بلوچستان تنازع: جدوجہد کی تاریخ اور مذاکرات و جمہوریت کی اہمیت
بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا اور وسائل سے بھرپور صوبہ ہے، طویل عرصے سے بدامنی اور تنازع کا شکار رہا ہے۔ اس خطے کی تاریخ سیاسی محرومی، اقتصادی پسماندگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھری پڑی ہے۔ دہائیوں سے، پاکستان کی مختلف حکومتیں بلوچ عوام کے جائز مطالبات کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا، جس سے مزاحمت بڑھی اور مسلح جدوجہد نے جنم لیا۔
ڈاکٹر شازیہ منظور کیس اور مشرف دور میں بدامنی
موجودہ بحران کی جڑیں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پیوست ہیں۔ ایک اہم موڑ ڈاکٹر شازیہ منظور کے مبینہ زیادتی کیس کا تھا، جو بلوچستان میں ایک میڈیکل پروفیشنل تھیں۔ اس واقعے نے پورے صوبے میں غم و غصے کو ہوا دی اور ریاست کے سخت گیر رویے کے خلاف پہلے احتجاج اور بعد ازاں ایک وسیع تر تحریک کو جنم دیا۔ حکومت کی جانب سے انصاف کی فراہمی میں ناکامی نے عوامی اضطراب کو مزید بھڑکایا۔
سیاسی جبر اور مسلح مزاحمت کی دہائیوں پر محیط کہانی
بلوچستان کی خود مختاری اور معاشی حقوق کے مطالبات کو ہمیشہ فوجی کارروائیوں کے ذریعے دبایا گیا، بجائے اس کے کہ انہیں سیاسی حل کے ذریعے حل کیا جاتا۔ حکومتوں نے بار بار جمہوری امنگوں کو نظر انداز کیا، جس کی وجہ سے تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ ہر بار جب ریاست نے اختلاف رائے کو طاقت کے ذریعے دبایا، تو اس کے ردعمل میں مزاحمت مزید مضبوط ہوئی اور آزادی کے مطالبات میں شدت آتی گئی۔
تازہ ترین تنازع مسلح جدوجہد کی سرگرمیاں اور اظہاراپنی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے اور نتجہ بھی یہی ہوتا ہے کے تشدد ہمیشہ تشدد میں ہی شدت لاتا ہے حل بات چیت میں ہوتا ہے۔ جفرایکسپرس پربلوچ لبریشن آرمی کا قبضہ جس میں ایک سو سے زیادہ فوجی اہلکار بھی بتاٗے جاتے تھے پاکستان کے لیے اتنہاء خطرناک حد تھی اور اس لڑائی کا مزید نتجہ سیاسی گرفتاریاں جہاں پر جبری گمشدہ لوگوں کا سوال بھی شدت اختیار کرچکا ہے اور اب ڈاکٹر مارنگ بلوچ کی گرفتاری بنی، جو بلوچ حقوق کی سب سے مقبول رہنما تصور کی جاتی ہیں۔ ان کی گرفتاری نے وسیع پیمانے پرمزید احتجاج اور مسلح تنظیموں کی جوابی کارروائیوں کو خارج از امکان کرار دینا ناممکن ہے۔ مزید برآں، ڈاکٹر سمی دین بلوچ، جو ابھی بچی تھی اس وقت سے انسانی حقوق کے لیے کام کرتی رہی تھیں، کی گرفتاری نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا اور حکومت کی بلوچستان سے متعلق پالیسیوں پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں۔
تنازع کے حل میں مذاکرات اور جمہوریت کا کردار
تاریخ گواہ ہے کہ فوجی حل کبھی بھی سیاسی مسائل کا حل نہیں ہوتا، بلکہ وہ ان مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیتا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، جس کا حل بھی سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حکومتِ پاکستان کو بلوچ رہنماؤں، خاص طور پر ڈاکٹر مارنگ بلوچ، کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ ایک پرامن حل تک پہنچا جا سکے۔
امن اور خوشحالی کا راستہ
مذاکرات کی بحالی : حکومت پاکستان کو پہل کرتے ہوئے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔ بلوچ رہنماؤں کو دشمن سمجھنے کے بجائے، انہیں پاکستان کے مستقبل کے شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔نتیجہ
بلوچستان کی بدامنی محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے ایک امتحان ہے۔ طاقت کے مسلسل استعمال سے بحران مزید گہرا ہوگا، جبکہ مخلصانہ مذاکرات اور جمہوری شمولیت ایک دیرپا امن کے لیے راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو جلد از جلد بلوچ رہنماؤں سے سنجیدہ مذاکرات کرنے چاہئیں، ان کے مسائل کو حل کرنا چاہیے اور بلوچستان سمیت پورے ملک کے لیے استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment