مذہب کے نام پر جہالت
کا پرچار نہ صرف مسلم معاشرے کو
صدیوں سے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے بلکہ
جدید دور میں بعض حکومتیں بھی اس عمل سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ایسا عمل جو معاشرے کو ذہنی طور پرآپائج
اور معذور کرتا ہو، پشت پہنائی کرتی نظر آتی ہیں۔ مثال کے
طور پر پاکستان میں یوسف نامی شخص نے نبی
ہونے کا دعوی کیا تھا اور ایک جلسہ میں جو میں نے خود یوٹیوب پر دیکھا تھا۔ اس نے اس جلسے میں اپنے دو خلیفوں کا اعلان کیا تھا۔ دوسرا خلیفہ ذہد زمان حامد تھا۔ جب خلیفوں کو اسٹیج پر تشریف لا نے کا اس نے خود اعلان کیا تو جلسہ نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کے نعروں سے
گونج رہا تھا ۔ میرے لیے یہ تعجب تھا۔ چونکہ یہ تو معاشرے کا بڑا احساس معاملہ تھا اور ہے مگر
یہ لوگ کہاں سے آگے ہیں جو ایک متبادل مذہب ایک ایسے معاشرے میں پیش کررہے ہیں جہاںسخت قسم کا مذہبی جبر ہے؟ اسی طرح ایک اور شخص جو پاکستان سے ہی تھا ویڈیو میں مشائدے میں آیا تھا یہ دعوا کرتا نظر آیا کہ مجھے حضرت موسی، حضرت عیسی اور بہت سارے
دوسرے نبی ملنے کے لیے آتے ہیں اور اس کے
سامنے جلسے میں بھی ایک ہجوم اس کے وعظ کو سنتا نظر آتا تھا۔ جب کے بے گنا غریب لوگ مذہبی گستاخی کے نام پر پاکستان کی جیلوں میں سال ہا سال سے سیڑ رہے ہیں۔
میں نے جب اس پر غور کیا تو اس کے پیچھے یہ سب سرکاری ایجنسیوں کے لوگوں کا کیا درا نظر آتا ہے اور سنے والوں میں میرے نزدیک اکثریت ایجنسیوں کے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی سبب ہے کہ ہمیں بغیر کسی سماجی عمل کے آسمان سے ٹپکتے ہوئے دہشگرد نظر آتے رہے ہیں جو القاہدہ، طالبان، جیش محمد، لشکر طیبہ ، آئی ایس آئی ایس، الشباب، بہوکو حرام، بن لادن، ملا عمر، ابوبکر البغدادی کے ناموںسے تبائی وبربادی لانے میں دنیا بھر کے عوام کے سامنےمشہور ہوتے رہے ہیں۔
اسلام کے اندر ایک طبقہ جو صوفی مسلک کے قریب اور تشدد سے دور رہنے کی کوشش
کرتا رہا تھا اس کو بھی سرکاری ایجنسیاں ایک نئے نام کےسا تھ جہالت اور نفرت پھیلانے کے لیے سماج میں متحرک کرنے میں کامیاب
ہوچکی ہیں جن کا مقصد صرف سیاسی مخالفین کی عوام میں سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کے علاوہ کچھ
اور نظر نہیں آتا ہے۔ دونوں دہشتگردوں اور فرقہ پرستوں کی ایک قدرے مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ مذہب کے نام پر عام عوام کے مذہبی جذبات کو
استعمال کر کے عوام کی توجہ اصل مساہل سے ہٹانہ جس سے معاشرے میں جہالت اور نفرت کو عام کر کے ذہن انسانی کو فکری طور پر اپاہج بنانے کے علاوہ کوئی اور فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔ خادم حسین رضوی اور کمپنی، میرے نزدیک پاکستان کی سرکاری ایجنسیوں کے اسی کار خیر کے برانڈ
کا حصہ نظر آتا ہے۔
No comments:
Post a Comment