جس معاشرے میں اکثریتی فرقے کے عقائد کا اتصال کرکے مذہبی غنڈہگردی سیاسی طاقت اور تشدد قانون کا درجہ حاصل کرلیں اس معاشرے میں عدالتوں کے لیے انصاف کے دامن کو تھامنا مشکل ہوتا ہے۔ کس طرح عدالت پر دھمکیوں کے ذریعے دباوٗ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ انصاف کی اس جنگ میں سلیمان تاثیر جو اس وقت اس صوبے کے گورنر تھے اپنی جان سے گے لیکن ریاست انصاف کرنے اور مانگنے والوں کو تحفظ دینے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ مدعی، گواہوں، وکیلوں اور ججوں کو قتل کیا جاتا رہا ہے مگر ریاست اس مذہبی غنڈہگردی اور تشدد پسندوں کے خلاف عوام کو منظم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ اس کے سبب غریب لوگ ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ پاکستان جو ایک وقت میں بڑا ترقی پسند معاشرہ تھا، پسماندگی، تنہائی، غربت اور لاقانونیت کا شکار ہوتا چلا گیا۔
نبی کی توہین نفرت اور جہالت کے علمبرداروں، تشدد پسندو، اکثریتی ڈنڈے کے انصاف پر یقین رکھنے والوں، قاتلوں اور دہشگردوں کو اسلام کا نماہندہ بناکر پیش کرنا ہے نہ کہ مذہبی اور فکری آزادی کے لیے انصاف کی جدوجہد کرنا نبی کی توہین ہے۔ معصوم اور غریب آسیہ نے جن جھوٹے الزمات پر طویل قید و بند کاٹی ہے یہ وہی الزمات ہیں جن کی بنیاد پر حضرت ابراھیم کو آگ میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی، حضرت عیسی کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے ھاتھوں میں کیلیں ٹھونکی گئی تھی اور نبی آخرالزماں کو مکہ سے گھر بار چھوڑ کر مدینے میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ وقت جکہ اور کردار بدل گے مگر عمل ایک ہی ہے اور معاشرے کو نفرت، جہالت اور تشدد کی طرف مسلسل دھکیل رہا ہے۔
مذہبی/فکری اقلیت کے خلاف ظلم و جبر قریش (کفار)
کی سنت تھی نبی کی نہیں۔ نبی کے اسلام کو مسخ کرنے کی تاریخ پرانی ہے جس کا بھر پور اظہار خلیفہ متوکل کے دور میں ہوا تھا۔ اسی طرح مذہبکو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا جو آجکل عام نظر آتا ہے بھی بہت پرانا
ہے۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے ہی نبی کی اولاد کا
قتل عام کیا تھا۔ مدینہ پر حملے کے دوران صرف تین راتوں میں پانچ سو عورتیں حاملہ
ہو گئی تھی جن میں نبی کے قریبی صحابہ کی بیویاں، بہنیں اور بٹیاں بھی شامل تھی۔ مسجد نبوی میں تین دن تک گھوڑے باندے گے تھے اور اس دوران نہ آذان ہوتی تھی نہ نماز۔ پاکستانیوں کے ہیرو حجاج بن یوسف نے مکہ کو گھیرے میں لیکر کعبے کو آگ لگا دی تھی۔
تاریخی تناظر کو سامنے رکھیں تو عکس آج بھی وہی سیاسی مفادات کا حصول ہے جس کے لیے وہی پرانی کہانی دہرئی جارہی ہے۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ 20 نومبر 1979 کو کس طرح اچانک ہمین اور محمد بن عبداللہ القحطانی کی قیادت میں کعبہ کے اندر لڑائی شروع ہوتی ہے اور فوج کے ٹنک صفاء اور مارواہ کو توڑتے ہویے کعبہ کے اندر جاتے ہیں؟ کیا ملا عمر اور بن لادن کی قیادت میں افغانستان میں تبائی اور بربادی کے لیے پیدا کیے جانے والے حالات عقیدے کے نام پر دھوکہ دہی کی وہی پرانی کہانی نہیں تھی؟ کیا ابوبکر البغدادی کی قیادت میں عراق اور شام میں فرقہ پرستی اور تبائی پھلانے والا عمل وہی پرانی عقیدہ پرستی کے پردےمیں دھوکہ دہی کی کہانی نہیں تھی؟ کیا قران اور سنت کے نام پر نفرت کی طاقت سے بچوں کو خودکش بمبار بنانے کاعمل جس سے بچوں، مردوں اور عورتوں کے جسموں کے پرخچے اڑائے گے ہوں مذہبی دھوکہ بازوں نے اس کو دینی فریضہ اور نبی کے ساتھ محبت کا اظہار قرار نہیں دیا تھا؟ کیا آج بھی پاکستان میں قاتلوں، منشیات فروشوں، زنابن جبر کے مجرموں کو ہیرو اور نبی کا عاشق بناکر خادم حسین رضوی اور اس کے حواری پیش نہیں کرتے ہیں؟
مندرجہ بالا تصویر سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ معاشرے جو آج بھی مذہب کو ریاست، سیاست اور معیشت کے ساتھ گڈمڈ کرنے کوشش کرتے ہیں وہ معاشرے مذہبی دھوکہ دہی اور مذہبی غنڈا گردی کے کلچر سے نہیں نکل سکیں گے۔ آج اگر ملا فضل اللہ اور خادم حسین رضوی ہیں تو کل کوئی اور آجایگا۔ خادم حسین رضوی یہ تک نہیں جانتا کہ آج تک اسلام کے کسی سکول نے سود اور جوئے کو حرام قرار نہیں دیا لیکن وہ المہاجرون کی طرح قران کی آیات کو اپنے پش منظر سے ہٹاکر لوگوں کو اسلام پر لکچر دے رہا ہوتا ہے لیکن گمراہی پھلانے کے اس کے عمل پر کوئی پکڑ نہیں ہوتی جو بذات خود فتنہ ہے اور معاشرے کے لیے قتل سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے پاکستان اور ہندوستان میں مذہبی امریت کے خلاف طویل جدجہد کرنی ہوگی جس کا آغاز بچوں کی تعلیم و تربیت ایک سماجی آکٹھ کی فکری بنیاد ہو نہ کہ فرقہ پرستی جس طرح یورپ میں ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح علم کی طاقت ہے اسی طرح جہالت کی بھی ایک طاقت ہے۔ عقیدہ پرستی تاریخی طور پر جہالت کا آخری مورچہ رہا ہے۔
تاریخی تناظر کو سامنے رکھیں تو عکس آج بھی وہی سیاسی مفادات کا حصول ہے جس کے لیے وہی پرانی کہانی دہرئی جارہی ہے۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ 20 نومبر 1979 کو کس طرح اچانک ہمین اور محمد بن عبداللہ القحطانی کی قیادت میں کعبہ کے اندر لڑائی شروع ہوتی ہے اور فوج کے ٹنک صفاء اور مارواہ کو توڑتے ہویے کعبہ کے اندر جاتے ہیں؟ کیا ملا عمر اور بن لادن کی قیادت میں افغانستان میں تبائی اور بربادی کے لیے پیدا کیے جانے والے حالات عقیدے کے نام پر دھوکہ دہی کی وہی پرانی کہانی نہیں تھی؟ کیا ابوبکر البغدادی کی قیادت میں عراق اور شام میں فرقہ پرستی اور تبائی پھلانے والا عمل وہی پرانی عقیدہ پرستی کے پردےمیں دھوکہ دہی کی کہانی نہیں تھی؟ کیا قران اور سنت کے نام پر نفرت کی طاقت سے بچوں کو خودکش بمبار بنانے کاعمل جس سے بچوں، مردوں اور عورتوں کے جسموں کے پرخچے اڑائے گے ہوں مذہبی دھوکہ بازوں نے اس کو دینی فریضہ اور نبی کے ساتھ محبت کا اظہار قرار نہیں دیا تھا؟ کیا آج بھی پاکستان میں قاتلوں، منشیات فروشوں، زنابن جبر کے مجرموں کو ہیرو اور نبی کا عاشق بناکر خادم حسین رضوی اور اس کے حواری پیش نہیں کرتے ہیں؟
مندرجہ بالا تصویر سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ معاشرے جو آج بھی مذہب کو ریاست، سیاست اور معیشت کے ساتھ گڈمڈ کرنے کوشش کرتے ہیں وہ معاشرے مذہبی دھوکہ دہی اور مذہبی غنڈا گردی کے کلچر سے نہیں نکل سکیں گے۔ آج اگر ملا فضل اللہ اور خادم حسین رضوی ہیں تو کل کوئی اور آجایگا۔ خادم حسین رضوی یہ تک نہیں جانتا کہ آج تک اسلام کے کسی سکول نے سود اور جوئے کو حرام قرار نہیں دیا لیکن وہ المہاجرون کی طرح قران کی آیات کو اپنے پش منظر سے ہٹاکر لوگوں کو اسلام پر لکچر دے رہا ہوتا ہے لیکن گمراہی پھلانے کے اس کے عمل پر کوئی پکڑ نہیں ہوتی جو بذات خود فتنہ ہے اور معاشرے کے لیے قتل سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے پاکستان اور ہندوستان میں مذہبی امریت کے خلاف طویل جدجہد کرنی ہوگی جس کا آغاز بچوں کی تعلیم و تربیت ایک سماجی آکٹھ کی فکری بنیاد ہو نہ کہ فرقہ پرستی جس طرح یورپ میں ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح علم کی طاقت ہے اسی طرح جہالت کی بھی ایک طاقت ہے۔ عقیدہ پرستی تاریخی طور پر جہالت کا آخری مورچہ رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment