اس وڈیو میں ڈاکٹر موسی مسلمان مردوں کے چار شادیوں کے جواز کے بارے میں سورہ نساء ایت 3 کی تشریع کررہا ہے جس سے اختلاف مشکل ہے مگر موسی کی تشریع سے اگر اختلاف کیا بھی جائے تو اختلاف کرنے والوں کے سامنے یہ بنیادی سوال تو برحال کھڑا ہے کے قران نے قبل اسلام مکہ کے کلچر کی لامحدود شادیوں کی رسم کو کم کر کے صرف چار کیوں کی تھی؟ پانچ، چھ، تین یا دو کیوں نہیں؟ یہ حقیقت کے اُس وقت کے مدینہ کے یہودی چار شادیاں کرتے تھے۔
نیچے انگریزی میں پبلش وڈیومیں اس بات کی تصدیق ہے کے (تورات) اولڈ ٹیسٹامنٹ میں ایک سے زیادہ بیویوں کا رواج تھا۔ مدینہ کے یہودی اُس وقت چار شادیاں کرتے تھے اور قران نے بھی لامحدود کو کم کرکے چارکردی تھی۔ یہودیوں نے چار بیویوں کے اس رواج کو 12ویں صدی میں ختم کیا تھا لیکن مسلمان اسے آج تک بحال رکھے ہوئے ہیں۔
سورہ نساء ایت 3 جسے بنیاد بنا کرمسلمان مرد چار شادیوں کے جواز کی دلیل آج تک استعمال کرتا رہا ہے، کے علاوہ میں نیچے بقرہ ایات 172/173 اور المائدہ ایت 3 پوسٹ کررہا ہوں جن میں کھانے پینے کی چیزوں کی وہ لسٹ ہے جو حرام ہیں۔ آپ خود پڑھ سکتے ہیں کے یہ لسٹ وہی ہے جو تورات میں ہے لیکن انجیل میں نہیں ہے اور اُس وقت کے مدینے کے یہودی اسی لسٹ کو فالو کرتے تھے جس میں شراب شامل نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کے قران نے مدینہ کے سماجی قوانین میں جو بھی تبدیلیاں کی تھی وہ یہودی مذہبی اقتدار کے ساتھ مہاجرین جو مکہ سے مسلمان ہوکر آئے تھے کو مقامی معاشرے سے ہم آنگ ہونے کی ضرورت اور کوشش نظر آتی ہے تاکے معاشرے میں سماجی اور تہذیبی ہم آہنگی پیدا ہوسکے جو کسی بھی سماج کے اندرونی آمن کی ناگزیر ضرورت اُس وقت بھی تھی اور آج بھی ناگزیرہے۔
نکاح انسانوں کے درمیان سیول کنٹرکٹ ہے نہ
کے عورت کی شرمگاہ کو استعمال کرنے کا حق
اور یہی نقطہ نظر علامہ اقبال کا ہے
جس طرح مہر کی رسم کی تعبیر و تشریع
ہمارا مذہبی طبقہ کرتا رہا ہے وہ صرف عورت
کی توہین نہیں بلکے تہذیب انسانی کی توہین ہے۔
علامہ اقبال کا نقطہ نظر بھی وہی ہے جوموسی کا
ہے اور یہی صیح تعبیر و تشریع ہے۔
No comments:
Post a Comment