Monday, October 22, 2018

اسلام اپنے وقت کی ایک ترقی پسند تحریک تھی جو اپنے سماجی رویوں میں رنگ، نسل، عقیدہ اور جنسی تعصب اور تفریق سے بالاتر، دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور چلانے کا معیار ساہنسی فکر و نظر تھا نہ کہ عقیدہ پرستی۔ لیکن خلیفہ متوکل کے دور میں اسلام کے اندر ایک بڑی بغاوت ہوئی تھی جو اس تحریک کومخالف سمت میں دھکیلتی رہی اور آج تک دھکیل رہی ہے۔

میرے تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ سوشل میڈیہ پر ایسے لڑکے یا لڑکیاں بٹھائے ہوے ہوتے ہیں جن کی تصویر ایک ماڈرن خاتون یا مرد کی لگ رہی ہو مگر وہ تبلیغ  بنیاد پرستی کی کرتے ہوں۔ ضروری نہیں کہ لکھنے والے یا والی کی وہ سچی تصویر ہو بلکہ اس میں اکثر فیک تصویریں ہوتی ہیں اور لکھنے والا کوئی عمر رسیدہ مرد یا عورت بھی ہوسکتا ہے۔ میرے نزدیک اور سمجھکے مطابق تصویر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماڈرن لوگ بھی بنیاد پرستی کی طرف ماہل ہیں جس کی بہترین مثال پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ان کی بیوی کے امیج کو شوکیس کرنا بھی اسی کا ایک حصہ معسوس ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کرکٹ کے پردے پر پیش کرکے ایک مخصوس باڈی امیج کے ذریعے بنیاد پرستی کی تحریک کو لوگوں کے زہینوں میں پروجکٹ کرنے اور فروغ دینے کی کوشش کی جاتی رہی تھی اور ہے۔ 
محرم اور حجاب کا سوال  بہت دفعہ اٹھایا جا چکا ہے مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔ جواب کی توقع تو مکہ، مدینہ، الازھر اور نجف اشرف سے تھی نہ کہ دوسری جگوں سے، مگر اس پر ایک مکمل بحث کی ضرورت ہے تاکہ مذہب کے نام پر کج فہمی کو دور کیا جائے نہ کے لوگون کے مذہبی جذبات اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے لیے استعمال کئے جائیں۔ یہ ٹویٹ میسج پاکستان سے تھا جس کے جواب میں، میں نے جو سوال اٹھایا ہے اور اس سے قبل بھی درجن بار اسی سلسلے میں بہت سارے سوال اٹھا چکا ہوں، مگر سوال کا جواب دینے کے بجائے ایک سیاسی پارٹی کے پروپیگنڈہ مشین کی طرح لوگوں کے مذہبی جذبات کو سیاسی ایجنڈے اور مالی مفادات کے لیے استعمال توکیا جاتا ہے مگرسچ کی تاریخی حقیقت جانے کی کوشش کے لیے نہیں۔ اس رویے کا سبب اسلامی عقائد کے حامل افراد کے لیے روز مرہ کی جدید زندگی میں کنفیوژن اور مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ 







No comments: