Saturday, March 29, 2025

مسلمانوں کا مذہبی کلچر خود قران سے متصادم کیوں ہے؟ کیا نماز کا کلچر قران سے متصادم نہیں ہے کم از کم مساجد میں جنسی تفریق۔




اسلامی تعلیمات اور مسلم ثقافتی رویے: تضادات کا ایک تجزیہ

قرآن کی مقدس عبارت کچھ اور بتاتی ہے، جسکا زور اس وقت کے معاشرتی ماحول جو ایک غلام دار معاشرہ ہے میں ریشنل ازم، ترقی پسندی، عدل، مساوات، اور انسانیت کی بھلائی پر نظر آتا ہے۔ تاہم، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مسلم معاشروں میں رائج مذہبی روایات اور عملی طرزِ زندگی قرآن کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں بلکے بہت بڑا تضاد نظر آتا ہے۔ یہ تضاد محض اتفاقیہ نہیں بلکہ اس کے پس پشت کئی تاریخی، ثقافتی اور فقہی عوامل کارفرما ہیں۔

نماز کی قرآنی ہدایت اور عملی فرق

قرآن میں نماز کے بارے میں جو احکامات دیے گئے ہیں،ہم یہ مان کر چلتے ہیں کے  وہ عام طور پر عمومی نوعیت کے ہیں ہم روایتی اسلام اور قرانی اسلام کا سوال نہیں اٹھاتے۔ 

مثال کے طور پر

سورہ البقرہ (2:43): اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع  کرو۔ سوال یہ ہے کے مساجد کے اندر صرف مرد ہیں اور عورت کو اگر مسجد میں جانے کی اجازت ہے تو مردوں کے پیچھے بچوں کے ساتھ جگہ ملتی ہے۔ عورت کی امامت تسلیم نہ کرنا کرسچن اور یہودی مذہبی رواج تھا نہ کے قران کا حکم۔ 
قران عورت مرد علیحدگی کی بات نہیں کرتا تو عورت مرد علیحدگی مسلمانوں کے نماز کے کلچر میں قران سے متصادم نماز کا کلچر کیسے بنا؟ کیا اس سے اُن علما کا نقطہ نظر صیح ثابت نہیں ہوتا جو یہ کہتے ہیں کے نماز کا یہ کلچر اسلام میں بغداد میں دو سو پچاس سال بعد زرتشت مذہب اور یہودی بنیاد پرستی سے متاثر ہونے کا سبب ہے نہ کے نماز کی یہ شکل نبی کے وقت اس طرح سے موجود تھی جسکا دعویٰ آج کیا جاتا ہے۔
نماز کا کلچر مسجد الحرام اور
مسجد النبوی کے علاوہ ساری دنیا
میں قران سے متصادم کیوں؟
عباسیوں نے زرتشیوں کے نماز کے
کلچر کو اسلام کا کلچر بنا دیا جو ہمیں
عقیدے میں ورثےمیں اس گھر سے ملنا
شروع ہوا جس میں ہم پیدا ہوئے۔ 


اذان بھی وحی سے نہیں بلکے وحی سے باہر جاکر
سنی سنائی کہانیوں کی بنیاد پر گھڑی گی ہے۔ کیا مولوی
آج جھوٹی کہانیاں گھڑ کر ہزاروں لوگوں 
کے سامنے نہیں سناتے یا کتابوں میں نہیں لکھتے۔
میں نے ایک دوسرے پوسٹ میں یوسف علی، 
طارق جمیل محروم خادم رضوی کی وڈیو 
پوسٹ کی ہوئی ہیں جو دن کی روشنی میں جھوٹ 
بول رہے ہیں۔ آپ خود سن لیں۔ 
سورہ آل عمران (3:43): (اے مریم!) اپنے رب کے لیے جھک جاؤ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یہاں تو قران مخاطب ہی ایک خاتون کے ساتھ ہے۔ مریم ایک خاتون ہے۔ مزید یہ کے سورہ بقرہ ایت 158 عورت کے متعلق ہے جس کی کہانی مکہ کے قریش
 کی مذہبی روایت کا حصہ تھی اور اسلام نے جب مدینے سے واپس مکہ کو اپنا کعبہ بنانے کا اعلان کیا تو عورت کی یہ کہانی قران نے اسلامی عبادت کا حصہ بنائی۔ یعنی عورت  کے سماجی عمل کی تاریخی کہانی جو مقامی آبادی میں عبادت کا درجہ حاصل کرچکی تھی اسے اُسی طرح عبادت کا درجہ دیا جو عورت کے عمل کی تقلید تھی اور خود نبی نے اس عمل کی تقلید کی اور آج تک ہر مسلمان حج اور عمرے کے دوران لازمی طور پراس عمل کی تقلید کرتا ہے ورنہ حج اور عمرہ نہیں ہوتا۔ جبکے یہودی اور کرسچن مذہب جو قران کی عبارت کی پراری ہے، اُن میں عورت کے کسی سماجی تاریخی عمل کی کہانی کی تقلید کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہو، ثبوت نہیں ملتا۔ 
نبی ابراھیم کی دوسری بیوی، ہاجرہ جس سے نبی اسماعیل تھے، کی کہانی مکہ کے قریش کی مذہبی تاریخ کی کہانی ہے جبکے سارہ اور اسحاق کی کہانی یروشلم کی کہانی ہے جو آج تک یہودی مذہبی کہانی کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود، جب یہودی بنیاد پرستی پرہم نظر ڈالتے ہیں تو بنیاد پرست یہودی کلچر میں عورت کو آج بھی نہ مرد کےساتھ ہاتھ ملانے کی اجازت ہے؛ نہ مرد کے آگے چلنے کی نہ مرد کے آگے بیٹھنے کی؛ سر اور چہرے کا حجاب/نقاب بھی یہودی بنیاد پرستی کا کلچر ہے جس میں خواتین چہرا اور سر چھپاتی ہیں۔ بالوں کو تو یہودی عورت کو لازمی چھپانا ہوتے ہے جسکے لیے یہودی خواتین کو وگ بھی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ قران



 سورہ نور ایت 31 مسلمان عورت کو چھاتی پر نقاب کی بات کرتا ہے۔
 یعنی ٹاپ لس ہونے کی اجازت نہیں دیتا مگر قران مسلمان عورت کو سر یا چہرے کے پردے کا نہیں کہتا بلکے قران میں لفظ چہرا 100 سے زیادہ بار آیا ہے اورلفظ سربھی 20 سے زیادہ بار آیا ہے مگر ایک بار بھی مسلمان عورت کا چہرا اور سر ڈھانپنے کا ذکر نہیں ہے۔ مسلمانوں کی عملی زندگی کے کلچر کو  دیکھتے ہیں تو اس پر یہودی بنیاد پرستی کے امیج کا رنگ چڑا نظر آتا ہے جو قران کی عبارت سے بلکل متصادم ہے۔ 
قران کی عبارت اور مسلمانوں کے کلچر کے درمیان فرق سے اس تاثر کو وزن ملتا ہے اور اس تھیوری کی تصدیق ہوتی ہے کے زرتشت مذہب اور یہودی بنیاد پرستی کا امیج مسلمانوں کے کلچرپر دو سوسال بعد بغداد میں خلیفہ متوکل کے وقت چڑنا شروع ہوا تھا جس نے انسانوں کے درمیان تعلقات کی سماجی زندگی کی انتہائی شکل 12 ویں صدی کے جیورسٹ ابن تعمیئی کی تحریروں نے دی تھی جو کبھی بھی یہودی مذہبی اثر سے خود کو آزاد نہ

 کرا سکا تھا اورہمیشہ اس نے یہودیت کی عینک سے ہی قران کو دیکھنا شروع کیا تھا اور مکہ اور مدینہ کے اُس وقت کے کلچرکو بلکل نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کے جب اس نے 29 سال کی عمر میں حج کیا اور واپس جاکرحج پر کتاب لکھی اورمکہ میں حج کی رسم کے طریقے کو کفر قرار دیا۔ چونکے قبل اسلام اور بعد اسلام مسجد الحرام کا کلچر ہی مسجد النبوی میں گیا تھا جہاں کبھی بھی جنسی علیحدگی نہیں تھی مگر ابن تعمیئ کے لیے یہ مذہبی امیج عجیب اور اپنی کتاب کی تنقید میں اسے کفر قرار دیتا ہے۔ 
ایک سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کے کیا متزلہ اور غیرمتزلہ کی کہانی میری رائے میں تاریخ نے جسے غلط طور پر رپورٹ کیا ہے، دوبارا غور کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا ایسا تو نہیں تھا کہ یہ نبی کے اسلام/قران اور زرشت/یہودی مذہبی کلچرکے درمیان کشمکش تھی جسے قران کی تخلیق/غیرتخلیق کی بحث کے پردوں کے پیچھے چھپا کر ربانکل لٹریچر کو حدیث کے نام سے اسلام میں امپورٹ کیا گیا تھا۔ 
کیا اسلام آنے سے لیکر دو سو پچاس سال بعد تک کے جو سکے محفوظ ہیں ان سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی کے حدیث کے غلاف میں زرشت اور یہودی مذہبی رواج کو اسلام کے نام پر مسلمانوں میں راج کیا گیا تھا جو آج تک مسلم معاشروں کے عوام میں اسلام کے نام پرراج اورعام ہے؟  
کیا یہ دو سو پچاس سال بعد بغداد میں آنے والا انقلاب تو نہیں تھا جو نبی کے اسلام اور قران سے متصادم حدیث لٹریچر کونبی اور صحابہ کے نام پر کہانیاں گھڑ کر یہودی ربانکل لٹریچرکے رواج کی کاپی کو اسلامی کلچر کی شکل میں متعارف کرانا شروع کیا گیا تھا؟ ہر مسلمان میں یہودی کہانی عام ملتی ہے لیکن مکہ کی کوئی کہانی یہاں تک بہت کم کو پتہ ہوتا ہے کے صفا و مروہ مکہ میں ہاجرہ کی کہانی ہے جو یہودیوں کی مذہبی کہانی میں نظر ہی نہیں آتی۔ مکہ کو نام نہاد بت پرست مشہور کیا گیا جبکے لفظ اللہ خود قریش کا ہے، لبیک اللهم لبیک ہی قبل اسلام کعبہ کے گرد طوائف کے دوران پڑھا جاتا تھا  نہ کے یہودی تورات یا کرسچن انجیل سے لفظ اللہ اسلام میں آیا ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کے حدیث کے لٹریچر کے  ذریعے مسلمانوں کو یہودی بنیاد پرستی کی طرف موڑا گیا تھا اسی لیے یہودی بنیاد پرستی اور انتہاء پسند مسلمانوں کی بنیاد پرستی میں بہت زیادہ مماثلت اور یک رنگی پائی جاتی ہے۔    

رویتی اسلام والوں کا یہ موقف کے ان آیات میں نماز کی مختلف حرکات یعنی رکوع و سجود کا ذکر ہے، لیکن نماز کی ترتیب اور طریقہ کار کے بارے میں تفصیل موجود نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کے وہ  یہ بات تسلیم کرتے ہیں کے قران نامکمل ہے۔ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کے وحی نامکمل تھی اسلیے انکو وحی سے باہر جاکر مذہب کو تخلیق کرنے کی ضرورت درپیش ہوئی تھی؟  یہ کیسے ممکن ہے کے اگر پانچ وقت کی نمازنبی کے وقت تھی تو اللہ اس کا طریقہ کے کتنے فرض ہیں، کتنی سنت کتنے وتر یا نفل اور انکو ادا کرنے کا طریقہ، قران میں بیان کرنا بھول گیا تھا! لہذا حدیث یعنی وحی سے باہر جاکر دو سو پچاس سال بعد نبی اور صحابہ کے نام پر سنی سنائی باتوں کو بنیاد بناکر کسی تحریری ثبوت کے بغیرمذہب تخلیق کرنا پڑ گیا تھا! جبکے نبی ﷺ کاتب سے وحی آنے کے بعد تحریر میں لاتے تھے، مزید یہ کے قران سورہ بقرہ ایت 282 میں لوگوں کو آپس میں لین دین کو تحریر میں لانا کو لازم قرار دیتا

 ہے اور اس کے لیے گواہ کا ہونا بھی لازم ہے۔ اگرلین دین کرنے والے فریقین خود نہیں لکھ سکتے تو کاتب سے لکھوایں اور کاتب لکھنے سے انکار نہ کر چونکے کاتب کو لکھنا اللہ نے سکھایا ہے۔ اللہ کا سکھانا مٹافورک اظہار ہے۔ 

کیا نبی کے قول و فعل کے نام سے کسی تحریری ثبوت کے بغیر نبی ﷺ کی وفات کے دو سو سال بعد پیدا ہونے والے لوگوں کی تحریری کہانیوں کو قران میں اضافہ، کمی یا متصادم پوزیشن قبول کی جاسکتی ہے؟ بہت کم مسلمانوں کو پتہ ہے کے روایتی اسلام نے ناسخ و منسوخ کے نام سے سب سے پہلا اصول یہ تھیوری متعارف کرائی تھی کے اگر قران اور سنہ میں تضاد ہو تو سنہ قران کو منسوخ کردیگی۔ یہ قران کو منسوخ کرنے کی کوشش تھی جسے 9 ویں صدی کے ابو الحسن العشری نے رد کیا تھا۔ 

 روایتی اسلام  یہ تو تسلیم کرتا ہے کے موجودہ اسلامی فقہ میں نماز کی جو شکل رائج ہے، وہ حدیث اور فقہ کی مختلف مکاتبِ فکر پر مبنی ہے۔ مزید برآں، جب قرآن میں حضرت مریم کو رکوع کرنے کا حکم دیا گیا تو اس میں خواتین اور مردوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق کا ذکر نہیں، مگر عملی طور پر خواتین کو مسجد میں مردوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مسلم ثقافتی اثرات دینی معاملات میں بھی داخل ہو گئے ہیں بلکے نماز کا یہ طریقہ بعد کی بدعت ہے۔ اسلام کی تعریف قران سورہ بقرہ ایت  177میں کر رہا ہے جس میں پانچ ارکان مجھے تو نظر نہیں آتے۔



انسانی جان کی حرمت اور عملی تضاد

قرآن میں انسانی جان کی حرمت پر بھی بہت زور دیا گیا ہے

سورہ المائدہ (5:32): جس نے کسی ایک جان کو ناحق قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔

اس کے برعکس، مسلم معاشروں میں انتہا پسندی، مذہبی جنونیت، اور دہشت گردی کے واقعات عام ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک امر ہے کہ قرآن جس انسانی جان کی قدر کا درس دیتا ہے، وہی انسانی جان بعض انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں ارزاں ہو چکی ہے۔

مرد و عورت کی برابری اور عملی رویے

قرآن نے مرد و عورت کی برابری پر بھی زور دیا

سورہ التوبہ (9:71) حزاب (33:35): مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں اور حزاب میں ہر عمل، حقوق و فرائض میں سو فیصد عورت مرد کو برابر قرار دیا ہے۔

لیکن مسلم معاشروں میں خواتین کو مردوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا، بلکہ بعض اوقات انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جاتا ہے۔ عورتوں کی تعلیم، ملازمت، اور سماجی آزادی کے معاملات میں نام نہاد علما نہ صرف قدامت پسندی کا شکار نظر آتے ہیں، بلکے جاگیردارنہ اور قبائل کلچر کو پروموٹ کرتے ہیں جو قران سے متصادم اور یہودی بنیاد پرستی کی کاپی نظر آتی ہے جونہ صرف عہد حاضرکی عینک سے دیکھیں تو ایک مذاق لگتا ہے بلکے قرآنی تعلیمات کے بھی  بالکل برعکس ہے۔

دین میں زبردستی کی ممانعت

قرآن واضح طور پر کہتا ہے

سورہ یونس (10:99):اے نبی اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین پر جتنے لوگ ہیں سب ایمان لے آتے، تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ ایمان لے آئیں؟

یہ آیت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں، مگر مسلم معاشروں میں جبری تبدیلیٔ مذہب اور مذہبی سخت گیری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ رویہ اکثر غیرانسانی اور قران سے متصادم ہوتا ہے۔

دوسرے مذاہب کے احترام کی تعلیم

سورہ الحج (22:40) میں کہا گیا ہے کہ اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ روکتا تو عبادت گاہیں، گرجا گھر، کلیسا، سنیگاگ اور مساجد، جہاں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، سب منہدم ہو جاتے۔

اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ہر مذہب کی عبادت گاہ کی حفاظت کا درس دیتا ہے، لیکن مسلم تاریخ میں ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں اقلیتوں اور کمزورں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مسلم معاشروں میں یہ رویہ عہد حاضر کے شہری اور ریاست کے برابر کے حقوق کے کلچر اور قرآنی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔

نتیجہ

یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلم ثقافتی روایات اور قرآن کی اصل تعلیمات میں نمایاں فرق موجود ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں تاریخی عوامل، سیاسی مفادات، فقہی تفاسیر اور سماجی جمود شامل ہیں۔ اگر مسلم معاشرے واقعی قرآنی اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں جو مسلسل متحرک اور وقت اور ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہونے پر زور دیتا ہے تو انہیں اپنی مذہبی روایات کو قرآن کی روشنی اور عہد حاضر کی ضرورت کے مطابق پرکھنا ہوگا، بجائے اس کے کہ وہ روایات کو دین کا درجہ دے دیں اور معاشرے کو انسانوں کے لیے جنم بنادیں جس طرح طالبان نے افغانستان کے عوام کے لئے جنم بنایا ہوا ہے۔ قرآن کا پیغام سادہ اور واضح ہے: ریفارم، تبدیل،ریشنل ازم، عدل، مساوات، اور انسانی حقوق کا احترام۔ لیکن بدقسمتی سے، اکثر مسلمان انہی تعلیمات سے دور نظر آتے ہیں جن کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے۔

لہٰذا، سوال یہ نہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان واقعی قرآن کو مانتے ہیں یا پک اور چوزکے لیے قران اور اسلام کو استعمال کرتے ہیں چونکے انسان جب عقل و دلیل کے خلاف عقیدے کی دیوار کھڑی کرتا ہے تو اپنے تعصبات کے تعابے ہوجاتا ہے اور جب تک انسان ورثے مین ملنے والے اپنے تعصبات سے آزاد نہیں ہوتا وہ ریشنل ہو ہی نہیں سکتا۔ آج مذہب بھی ورثے میں ملنے والا ایک تعصب ہے بلکل اسی طرح  جس طرح اپنے عہد اور وقت میں ابوجہل اور ابولہب اپنے عقیدے کے تعصب کے تعابے اور کٹر مذہب پرست تھے۔ ابولہب کی جب موت ہورہی تھی تو آنسوں اسکے گال سے نیچے گر رہا تھا تو پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا میرے آنسو کا سبب یہ ہے کے لوگ مذہب سے دور چلے گے ہیں۔

 قران ہر قسم کے تعصب سے آزاد ہوکر غور فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے، چونکے دنیا میں ہربالغ انسان قانون کے سامنے جوابدے ہے اور آخرت میں اللہ کے سامنے ہر ایک کو خود جوابدے ہونا ہے نہ کے اسکے رشتے دار یا معاشرہ۔ اس لیے فرد کی شخصی آزادی پر حملہ نہ صرف فرد کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے بلکے قران پر بھی حملہ ہے جو مسلمانوں میں اکثر کلچر کی شکل اختیارکرچکا  ہے۔



No comments: