Saturday, September 20, 2025

شیطان کون ہے؟ سیاسی مفاد کے لیے قران کو مسخ کرکے عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈھاکہ ڈالنے والے یا عوام کے حقوق کو تحفظ دینے والے؟ سید جمال آغا اور پاکستان کے وزیر دفاع کے بیان کی وضاحت ضروری ہے۔

 


سید جمال آغا صاحب قران کی تعبیر و تشریع کے اصول ہیں اور پہلا اصول یہ ہے کے قران خود قران کی تعبیر و تشریع کرتا ہے نہ کے دو سو سال بعد بغداد میں بیٹھ کر سنی سنائی باتوں کی  بنیاد پر کہانیاں مکہ مدینہ سے ہزاروں میل دور بیٹھے کر لکھی گی تھی۔ 


پاکستان کے وزیر دفاع کے مندرجہ بالا بیان کے بعد افغانستان کے سید جمال آغا نے مندرجہ ذیل قران کی ایت استعمال کی۔ 

"قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ۔ - القرآن"
اور اس ایت کو بنیاد بنا کر افغان پاکستان دو طرفہ تعلقات کو کو  ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہویے لکھا "لیکن یہ اس انسان نما شیطان کی خواہش ہی ہو سکتی ہے پاکستانی مسلمان عوام ہمارے بھائی ہیں"۔ 
 
سید آغا کی پاکستانی مسلمان عوام کے ساتھ دوستی کے اظہار میں داتا دربار، شاہ باز قلندر، نشتر پارک میں درجنوں بریلویوں کو بموں سے اڑانے کی دوستی کی تاریخ بھی شامل ہے۔ روزنہ دہشتگردوں کو خودکش بمباروں سے لیس کر کے پاکستان بھیجنا بھی پاکستانی مسلمان عوام کی دوستی میں شامل ہے؟ 


افغانستان کے عوام کو طالبان کے غیر قانونی قبضہ سے پہلے جو حقوق حاصل تھے ان کو کس جواز کے تحت ختم کیا گیا ہے؟ کیا قران میں اس کی کوئی دلیل ہے یا افغان  معاشرے کی تاریخ سے کوئی دلیل؟ 
یہودی مذہبی رواج میں میں عورت کا سر اور چہرہ چھپانا؛ عورت مرد سے نہ ہاتھ  نہ ملانا، نہ مرد کے آگے چلنا یا نہ بیٹھنا، آج بھی بنیاد پرست یہودی عورت کو کار میں بھی آگے نہیں بیٹھنے دیتا لیکن قران میں لفظ چہرہ ایک سو سے زیادہ بار آیا ہے اور لفظ سر بیس سے زیادہ بار آیا ہے لیکن ایک بار بھی عورت کا چہرہ اور سر نہیں۔




قران عورت کے لباس میں پبلک میں کم سے کم مرد سے اتنا اضافہ کرتا ہے جو سورہ نور ایت 31 بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوۡبِهِنَّ (چھاتیوں پر نقاب ڈالے رکھو) جُيُوۡبِهِنَّ جیب سے  ہے یعنی چھاتی، سر یا چہرہ نہیں۔ 
حزاب ایت 59 عورت کی شناخت کو پبلک میں لازمی قرار دیتی ہے۔ کیا چہرہ چھپانے سے انسان کی شناخت متاثر نہیں ہوتی۔ یہ ۱۲ ویں صدی کا جیورسٹ ابن تعمیئ  نے حزاب ایت ۵۹ کا لفظ ان یعرفن (تاکے پہچانی جاو) کے درمیان "لا" لگا کر "ان لا یعرفن"  (تاکے نہ پہچانی جاو) یعنی قران کو بدل کر عورت کا چہرہ چھپانے کا جواز گھڑا تھا (نیچے ریفرنس موجود ہے)۔ چونکے یہ شخص فلسطین اور شام میں یہودیوں کے ساتھ پلا بڑھا تھا اس لیے وہ اسلام کے برخلاف یہودیت کے زیر اثر زیادہ تھا اور یہودیت کی عینک سے ہی قران کی عبارت کو دیکھنے کی کوشش کرتا رہا تھا اور جب ۲۹ سال کی عمر میں اس نے حج کیا اور واپس جا کر حج پر کتاب لکھی جس میں حج کی رسم کو کفر قرار دیا ہے۔
 اسلام کا حج یہودی یا کرسچن مذہبی کہانی سے نہیں آیا تھا بلکے حج مکہ کا مذہبی رواج تھا جہاں پر ایک عورت  کا تاریخی سماج عمل قریش کی عبادت کا حصہ بن چکا تھا تو قران بقرہ ایت ۱۵۸ میں اسے اسلام کا حصہ بنایا اور عورت جن قدموں پر دوڑی تھی آج بھی انسان رنگ نسل اور جنس کی تقسیم کے بغیر ہر ایک ان قدموں پر دوڑتا ہے اور نبی خود دوڑے تھے ورنہ عمرہ یا حج نہیں ہوتا۔



 


قران نہ اپنے ماحول سے باہر جاتا ہے اور نہ ہی اپنے سے پہلے ماحول کو یکسر مسترد یا پہلے رسم و رواج میں عوام کو جو حقوق تھے ان کم کرتا ہے بلکے ان میں بہتری اور اضافہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر نساء ایات 15/16 میں ترمیم کرکے نور ایات 2؛ 4؛ 6؛ 8 لائی گی تھی جو قانون میں پہلے سے بہتری اور ابہام دور کرنا تھا ساتھ میں عوام کو انصاف کی بہتر سہولت کے علاوہ فرد کی شخصی آزادی کے تحفظ کی ضرورت جو نور ایات 6  اور8 میں واضح ہے۔





 نساء ایت 22 مکہ کے رواج میں پہلے سے ایک رسم تھی جو سماج میں غیرمقبول ہوچکی تھی کو ختم کرنا، اور ساتھ میں نساء ایات 23؛ 24؛ 25 قانون میں بہتری جو اس وقت کے سماجی ماحول کی ضرورت بن چکی تھی اس کے تحت بہتری لاگی تھی نہ کے پہلے سے رسم و رواج کو ختم کر کے عوام کو جو حقوق ان رسم و رواج میں حاصل تھے ان کو ختم کرنا یا کم کرنا نطر آتا ہے۔ 
 قران سے متصادم زرتشت اور یہودی مذہبی رواج کو حدیث کے نام پر بغداد میں اسلام کے کلچر کا حصہ بنانا جو قران سے متصادم ہیں وہ نبی کا اسلام نہیں بلکے بغداد میں زرتشت اور یہودی مذہبی رواج تھا۔ اسلام مکہ سے مدینہ گیا تھا اور مدینہ میں یہودی سماجی ضروتوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی قران کی کوشش ہمیں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے مگر اسلام واپس مکہ آگیا تھا جس کا مطلب مکہ کے رسم و رواج کو اسلام کی تعبیر و تشریع کرتے وقت سامنے نہ رکھنا بہت بڑی غلطی رہی ہے۔ 





افغانستان کے عوام کو طالبان کے غیر قانونی قبضے سے پہلے ووٹ کا حق حاصل تھا؛ حکومت کو ووٹ کے ذریعے جوابدے بنانے اور ہٹانے کا افغان عوام کے منتخب نمائندوں کے بنائے گے آہین میں موجود تھا؛ حکومت کا عوام کے سامنے جوابدہی پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بھی موجود تھی؛ عوام کے درمیان رنگ، نسل، مذہب کی تفریق کے بغیر سب کو برابر حقوق حاصل تھے؛ خواتین کو بھی وہی حقوق حاصل تھے جو مردوں کو حاصل تھے؛ خواتین کو بھی تعلیم کا حق؛ روز گار کا حق اور برابر انسان ہونے کا حق افغانستان کے قانون اور اسلام میں موجود تھا۔
 جنسی تفریق سورہ حزاب ایت 35 بقرہ ایت 43 آل عمران ایت 43  کیا کہتی ہیں؟ کیا جنسی تفریق یا جنسی علیحدگی سماجی اور مذہبی زندگی میں نظر آتی ہے؟  طالبان کی غیر قانونی حکومت نے افغان عوام کو جو حقوق پہلے سے حاصل تھے وہ چھین لیے ہیں۔ کیا ایسے ظالموں کے خلاف عوامی حقوق کے لیے جہاد اور جدوجہد کی ضرورت مذہبی فریضہ ہے یا انکا ساتھ دینا جو ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں؟

کیا عورت مرد میں تفریق نظر آتی ہے
یا عورت مرد %100 برابر ہیں۔

کیا سید آغاز صاحب آپ بتا سکتے ہیں کے افغان مظلوم عوام  کے حقوق ایک غیر قانونی غاصب اور قابض ٹولے نے کس جواز کے تحت ختم کیے ہیں اور آپ دوسروں کو جو قاعدے قانون کے تحت اپریٹ کرتے ہیں کو شیطان قرار دیتے ہیں؟ دنیا کے ہر مذہب، قاعدے، قانون اور رسم رواج میں انسانوں کو؛ میں حیوانوں کی بات نہیں کرتا، پہلے سے موجود جو حقوق حاصل ہوتے ہیں ان میں اگر بہتری نہیں لائی جا سکتی تو ختم نہیں کیا جاتا۔ برطانیہ، فرانس یا سلطنت عثمانیہ جو جدید دور کا نو آبادیاتی نظام تھا اس میں بھی نہیں ہوا تھا بلکے عوام کے لیے پہلے سے بہتری لائی گی تھی۔
 قران سورہ توبہ ایت  71 میں جنسی علیحدگی کی نفی کرتا ہے یہ رواج اسلام کو مکہ کے کلچر سے ملا تھا جو نبی کا کلچر تھا جہاں پر کبھی جنسی تفریق نہ اسلام سے پہلے تھی جس کی مثال عکاظ میں هند بنت عتبة سالانہ شاعری کی صدارت کرتی تھی اور نہ اسلام کے بعد یہ رواج تبدیل ہوا۔ مکہ کا ہی رواج نبی کے ساتھ مسجد نبی میں گیا تھا اور میں نے خود مسجد نبوی میں میری آگے والی  صف میں خاتون تھی کے ساتھ 1982/83 میں نماز پڑھی تھی۔ یہ اپر بیان کی گی بقرہ ایت 43 اور آل عمران ایت 43 تصدیق کرتی ہیں کے رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو نہ مرد مردوں کے ساتھ اور عورت عورتوں کے ساتھ جو انسان فیملی سسٹم جس کے تحت گھرمیں عورت مرد کی علیحدگی نہیں ہوتی نہ سماج میں ہوتی ہے۔ جنسی علیحدگی سے ہم جنس پرستی کا فروغ ہوتا ہے اور ہم جنس پرستی پروان چڑتی ہے۔ جبکے ال عمران تو مخاطب ہی مریم سے ہے جو ایک خاتون تھی۔




درجنوں حدیثیں موجود ہیں جہاں نبی خود خواتین کے ساتھ بیٹھے ہیں اور خواتین نبی کے لئے شاعری کرتی اور میوزک بجاتی ہیں یا شادی بیاہ کے موقع پر گانے والی خواتین کا گانے بجانے کا کلچر۔ 




حضرت عمر نے اپنی موت سے پہلے قران کے دو نسخے اپنے بیٹے عبداللہ کو نہیں بلکے اپنی بیٹی حفصہ کے حوالے کیے تھے کے ان اپنے پاس محفوظ رکھو اور جب کوئی خلیفہ بنے گا تو اس کو دے دینا۔ 
واقع افک میں حضرت عائشہ جب پیچھے رہ گی تھی تو دوسرے دن صبح صفوان بن معطل کے ساتھ آئی تھی۔ کیا اگر اسلام میں محرم، حجاب، اور جنسی علیحدگی ہوتی تو نبی کی بیوی نبی کی اجازت کے بغیر گلے کا ہار تلاش کرنے جا سکتی تھی یا اگر محرم ہوتا تو نبی کی بیوی صفوان بن معطل کے ساتھ آسکتی تھی؟ نبی جواب طلبی نہ کرتے کے اس نے محرم، جنسی علیحدگی اور حجاب کی خلاف ورزی کی ہے؟ 
جنگ جمل میں حضرت عائشہ اپنی فوج کی مدینہ سے قیادت کرتے ہویے عراق کے شہر بصرہ تک کا سفر اور بصرہ کے میدان جنگ میں اونٹ پر بیٹھکر اپنی فوج کی جنگی کمان کرنا اپنے دماد کی فوج کے خلاف۔ اس جنگ میں دونوں طرف ہزاروں نبی کے صحابہ موجود تھے۔ اگر محرم، جنسی علیحدگی، اور حجاب ہوتا تو کیا نبی کی بیوی خلاف ورزی کر سکتی تھی؟ کیا صحابہ اعتراض نہ کرتے جو دونوں طرف جنگ میں شریک تھے۔
محرم، حجاب اور جنسی علیحدگی زرتشت اور یہودی مذہبی رواج تھا جس کا نبی کے وقت کے اسلام سے نہ کوئی تعلق تھا نہ وجود اسی لیے قران سے متصادم ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کے یہ بغداد میں بیٹھ کر شیطان ھیبت اللہ اخوندزادہ جیسے شیطانوں کا کام تھا جنہوں نے نبی کی بیوی کی عمر جو شادی کے وقت 19/20 سال تھی کم کر کے 9 سال بنا دی جس کے پیچھے سیاست یہ تھی کے ابوبکر نے لڑکی دیکر سیاسی فائدے کے لیے نبی کی قربت حاصل کی تھی۔

No comments: