشد، بجرنگ دل اور بی جے پی اور مسلم معاشروں میں مذہبی
سیاست کرنے والے سارے صیونی سیاست ہی تو حصہ ہیں۔ اسرائیل کر تسلیم کرنا
یا نہ کرنا تو ایک طرف مگر آپ صیونی نظریات کا پہلے ہی حصہ بن چکے ہیں۔
مسلمانوں، کرسچنوں اور ھندوں ہوس ہولڈ میں پیدا ہونے والے لوگوں کی طرح
جیوش بھی صیونی نظریات کو رد کرتے ہیں جس کا ثبوت خود اسرائیل کی لبیر
پارٹی ہے نہ کے ارتھوڈکس۔ اس لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ہو تو سارے عرب
اور مسلمان بشمول ایران/ترکی ایک شرط کے ساتھ تسلیم ضرور کریں کہ وہ پہلے
دو ریاستی حل قبول کوکرے اور اس کے بعد اسرائیل اور فلسطین دونوں کو نہ ضرف
تسلیم کیا جائے بلکہ دل سے مان کر اچھے سماجی، ثقافتی اور معاشی تعلقات کو
آگے بڑھایا جائے۔ میرے الفاظ سے اگر آپ کا دل دکھا ہو تو میں معذرت خواہ
ہوں۔ شکریہ افضل طاہر۔ 

No comments: