اسلامی تعلیمات اور مسلم ثقافتی رویے: تضادات کا ایک تجزیہ
قرآن کی مقدس عبارت کچھ اور بتاتی ہے، جسکا زور اس وقت کے معاشرتی ماحول جو ایک غلام دار معاشرہ ہے میں ریشنل ازم، ترقی پسندی، عدل، مساوات، اور انسانیت کی بھلائی پر نظر آتا ہے۔ تاہم، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مسلم معاشروں میں رائج مذہبی روایات اور عملی طرزِ زندگی قرآن کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں بلکے بہت بڑا تضاد نظر آتا ہے۔ یہ تضاد محض اتفاقیہ نہیں بلکہ اس کے پس پشت کئی تاریخی، ثقافتی اور فقہی عوامل کارفرما ہیں۔
نماز کی قرآنی ہدایت اور عملی فرق
قرآن میں نماز کے بارے میں جو احکامات دیے گئے ہیں،ہم یہ مان کر چلتے ہیں کے وہ عام طور پر عمومی نوعیت کے ہیں ہم روایتی اسلام اور قرانی اسلام کا سوال نہیں اٹھاتے۔
مثال کے طور پر
سورہ البقرہ (2:43): اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ سوال یہ ہے کے مساجد کے اندر صرف مرد ہیں اور عورت کو اگر مسجد میں جانے کی اجازت ہے تو مردوں کے پیچھے بچوں کے ساتھ جگہ ملتی ہے۔ عورت کی امامت تسلیم نہ کرنا کرسچن اور یہودی مذہبی رواج تھا نہ کے قران کا حکم۔رویتی اسلام والوں کا یہ موقف کے ان آیات میں نماز کی مختلف حرکات یعنی رکوع و سجود کا ذکر ہے، لیکن نماز کی ترتیب اور طریقہ کار کے بارے میں تفصیل موجود نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کے وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کے قران نامکمل ہے۔ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کے وحی نامکمل تھی اسلیے انکو وحی سے باہر جاکر مذہب کو تخلیق کرنے کی ضرورت درپیش ہوئی تھی؟ یہ کیسے ممکن ہے کے اگر پانچ وقت کی نمازنبی کے وقت تھی تو اللہ اس کا طریقہ کے کتنے فرض ہیں، کتنی سنت کتنے وتر یا نفل اور انکو ادا کرنے کا طریقہ، قران میں بیان کرنا بھول گیا تھا! لہذا حدیث یعنی وحی سے باہر جاکر دو سو پچاس سال بعد نبی اور صحابہ کے نام پر سنی سنائی باتوں کو بنیاد بناکر کسی تحریری ثبوت کے بغیرمذہب تخلیق کرنا پڑ گیا تھا! جبکے نبی ﷺ کاتب سے وحی آنے کے بعد تحریر میں لاتے تھے، مزید یہ کے قران سورہ بقرہ ایت 282 میں لوگوں کو آپس میں لین دین کو تحریر میں لانا کو لازم قرار دیتا
ہے اور اس کے لیے گواہ کا ہونا بھی لازم ہے۔ اگرلین دین کرنے والے فریقین خود نہیں لکھ سکتے تو کاتب سے لکھوایں اور کاتب لکھنے سے انکار نہ کر چونکے کاتب کو لکھنا اللہ نے سکھایا ہے۔ اللہ کا سکھانا مٹافورک اظہار ہے۔
کیا نبی کے قول و فعل کے نام سے کسی تحریری ثبوت کے بغیر نبی ﷺ کی وفات کے دو سو سال بعد پیدا ہونے والے لوگوں کی تحریری کہانیوں کو قران میں اضافہ، کمی یا متصادم پوزیشن قبول کی جاسکتی ہے؟ بہت کم مسلمانوں کو پتہ ہے کے روایتی اسلام نے ناسخ و منسوخ کے نام سے سب سے پہلا اصول یہ تھیوری متعارف کرائی تھی کے اگر قران اور سنہ میں تضاد ہو تو سنہ قران کو منسوخ کردیگی۔ یہ قران کو منسوخ کرنے کی کوشش تھی جسے 9 ویں صدی کے ابو الحسن العشری نے رد کیا تھا۔
روایتی اسلام یہ تو تسلیم کرتا ہے کے موجودہ اسلامی فقہ میں نماز کی جو شکل رائج ہے، وہ حدیث اور فقہ کی مختلف مکاتبِ فکر پر مبنی ہے۔ مزید برآں، جب قرآن میں حضرت مریم کو رکوع کرنے کا حکم دیا گیا تو اس میں خواتین اور مردوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق کا ذکر نہیں، مگر عملی طور پر خواتین کو مسجد میں مردوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مسلم ثقافتی اثرات دینی معاملات میں بھی داخل ہو گئے ہیں بلکے نماز کا یہ طریقہ بعد کی بدعت ہے۔ اسلام کی تعریف قران سورہ بقرہ ایت 177میں کر رہا ہے جس میں پانچ ارکان مجھے تو نظر نہیں آتے۔
انسانی جان کی حرمت اور عملی تضاد
قرآن میں انسانی جان کی حرمت پر بھی بہت زور دیا گیا ہے
سورہ المائدہ (5:32): جس نے کسی ایک جان کو ناحق قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔اس کے برعکس، مسلم معاشروں میں انتہا پسندی، مذہبی جنونیت، اور دہشت گردی کے واقعات عام ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک امر ہے کہ قرآن جس انسانی جان کی قدر کا درس دیتا ہے، وہی انسانی جان بعض انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں ارزاں ہو چکی ہے۔
مرد و عورت کی برابری اور عملی رویے
قرآن نے مرد و عورت کی برابری پر بھی زور دیا
سورہ التوبہ (9:71) حزاب (33:35): مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں اور حزاب میں ہر عمل، حقوق و فرائض میں سو فیصد عورت مرد کو برابر قرار دیا ہے۔لیکن مسلم معاشروں میں خواتین کو مردوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا، بلکہ بعض اوقات انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جاتا ہے۔ عورتوں کی تعلیم، ملازمت، اور سماجی آزادی کے معاملات میں نام نہاد علما نہ صرف قدامت پسندی کا شکار نظر آتے ہیں، بلکے جاگیردارنہ اور قبائل کلچر کو پروموٹ کرتے ہیں جو قران سے متصادم اور یہودی بنیاد پرستی کی کاپی نظر آتی ہے جونہ صرف عہد حاضرکی عینک سے دیکھیں تو ایک مذاق لگتا ہے بلکے قرآنی تعلیمات کے بھی بالکل برعکس ہے۔
دین میں زبردستی کی ممانعت
قرآن واضح طور پر کہتا ہے
سورہ یونس (10:99):اے نبی اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین پر جتنے لوگ ہیں سب ایمان لے آتے، تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ ایمان لے آئیں؟یہ آیت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں، مگر مسلم معاشروں میں جبری تبدیلیٔ مذہب اور مذہبی سخت گیری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ رویہ اکثر غیرانسانی اور قران سے متصادم ہوتا ہے۔
دوسرے مذاہب کے احترام کی تعلیم
سورہ الحج (22:40) میں کہا گیا ہے کہ اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ روکتا تو عبادت گاہیں، گرجا گھر، کلیسا، سنیگاگ اور مساجد، جہاں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، سب منہدم ہو جاتے۔اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ہر مذہب کی عبادت گاہ کی حفاظت کا درس دیتا ہے، لیکن مسلم تاریخ میں ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں اقلیتوں اور کمزورں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مسلم معاشروں میں یہ رویہ عہد حاضر کے شہری اور ریاست کے برابر کے حقوق کے کلچر اور قرآنی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔
نتیجہ
یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلم ثقافتی روایات اور قرآن کی اصل تعلیمات میں نمایاں فرق موجود ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں تاریخی عوامل، سیاسی مفادات، فقہی تفاسیر اور سماجی جمود شامل ہیں۔ اگر مسلم معاشرے واقعی قرآنی اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں جو مسلسل متحرک اور وقت اور ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہونے پر زور دیتا ہے تو انہیں اپنی مذہبی روایات کو قرآن کی روشنی اور عہد حاضر کی ضرورت کے مطابق پرکھنا ہوگا، بجائے اس کے کہ وہ روایات کو دین کا درجہ دے دیں اور معاشرے کو انسانوں کے لیے جنم بنادیں جس طرح طالبان نے افغانستان کے عوام کے لئے جنم بنایا ہوا ہے۔ قرآن کا پیغام سادہ اور واضح ہے: ریفارم، تبدیل،ریشنل ازم، عدل، مساوات، اور انسانی حقوق کا احترام۔ لیکن بدقسمتی سے، اکثر مسلمان انہی تعلیمات سے دور نظر آتے ہیں جن کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے۔
لہٰذا، سوال یہ نہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان واقعی قرآن کو مانتے ہیں یا پک اور چوزکے لیے قران اور اسلام کو استعمال کرتے ہیں چونکے انسان جب عقل و دلیل کے خلاف عقیدے کی دیوار کھڑی کرتا ہے تو اپنے تعصبات کے تعابے ہوجاتا ہے اور جب تک انسان ورثے مین ملنے والے اپنے تعصبات سے آزاد نہیں ہوتا وہ ریشنل ہو ہی نہیں سکتا۔ آج مذہب بھی ورثے میں ملنے والا ایک تعصب ہے بلکل اسی طرح جس طرح اپنے عہد اور وقت میں ابوجہل اور ابولہب اپنے عقیدے کے تعصب کے تعابے اور کٹر مذہب پرست تھے۔ ابولہب کی جب موت ہورہی تھی تو آنسوں اسکے گال سے نیچے گر رہا تھا تو پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا میرے آنسو کا سبب یہ ہے کے لوگ مذہب سے دور چلے گے ہیں۔
قران ہر قسم کے تعصب سے آزاد ہوکر غور فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے، چونکے دنیا میں ہربالغ انسان قانون کے سامنے جوابدے ہے اور آخرت میں اللہ کے سامنے ہر ایک کو خود جوابدے ہونا ہے نہ کے اسکے رشتے دار یا معاشرہ۔ اس لیے فرد کی شخصی آزادی پر حملہ نہ صرف فرد کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے بلکے قران پر بھی حملہ ہے جو مسلمانوں میں اکثر کلچر کی شکل اختیارکرچکا ہے۔
No comments:
Post a Comment