حضرت ابراھیم، اور مکہ۔
ڈاکٹر موسی جو قران کے عالم ہیں اور ان کی قران کی تعبیر وتشریع سے اگر اختلاف کیا بھی جائے تو ہم اس حقیقت سے کیسے انکار کرسکتے ہیں کے مکہ اور یروشلم کی جو مذہبی کہانی ہے اور وہی کہانی قران کی پراری بھی ہے لیکن اس میں فرق صرف اتنا ہے کے یروشلم کی کہانی میں کردار ابراھیم ساہرہ اور اسحاق ہیں اور مکہ کی کہانی میں بھی ابراھیم ہے لیکن یہاں ھاجرہ اور اسمعیل ہیں۔
میں آرکیالوجیکل ثبوتوں جن کے مطابق مکہ کا جغرافیہ پٹرا ہے یا موجودہ جگہ پر یا یہ کے شروع کی مساجد کی سمت موجودہ مکہ کی طرف نہیں بلکے پٹرا کی طرف ہے یا یہ کے قریش کے سردار قصے نے جب دوبارا مکہ پر قبضہ کیا تو ماں کے مشورے پر کعبہ کے ارد گرد اپنے قبیلے کو آباد کیا تاکے اس سے ارد گرد کے علاقوں کے لوگوں پر ان کا سیاسی اثر ریگا، کی تفصیل میں نہیں جاونگا۔
جو کہانیاں ہمیں سکولوں میں پڑھائی گئی تھی کے مکہ کے لوگ بت پرست تھے۔ کیا ابراھیم کی اولاد جو یروشلم میں تھی وہ وحدنیت پرست تھے لیکن اسی ابراھیم کی اولاد جو مکہ میں تھی وہ بت پرستی کی طرف چلے گے تھے؟ کیا یہ تاریخی مذہبی کہانی اپنی ٹانگوں پر کھڑی ہوسکتی ہے؟ کیا رسم و رواج، اخلاقیات، قاعدے قانون کا وجود میں آنا کسی معاشرے کی خاص وقت اور ماحول کی سماجی ضرورتوں کا سبب نہیں ہوتا؟ کیا مذہب کی ایجاد خود معاشرے کی سماجی اکائی یعنی قبیلہ نہیں تھا؟ کیا پاکستان میں کیلاش قبیلہ آج بھی اس کی ایک خاص مثال نہیں ہے؟ لہذا قران کی عبارت کو اپنے کنٹکسٹ سے الگ کر کے سمجھنے کی کوشش غلط نتائج کی سمت لیجانے کےامکان کو مسترد کرنا مشکل ہے۔
نبی کے دادا حضرت عبدلمطلب کے ابرھا کے ساتھ جو مذاکرات ہوئے تھے۔ مذاکرات شروع ہوئے تو نبی کے دادا نے ابرھا سے پوچھا کے تماری فوج نے میرے اونٹوں پر قبضہ کیوں کیا ہے؟ ابرھا نے جواب دیا کے میں تو تمارا کعبہ گرانے آیا ہوں، تمیں اس کی فکر نہیں مگر اپنے دو سو اونٹوں کی فکر ہے۔ نبی کے دادا نے جواب دیا کے کعبہ اللہ کا ہے، اس کی حفاظت اللہ کریگا لیکن اونٹ میرے ہیں اور ان کی ذمداری میری ہے۔ لفظ اللہ اسلام سے قبل بھی قریش مکہ کا اللہ تھا نہ کے کرسچن اور جیوش کا اللہ جو قران کی عبارت کی پراری ہے اور خود نبی کے والد کا نام بھی عبداللہ تھا۔
ابراھیم کی کہانی جس کی بنیاد یہودی مذہب ہے مگر جس جگہ سے ابراھیم کی کہانی منسوب کی جاتی ہے آج تک اس پر اتفاق نہ ہوسکا کے وہ جگہ عراق، شام اورترکی کے کون سے علاقے تھے؟ آثار قدیمہ کے جو ثبوت ملے ہیں وہ بھی اس سوال کو حل نہ کرسکے لیکن ابراھیم کی کہانی کو اُس کے فیس ولیو پر لیا جائے تو ابراھیم آج کی مسلم مذہبی انتہاء پسندی کی سوچ جو بلخصوص پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران یا دنیا کے دوسرے حصوں میں نظر آتی ہے، اُس انتہاء پسندی کومذہبی تاریخی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو نبی ابراھیم کا تاریخی کردار مذہبی امریت کا باغی، اظہار رائے کی آزادی کا علمبرداری اور ضمیر کے ساتھ کھڑاہونا نظر آتا ہے، دوسرے الفاظ میں اُس وقت کے معاشرے کے مذہبی رواج کو ریشنل ازم کی بنیاد پر چیلنج کرنا ہے جسکا نتجہ ابراھیم کو گستاخ مذہب قرار دیکر بلاسفیمی کی سخت ترین سزا دینے کی کوشش جو آگ میں زندہ جلانا تھا تاکے معاشرے پر دہشت پھیلائی جائے اوردوسرا کوئی مستقبل میں زبان کھولنے کی ہمت نہ کرسکے۔
کیا آج کے مذہبی جبر کے قوانین تاریخی طور وہی قوانین نہیں ہیں جو نبی ابراھیم، نبی عیسی یا خود ہمارے نبی آخرالزماں کے خلاف استعمال ہوئے تھے؟ آج اظہار رائے کو دبانے کے لئے سرتن سے جدا کا نعرہ کیا ہے؟ کیا حضرت ابراھیم کے عہد کے لوگوں نے حضرت ابراھیم کو زندہ جلانے کی سزا مذہبی گستاخی کے سبب نہیں دی تھی؟ کیا وہی تاریخی مذہبی جبر کی کہانی کی تلوار آج کے عہد میں سلمان رشدی، تسلیما نصرین، سلمان تاثیر، پروفیسر حفیظ اور ہزاروں دوسرے مظلوموں پر نہیں چلائی گی؟ کیا تاریخی طورپر گستاخی مذہب کا قانون خود حضرت ابراھیم، حضرت عیسی اور حضرت محمدﷺ کے خلاف استعمال نہیں ہوا تھا؟ کیا ہمارے نبی کو مکہ اس وقت چھوڑنا نہیں پڑا تھا جب بنو ھاشم کا سردار نبی کا سوتیلا چاچہ عبدالہزا المعروف ابولہب بنا تھا اور اس نے مکہ کے قانون کے تحت نبی کی جان کو جو تحفظ حاصل تھا اٹھا لیا تھا کے قریش کو جو مرضی ہے گستاخ مذہب محمدﷺ سے کرے؟
کیا نام نہاد عاشق رسول اور خود ساختہ مذہب کے پہرے داراور انتہاء پسند مذہبی دہشتگرد طالبان، القاعدہ، داعش، جیش محمد، بوکو حرام، لشکر طیبہ، الشباب اور تحریرالشام جو خوارج کے نام سے مشہور ہوئے ہیں تاریخی طور پر ہر عہد میں جوظلم کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں، مثال کے طور پر شداد، نمرود، ابوجہل، ابولہب، یزید، چنگیزخان اور ہٹلران کی صف میں کھڑے نہیں ہیں؟ کیا انسانوں کے سروں کو قلم کر کے ان سے فٹ بال کھیلنے والوں کا تعلق کسی بھی انسانی معاشرے سے ہوسکتا ہے یا درندوں سے؟
کیا پاکستان، بھارت اور افغانستان کے مذہبی فرقے اور مذہبی سیاسی پارٹیاں خود نبیوں کے تاریخی کردار کی مخالف سمت میں کھڑے نظر نہیں آتے؟ کوفہ والے جو حنفی کے نام سے مشہور ہوئے اہل الرائے کہلاتے تھے اور مدینہ والے جو مالک کے نام سے مشہور ہوئے اہل العلم کے ٹرم سے مشہو تھے مگر آج کون سی مسجد یا مدرسہ پوری دنیا اسلام میں جو ان تاریخی فکری شناخت کے ساتھ جڑا نظر آتا ہو؟ ہر ایک کا فرقہ اورعقیدہ جو جس بھی فیملی پیدا ہوتا ہےاسی فیملی سے ورثے میں اسے ملتا ہے۔
تحریر یا تقریراسکی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتی اور نہ ہی اچھا یا برا ہونے کا معیارعقیدے کی عبادات طے کرتی ہیں بلکے سماج میں انسان کا سماجی کردار ایک کھلی کتاب کی طرح ہوتا ہے جسے سماج اپنے حواس خمسہ سے تصدیق یا تردید کرتا ہے نہ کے کسی کا عقیدہ، ایمان یا مذہب۔
اس لیے خود کی یا دوسروں سے لکھوائی گی تعریفی تحریریں یا تقریریں حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ جو انسان اپنے فرقے یا گروہی تعصبات سے باہر دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا ہے وہ فکری اپائج پن کا شکار ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں اس قسم کی فکر کی آبیاری ہوتی ہو اس معاشرہ کی اپسی ہم آہنگی، کسی بھی شکل میں ہو اس میں سماجی، فکری، سیاسی اور اجتماعی مسائل میں کبھی نہ ہم آہنگی آئی ہے نہ آسکتی ہے۔ ایک طرف گھر کو جلانے کی تربیت اور دوسری طرف گھر کو محفوظ ہونے کی امید کی دوسمتی پالیسی چل رہی ہے۔
قران کی تعبیر و تشریع اور حدیث لٹریچر؟
نبی کی وفات کے دو سو سال بعد بغداد میں عباسی خلیفہ متوکل نے جب حنبلی سکول کو اسلام پر مسلط کیا جن کو ان کے ہم عصروں نے کبھی صیح یا پراپر جیورسٹ تسلیم نہیں ہی کیا تھا بلکے وہ نبی اور صحابہ کے نام پر کہانیاں گھڑنے کے لیے مشہور تھے جس کا کوئی تحریری ثبوت انکے پاس نہیں ہوتا تھا۔ بلکل اُسی طرح جس طرح آج کل کے مولوی کبھی ہمیں بتاتے ہیں کے شیخ عبدالقادر جیلانی نے جب اللہ چھٹے آسمان سے گرا تو چوتھے آسمان پر شیخ عبدالقادر جیلانی (گیلانی اور جیلانی ایک ہی لفظ ہے۔ عربی میں ج بولا جاتا ہے جبکے مصری آج بھی ج کو گ بولتے ہیں مثال کے طور پر جمال کو گمال، جدہ کو گدہ بولتے اسی یہودی بھی ج نہیں گ بولتے ہیں یاجوج ماجوج کو یاگوگ ماگوگ) نے اپنے ہاتھ کا سہارہ دیکر اللہ کو گرنے سے
بچالیا تھا یا بقول خادم رضوی کے حضرت موسی کی ساہیوال جیل میں آمد اورعلمدین سے ملاقات یا طارق جمیل اپنے جنت کے دورے کے بعد ایک سو تیس فٹ لمبی حور کی کذب بیانی کو ہزاروں کے سامنے سناتےنظرآتے ہیں اور آج کے مولوی کا جھوٹ کل کے معاشرے کا مذہبی رواج بن جایا کرتا ہے۔ کیا جو کذب بیانی کرنے والوں کے سامنے بت بنے بیٹھے تھے انہیں پوچھنا نہیں چاہیے تھا کے اللہ جو قادر مطلق اور زمین و آسمان کے درمیان نور ہے کب سے فانی مخلوق بنا اور وہ اللہ جو کائنات کو بنانے والا ہے کیسے وہ خود کشش ثقل کے قانون کے تعابے ہوگیا ہے؟ کسی نے خادم رضوی سے نہ پوچھا کے تمارے پاس وحی کب سے آنا شروع ہوئی ہے جو نبی کی مابعد الطبیعیات کی کہانی سنا رہے ہو۔ جنت کا دورا کرنے والے طارق جمیل سے اُس کی فکشنل کہانی کا سورس بھی کسی نہ پوچھا؟ کسی کو نہ سوال کرنے کی حمت کی ہوئی نہ پوچھا بلکے سرتن سے جدا کے شیطان کذب بیانی کو پورے جوش کے ساتھ سبحان اللہ
سبحان اللہ کے نعروں کی گن گرج میں گذب بیانی سنتے اورداد دیتے رہے۔
حدیث کے مصنفین نے خود یہ لکھا ہے کے نبی نے قران کے علاوہ ان سے منسوب اگر کسی نے کوئی چیز لکھی تھی تو اسے مٹانے کا حکم دیا تھا۔ کسی صحابی نے کوئی حدیث نہیں لکھی بلکے بہت سے صحابہ نے کچھ واقعات کو قلم بند کیا تھا اور جب انکو نبی کے اس حکم کا پتہ چلا تو سب نے اپنی ان تحریروں کو تلف کردیا تھا۔
قران اللہ کا پیغام جبرائیل کے ذریعے نبی کے پاس آیا اور نبی نے بلکل جس طرح آیا تھا اسی طرح اپنی زبان و بیان کے اظہار سے کاتب وحی سے لکھوایا تھا۔ کاتب وحی سے لکھوانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کے نبی کو لکھنا نہیں آتا تھا بلکے وحی آنے کے وقت نبی ﷺ کا جسم وجد کی حالت میں ہوتا تھا اس لئے کاتب وحی سے لکھوانہ پڑتا تھا۔
قران ہی اللہ کا پیغام اور نبی کی سنت ہے۔ نبی کی سنت قران سے نہ ہٹ کرہے نہ متوازی ہے اور نہ اللہ قران اور نبی کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کو صرف قانون طبیعیات کے اندر دیکھنا ہوگا بلکے اللہ اور جبرائیل کا ہونا بھی قانون طبیعیات کی حقیقت نہیں، بلکے مابعد الطبیعیات ہے جس کی بنیاد ہمارا نبی پر ایمان ہے۔ ایمان فرد کی ذات کی وہ کیفیت ہوتی ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے لیکن وہ اس کی تصدیق یا تردید نہ حواس خمسہ کرسکتا ہے اور قانون طبیعیات سے ایسا کرنا ممکن ہے۔ ہر وہ چیز جسکا مادی وجود ہے اور جب ہم مادی وجود کا اقرار کرتے ہیں تو ہم اس عہد میں زندہ ہیں جب ایٹم کو توڑا جاچکا ہے اور جسکے کے نتجے میں الیکڑان، نیوٹران اور پروٹران چھوٹے سے چھوٹا زرہ کاہنات ہے اور سہروردی کی اسلام کی فلسفے کی تشریع جسکی بنیاد سورہ نور ایت 35 اور ایٹم کا نظریہ تھا سے آگے نکل چکا ہے۔
جس طرح لا إله إلا الله محمد رسول اللہ اس بات کی تصدیق ہے کے اللہ بھی حاضر ہے اور نبی بھی حاضر ہے مگر دونوں کا حاضر ہونا قانون طبیعیات اور قانون فطرت میں نہیں بلکے مابعد الطبیعیات اور فوقہ الفطرہ میں ہونا ہے یا یہ کے قران کی وہ آیات کے شہداء زندہ ہیں۔ وہ بھی زندہ مابعد الطبعیات اور فوقہ الفطرہ میں ہیں نہ کے طبعیات میں۔ مذہب کی تعبیر و تشریع فلسفے کے اصول کے تحت کی جاتی ہے مگر مذہبی اظہار جو لوگ کرتے ہیں (مسجد، مندر، چرچ یا سنیگاگ) اس کو دیکھنا اور پرکھنا انسان کے حواس خمسہ کے تحت ممکن ہے اس لئے لوگوں کے مذہبی رسم و رواج کو سائنسی اصول کے تحت دیکھنا، پرکھنا اور سمجھنا ممکن ہے مگر مذہبی عقائد کی تعبیر و تشریع فلسفے کے اصول کے تحت ہی ممکن ہے۔ اس لیے نہ ایک مذہب یا فرقہ دوسرے کو غلط کہے سکتا ہے نہ دوسرا پہلے والے اور دونوں کی جنگ ایسی چیز پر جس کی تصدیق یا تردید اس دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی اور خود قران کا یہی موقف ہے لیکن اسلام کے نام پر خفیہ ایجنسیوں، مذہبی نسل پرستوں، جنسی نسل پرستوں، صہونیوں اور سامراجیوں نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے استعمال کرنے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر لڑھانے کا ایسا گہرا عالیم نظام تشکیل دیا ہوا ہے جس سے نکلے بغیر نہ عالمی امن اور سماجی انصاف قائم ہوسکتا نہ ہی اسکی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ جنگوں کے بیوپاریوں کے ہاتھ میں مذہب کے نام پر نفرت پیدا کرنس عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑا کر طبقاتی کشمکش سے توجہ ہٹانے کی سیاست کامیابی سے چل رہی ہے۔
مذہب ایک جنرل سوال ہے اور جب ہم جنرل سوال سے خاص کی طرف سفر کرتے ہیں یعنی کسی ایک مذہبی سوال کو دیکھتے ہیں،تو کوئی بھی مذہب یا فرقہ جنرل سوال کے اصول سے باہر نہیں ہوتا اور اسے اسی کے داہرے میں دیکھنا ہوتا ہے دوسرے الفاظ میں سماج میں لوگوں کے مختلف مذاہب، مختلف فرقے یا مذہب کوبلکل نہ ماننے والے، ان سب کا ایک ساتھ ایک سماج میں وجود ایک سماجی حقیقت ہے جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا مگر آج جو معاشرے بقائے باہمی کو ناگزیر حقیقت سمجھ کر مذہبی نفرت ختم کر کےاور مابعدالطبیعات کے دعوے کو فرد کے خود تک کی کفیت تک محدود کر کے آگے نکل چکے ہیں وہ خوشحال ہیں مگر وہ معاشرے جن کے درمیان ان فطری اختلاف کا حل بقائے باہمی نہیں بلکے فناباہمی ہے تو وہ معاشرے نہ جنگ و جدل سے نکل سکے نہ اندرونی خلفشارکوکم کرسکے نہ اپنے عوام کے درمیان مذہبی، نسلی، فرقہ وارنہ اور قومیتی اختلاف کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی اپسی ہم آہنگی پیدا کرسکے ہیں۔ اس حققیت کو ماننے کے لیے تیار نہیں کے سماج میں ہر رنگ کے پھول ہوتے ہیں اور سب کی بقاء باغ ہے اور آپسی ہم آہنگی سے ہٹکر کوئی راستہ نہیں۔
قران کی عبارت کی تعبیر و تشریع کا پہلا اصول قران خود قران ہی اسکی تعبیر و تشریع کرتا ہے؛ دوسرا اصول تعبیر و تشریع خالص عبارت جو ظاہری طور پر کہے رہی ہوتی ہے۔
بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابی داود،ابن ماجہ نبی کی وفات کے دو سو سال بعد ایران اور سنٹرل ایشیا میں پیدا ہوئے تھے۔ بغداد میں یہودی اور زرتشت مذہب کے زیر اثر حدیث لٹریچر کو اسلامی کلچر کا حصہ بنانے کی اجازت خلفیہ متوکل نے دی تھی جو دراصل یہودی ربانکل لٹریچر کا اسلام میں چربہ تھا۔ اس لیے قران کی تعبیر و تشریع دو سو سال بعد بغداد میں نبی/صحابہ کے نام پر لکھی گئی کہانیوں کی بنیاد پرکرنےسے میری رائے میں قران کی عبارت کو مسخ کرنے کا سبب بنا ہے۔
بقرہ ایت 106نحل ایت 101کو بنیاد بناکر ناسخ و منسوخ کی تھیوری قران کو بدلنے کی میری رائے میں ایک منظم کوشش تھی۔ مثال کے طور پر یہ اصول اپنایا گیا کے اگر قران اور حدیث میں تضاد ہو تو حدیث قران کو منسوخ کردیگی یعنی مخلوق اپنے خالق کو منسوخ کردیگی! اس کے علاوہ حدیث کے نام پر لاکھوں کہانیاں گھڑی گئی تھی جس سے قران کی تردید ہونا شروع ہوگی تھی۔ بعد میں خود حدیث کے مصنفین نے لاکھوں کہانیوں کی کانٹ چھانٹ شروع کی جسکا نتجہ پانچ ہزار پلس کو باقی رکھا گیا تھا اور نویں صدی کے ابو الحسن الاشعری نے حدیث کا قران کو منسوخ کرنے کے اصول کو ریورس کیا اور حدیث اور قران میں تضاد ہو تو قران حدیث کو منسوخ کردیتا ہے کا اصول اپنایا گیا تھا۔
میری رائے میں حدیث لٹریچر سے بہت بڑی حد تک قران کو مسخ کر کے اس پر زرتشت اور بنیاد پرست یہودی مذہبی کلچر کو مسلط کرنے کی کوشش کے تاریخی ثبوت موجود ہیں۔
مثال کے طور پر سورہ بقرہ ایت 43 سورہ ال عمران ایت 43 میں رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کریں۔ اور اگر سارے فرقوں کی نماز کے کلچر کو سامنے رکھا جائے تو ان کی نماز کا امیج قران، مسجد الحرام اور مسجد النبوی(1980 تک) کے کلچر سے متصادم ہے۔ میری جوانی سعودی عرب میں گذری ہے۔ 80کے وسط میں، میں مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہا تھا تو میرے داہیں طرف کے ایک سفید رنگت کے بزرگ نے میرے کان میں کہا کے میری نماز نہیں ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا کیوں نہیں ہوئی؟ اس نے کہا کے میرے آگے ایک عورت نماز پڑھ رہی ہے۔
میری آگلی صف میں ایک خاتون بلکل میرے آگے نماز پڑھ رہی تھی۔ یہ بزرگ سعودی نہیں تھا بلکے عراقی یا شامی تھا۔ یعنی بنیاد پرستی باہر سے آ رہی تھی جو یہودی بنیاد پرستی ہے اور خواتین کے خلاف یہودی مذہبی تعصب تھا نہ کے اسلام، بلکے مسخ شدہ اسلام جس پر ان کے مقامی کلچرکا رنگ چڑھ گیا تھا جس کی بنیاد دو سوسال بعد بغداد میں بنیاد پرست یہودیت اور زرتشت کا غلاف تھا جسے اسلام پر چڑھایا گیا جو مسجد نبوی اور مسجد الحرام کے کلچراور قران سے متصادم ہے جو نبی کے وقت سے چلا آ رہا تھا۔ مدینہ والوں نے اس میں تبدیلی نہیں کرنے دی تھی۔
چونکے ان کی مساجد میں رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کا مطلب مردوں کا مرددوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ جبکے قران نہ یہ کہتا ہے نہ یہ صیح تعبیر و تشریع ہے۔
آج بھی یہودی بنیاد پرست نہ عورت کے پیچھے چلتے ہیں نہ عورت کو اپنے آگے بیٹھنے دیتے ہیں نہ عورت مرد سے ہاتھ ملا سکتی۔ گاڑی میں بھی آگے والی سیٹ پر مرد بیٹھے گا عورت نہیں لیکن قران نے مکہ کی حاجرہ کی کہانی جو معاشرے میں عبادت کا درجہ پا چکی تھی اسے نہ صرف بحال رکھا بلکے ھاجرہ جو ایک عورت تھی کی تاریخی سماجی ذمداری کے کردار کو اللہ نے بقرہ ایت ۱۵۸ اِنَّ الصَّفَا وَالۡمَرۡوَةَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰهِۚ قرار دیا۔ کیا اللہ نے اس جنسی نسل پرستی پر جوعورت کو انسان نہیں جنسی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں زبردست تھپڑ نہیں ہے؟ اسلام کے پردے میں یہودیت کا پرچار کرنے والے طالبان، القاعدہ، داعش، اخوان، تحریر الشام یا وہ سارے جو مذہبی نسل پرستی کے سیاست کو فروغ دیتے ہیں کے منہ پر اللہ کا یہ تھپڑنہیں ہے اور ان میں تھوڑی سی بھی انسانیت کی کوئی حس باقی ہو تو وہ شرم معسوس کریں لیکن مجھے پتہ ہے کے فرقہ پرستی کی آگ انسان کو انسان سے درندہ بنا دیتی ہے جس طرح پانی نقطہ انجماد پر برف بن جاتا یا ابالنے پر گیس میں بدل جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں پانی اپنی اصل شکل میں باقی نہیں ریتا۔ اسی طرح انسان کا اعتدال سے انتہاء کی سمت سفر اور انتہاء پر پہنچ کر انسان نہیں بلکے وہ درندہ بن جاتا ہے جو یزیدی خواتین کو غلام بناکر ریپ کرتا ہے یا انسانوں کے سرکاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلتے ہیں۔
قران تو مریم جو ایک عورت تھی اسکو کہے رہا ہے کے سجدہ
کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کے حدیث لٹریچر کی تخلیق کے پیچھے نیت ہی قران کو مسخ کرکے اپنے اپنے تعصبات کا تحفظ تھا؟ سارے فرقوں کی نماز کا کلچر قران سے متصادم ہے؟ کیوں؟ کیا نبی کے پاس کوئی اور قران آیا تھا؟ مساجد سے خواتین کی بدخلی، ممبر و محراب پر مردوں کا قبضہ اوراسی تعبیر و تشریع کے پیچھے جنسی تفریق سے مردوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا لگتا ہے جسے کسی طور پر نہ قران کی صیح تعبیر و تشریع مانا جاسکتا ہے اور نہ ہی انصاف کے اصول پر پوری اترتی ہے بلکے یہودی مذہب کو اسلام بنادیا گیا جس میں سب سے زیادہ کردار 12 ویں صدی کے ابن تمعئی ہیں جو یہودی بنیاد پرستی کی عینک سے اسلام کو دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
مسجد الحرام یا مسجد نبوی میں کبھی عورت مرد علیحدگی کا کلچر نہیں تھا۔ قبل اسلام مسجد الحرام میں مکس جنسی عبادت کا رواج تھا اور وہی رواج جومسجد الحرام کا کلچر تھا مسجد نبوی میں نبی کے ساتھ مدینہ میں آیا تھا۔ لیکن جب وہ دمشق اور بغداد پہنچا تو آہستہ آہستہ زرتشت اور جیوش بنیاد پرستی کے مذہبی کلچر کا رنگ اسلام پر چڑنا شروع ہوا تھا جو ہمیں اپنی مقامی مساجد اور مسجد الحرام کے درمیان فرق کی شکل میں نطر آتا ہے۔ لہذا قران کی تعبیر و تشریع کا صیح طریقہ خود قران ہی قران کی تعبیر و تشریع کرتا ہے اور یہی بات خود قران بھی کہے رہا ہے۔
قران کی مندرجہ بالا دو آیات اگر ڈاکٹر موسی، ڈاکٹر اقبال اور پروفیسر آصف کی تعبیر و تشریع نہ لی جائے اور حدیث کی روشنی میں تعبیر و تشریع کو مانا جائے جو اسلام پر مسلط ہے تو رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع صنفی تقسیم اور تفریق کے بغیر حکم ہے اور کسی بھی جگہ خواتین رکوع خواتین کے ساتھ اور مرد رکوع مردوں کے ساتھ نہیں لکھا ہے بلکے آل عمران تو مخاطب ہی خاتون سے ہے کے سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
جنسی علیحدگی سماج کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ سماج کی سب سے چھوٹی اکائی جس پر سماج کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے وہ فیملی کی سماجی یونٹ ہے جس میں باپ، ماں، بیٹا، بیٹی، بہو اور دماد سب عورت مرد فطرت نے مکس پیدا کیے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں علیحدہ نہیں۔
اس لیے اس بات کا جواب کے قران سے متصادم مقامی مساجد میں مکس جنسی نماز کا کلچر ختم کرکے مسجد کو صرف مردوں کی جگہ جس طرح گے کلب ہوتے ہیں بنا دیا گیا ہے، کیسے ہوا؟ شرم کا مقام یہ ہے جہاں سے روحانی کرنوں کی سماج کو امید ہوتی ہے وہاں سے اکثر مرد مولویوں کے ہاتھوں بچوں کے ریپ کی خبریں آتی ہیں؟
قران سورہ توبہ ایت 71میں عورت مرد کو دوست قرار دیتا ہے؛ واقع افک میں حضرت عاٗشہ جب پیچھے رہ گئی تھی تو دوسرے دن صفوان بن معطل کے ساتھ آئی تھی۔ کیا اگر نام نہاد جنسی علیحدگی کا کلچر اسلام میں ہوتا یا محرم اور حجاب کی بدعات ہوتی تو نبی کی بیوی اسکی خلاف ورزی کرسکتی تھی؟
حضرت عائشہ اپنی فوج کی قیادت کرتے ہوئے مدینہ سے عراق کے شہر بصرہ تک کا سفر کرتی ہیں اور میدان جنگ میں اپنے دماد کی فوج کے خلاف اپنی فوج کی اونٹ پر بیٹھکر کمان کرتی ہیں جبکے جنگ کے دونوں طرف نبی کے صحابہ تھے۔ کیا اگر جنسی علیحدگی، محرم اور حجاب ہوتا تو صحابہ اعتراز نہ کرتے؟ کیا یہ سوال اٹھانا جائز نہیں کے قران سے متصادم مذہبی کلچر جو یہودی بنیاد پرستی ہے کو اسلام میں کون اور کیسے لایا گیا تھا جسے خود نبی مدینہ میں چھوڑ کر واپس مکہ کی طرف مڑ گے تھا؟ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کے حدیت کی روشنی میں قران کی تعبیر و تشریع کی نیت کے پیچھے قران کو مسخ کرنا ہی تھا؟
مذاہب کے درمیان شادی۔
نساء ایات 23/24 اسلام میں شادی کو ریگولیٹ کرتی ہیں جس میں پوری لسٹ ہے اور کس کس سے شادی کو حرام قرار دیا ہے۔ اس لسٹ سے باہر ہر مرد اور عورت آزاد ہے وہ جس سے چاہیں شادی کریں اور نساء ایت 24
واُحِلَّ لَـكُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰ لِكُمۡ اَنۡ تَبۡتَـغُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ
اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ تمہارے لیے حلال ہے اگر تم اپنے مال سے تلاش کرو۔
ہر ایک مندرجہ ذیل آیات خود پڑھ سکتا ہے کے اللہ نے کس کے ساتھ شادی حرام قرار دی ہے۔ یہ آیات اپریٹنگ اور قانونی ہیں اور بقرہ کی ایت 221 اختیاری ہے اور فرد کا اپنا فیصلہ ہے کے وہ کرے یا نہ کرے۔
مندرجہ ذیل آیات سے یہ بات صاف ہے کے اسلام میں شادی رنگ، نسل، مذہب، فرقے کی قید سے آزاد ہے اور جو رشتے حرام ہیں انکی لسٹ موجود ہے۔ ھندو سے شادی حرام کا کلچر مذہبی نسل پرستی کا تعصب ہے مذہب نہیں۔
جب محمد القاسم سندھ پہنچا تو اس کے سامنے ھندو مذہبی کلچر کا پہلا تجربہ تھا۔ وہ خود عرب اور طائف سے تعلق رکھتا تھا اور اس کی عمر اٹھایس سال تھی سترہ نہیں۔ محمد بن قاسم نے ھندو مذہب کے بارے میں بغداد میں حجاج بن یوسف کو لکھا اور حجاج نے دمشق میں خلیفہ کو لکھا۔ اس وقت بنوامیہ کے خلیفہ ولید تھے۔ خلیفہ ولید نے سورہ بقرہ ایت 62 کی روشنی میں یہ لکھا کے ایران کے زرتشت اور ھندوستان کے ھندو کی وہی پوزیشن ہے جو صبین کی ہے۔
چونکے زرتشت اور ھندوں کے پاس بہت قدیم سکرپچر ہے۔ یہ ھندو اور زرتشت کے بارے میں خلیفہ کا فتوی تھااور خلیفہ کا حکم قانون تھا۔
مندرجہ ذیل نساء ایت 25 ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے اسلام میں سنگسار کی سزا نہیں ہے۔ یہ طالمانہ سزا یہودیوں کی توریت اور ھندوں کی منوا میں ہے جو دو سو سال بعد بغداد میں یہودیوں سے اسلامی کلچر میں درآمد کی گئی تھی جبکے یہ سزا حضرت عیسی نے ختم کردی تھی اور قران نے اسی فیصلے کو اپہلڈ کیا تھا۔
ایک غلام عورت آزادی حاصل کرنے کے بعد شادی کرتی ہے اور شادی کے بعد زنا کی مرتکب ہوتی ہے اسے زنا کا جرم چار گواہوں کی شہادت کے بعد ثابت ہونے پر آدھی سزا ہوگی اس کی نسبت جو ایک آزاد عورت نے شادی کی اور اسکے بعد زنا کی مرتکب ہوئی ہو تو اسے 100 کوڑے۔ شروع میں نساء ایات 15/16 میں چار عینی گواہوں کے بعد بیوی کو اکیلا گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دینے کی سزا تھی لیکن اسے تبدیل کرکے نور ایت 2 میں 100 کوڑے کر دی گئی اور جھوٹی گوائی پر نور ایت 4 میں 80 کوڑوں کی سزا۔ خاوند بیوی پر الزام لگائے اور چار گواہ نہ ہوں تو نور ایت 6 میں چار بار حلف اٹھایگا اور جواب میں نور ایت 8 میں بیوی چار بار حلف اٹھائے کے یہ جھوٹ بولتا ہے تو سزا ختم ہوجایگی۔ خاوند نے اگرخود مرد کو اپنی بیوی کے اپر دیکھا ہومگر چار گواہ نہ ہوں تو پھر بھی قران کا یہی قانون ہے اور زندگی قانون کے تعابے ہے نہ کے قبائلی تعصبات کو قران، اسلام اور نام نہاد غیرت بنا کر انارکی کو فروغ دیا جائے جو آج کل غیرت کے نام پر قتل ہورہے ہیں۔ قران میں زنا صرف شادی شدہ کا ہے اپنے خاوند یا بیوی کے علاوہ کسی دوسرے سے سیکس کرنا ہوتا ہے جسے آجکل چٹنگ کہتے ہیں۔
بالغ انسان جو غیرشادی شدہ ہوں کا رضامندی کا سیکس اسلام میں نہ زنا ہے نہ گناہ اور نہ کوئی سزا۔ بالغ انسان ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں اپنے حقوق کی خود حفاظت کرتے ہیں اور وہ اپنے فیصلے کرنے میں بلکل آزاد ہیں۔
No comments:
Post a Comment