میں نے پانچ وڈیوز یہاں شیر کیے ہیں۔ ایک اُپروالا وڈیوجہاز میں ایک مسلمان نمازی کا ہے جس نے بغیر اجازت کے مسافروں کے جہاز میں ایمرجنسی کے راستے میں نماز شروع کردی تھی جس سے جہاز میں سفر کرنے والے مسافروں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ ایک وڈیو برطانیہ سے لبنا زیدی کا تھا جسے اس نے لگتا ہے کسی کے دباو پر ہٹا لیا ہے۔ باقی تیں وڈیوں نماز کے بارے میں قران کیا کہتا ہے اور مسلمانوں نے کس طرح قران سے متصادم قران کی صلاۃ کی جگہ زرتشت نماز کو اسلام کے کلچر کا حصہ صدیوں سے بنایا ہوا ہے؟
لبنا کے ویلاگ کو میں نے پندرہ بیس دن قبل دیکھنا شروع کیا ہے جس میں معاشرے کے سماجی، ثقافتی اور تہذیبی حوالے سے بہت دلچسپ پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے جو مذہبی رویہ ۲۰ ویں صدی میں نمودار ہوا ہے وہ دلچسپ بھی ہے اور اس سے ہر سماج میں مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر پوری دنیا کے عوام رنگ، نسل، مذہب سے بالاتر ہوکر فلسطین کے عوام کے حقوق اور اسرائیل کےخلاف مظاہرے کرتے ہیں لیکن مظاہرین میں مسلمان سڑکوں پر نماز شروع کر لیتے ہیں جس سے نماز کی ادایگی کی نیت کم اور فلسطین کے احتجاج کو مذہبی اور فرقہ پرستانہ رنگ دینا، مذہبی اور فرقہ پرست سیاست کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ نیا رواج یہ ہے کے نماز کے امیج کو سماج میں سیاسی اور مذہبی تفریق کے اشتہار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے جو نہ تو اخلاقی طور پر جاہز ہے اور نہ ہی مذہب اسکی اجازت دیتا ہے۔
لبنا نے اس وڈیوں میں برطانیہ میں ان مسلمانوں کی بات کی ہے جو کسی کے گھر کام کرنے کی غرض سے جاتے ہیں لیکن اس کے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت لیکر نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کے یورپ کی پرانی آبادی کے انسان کو مذہب، تہذیب، کلچر اور ڈاورسٹی کی تعلیم نرسری سے سائنسی بنیادوں پر دی جاتی ہے، جبکے ہمیں نرسری سے مذہبی فرقہ پرست انسان یہ سمجھ کر بنایا جاتا ہے تاکے مذہبی طور پر تربیت یافتہ بچہ نیک ہوگا اور معاشرے کو اچھا انسان ملیگا مگر تجربے نے اس سوچ کو غلط ثابت کیا ہے، جس کا نتجہ ہمیں دوسرے مذاہب یا سماجی ڈاورسٹی کے ساتھ ایڈجسٹ، دوسروں کا احترام یا برداہشت کی تعلیم و تربیت نہ ہونے کا نتجہ سماج میں انتہاء پسندی کے فروغ میں کھاد کا کام کرتی ہے جسکا نتجہ ہم افغانستان میں دیکھ چکے ہیں جہاں پر انسانوں کی آدھی آبادی کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھ کر گھروں پر قید کیا ہوا ہےجبکے افغانستان کے عوام کو ان کے پیدائشی حق، حق خود ارادیت سے محروم رکھا گیا۔
برطانوی یا یورپین معاشرے کے انسان تواس کے باوجود کے وہ کرسچن، اگنوسٹک یا مذہب کو بلکل نامانے والے بھی ہوں اپنے گھرمیں نماز کی اجازت تو دے دیتے ہیں لیکن وہ برا معسوس کرتے ہیں اور دوسری بار جب کارکن کی ضروت ہوگی تو وہ گھراس نمازی کو جاب نہیں دیگا۔
دوسری دو وڈیوز میں قران کی الصلاة یا صلاۃ اورمسلم مذہبی کلچر میں موجودہ نماز کیسے شامل ہوئی ہے پر بحث قران کے ثبوتوں کی بنیاد پر بحث کی گئی ہے۔ دو وڈیوز جو پاکستانی مسلمان کے قلمی نام موسی جو قران کا ماہر پی ایچ ڈی ہے میں ہمارے نماز پڑھنے کے کلچر کے امیج کو قران سے متصادم ثابت کیا ہے اور مقدس عبارت کے اس پہلو کو میں بھی کبھی نوٹ نہ کرسکا۔ ایک وڈیوں میں پاکستانی پروفیسرصاحب کی ہے جس میں ہماری نمازوں کو قبل مسیح کے پرشین مذہبی رواج کو ثبوتوں کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ جس کے ساتھ علمی بنیاد پر اختلاف کی گنجاہش ہے مگر تاریخی حقیقت یہی ہے کے ایران کے بادشاہ سارس نے یہودیوں کو جب بابل سے واپس یروشلم سونا اور چاندی دیکر جانے کی اجازت دی تھی تو سارس کا مقام یہودی عقائد میں اسکے سبب آج تک بہت بلند ہے۔ یہودیوں ٘میں داڑھی کا کلچر بھی ایران بادشاہوں کا امیج ہے، اورانکے عقائد میں قیامت کا تصور بھی ایران سے ہی آیا ہے جو بعد میں یہودیوں سے کرسچنوں اور مسلمانوں کے عقائد کا القران اور انجیل کا حصہ بنا ہے۔
ہر ایک کا اختلاف فطری اور بنیادی حق ہے لیکن تحریر و تقریر پر پابندی انسانی معاشرے کو جاہلت کے علاوہ کچھ نہیں دیتی۔ اظہار رائے علم اور جاننے کی بنیاد ہے اور ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔ دونوں کے وڈیوز میری رائے میں قران، علم اور تحقیقی ثبوتوں پر مشتمل ہیں اور اسلام کے گم شدہ گوشوں سے پردہ
ہٹاتے ہیں۔
میں خود اس بات کی وکلات کرتا رہا ہوں کے اسلام دو سو سال بعد عباسی خلیفہ متوکل کے بعد جب اس نے حنبلی سکول کو اسلام پر مسلط کیا تو یہ وہ عہد ہے جب نبی کے اسلام کو شکست ہوئی تو اسلامی کلچر زرتشت اور جیوش بنیاد پرستی کے زیر اثر جانا شروع ہوا۔ یہاں سے ہی حدیث لٹریچر کو اسلام میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی جو جیوش ربانیکل کلچرکا چربہ ہے اور حدیث لٹریچر کے سارے بانی بھی ایرانی یا سنٹرل ایشین تھے جو ایک دو نسل پہلے زرشت تھے۔ شروع کے عباسی عہد کے جوسکے محفوظ ہیں، ان پر ایرانی بادشاہ کی داڑھی کے ساتھ آگ کا نشان اور ایک حصے پر صرف عربی میں اللہ لکھا ہے جبکے بنو امیہ کے سکوں پر بادشاہ بغیر داڑھی کے ہے اور آگ کا نشان بھی نہیں ہے۔ میری رائے یہ ہے کے جب بغداد میں نبی کی ترقی پسند تحریک جو ایک ریفارم کی تحریک تھی اور تیزی سے پھیلی تھی، دو سو سال بعد یہاں سے اس تحریک میں تنازل شروع ہوتا ہے تو یہاں یہ تبدیلیاں شروع ہوئی جسے ہمیں غلط طور معتزلہ اور غیرمعتزلہ کی لڑائی قرارد یتے جب کے محتزلہ تو مڈل گرونڈ تھے اور یہ تو حنفی تھے جو اپنے وقت کے ریشنلہسٹ (اہل الرائے) کہلاتے تھے اور دوسری انتہاء پرخوارج تھے جسکا نقشہ آج کے اسلام کا امیج ہے۔
قران کی عبارت کا جو جدید ترجمہ وہ موسی اور پروفسر کے ساتھ اختلاف کے باوجد بھی یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کے بہت زیادہ غلط اور مقامی کلچرل رنگ کو قران پر چڑھانے کی کوشش کے پیچھے اپنے وراثت میں ملے تعصبات کا تحفظ رہا ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت میں اپنے تعصبات کا قیدی ہوتا ہے وہ قدیم ابولہب اور ابوجہل ہوں یا جدید ڈاکٹر ذاکر نائک اور محروم خادم رضوی ہوں وہ قران کو نہیں مانتے بلکے قران کے نام پر اپنے تعصبات کو مانتے ہیں۔ مفسرین نے بھی قران کی ایک دو ایات اپر لکھ کر قران کے پردے میں قران کو مسخ اوراپنے نظریات کو قران کے غلاف میں قران بناکر پرچار کیا گیا ہے۔
میں نےان وڈیوزکے ساتھ اپنا نقطہ نظر دینے کے بجائےڈاکٹر محمد اقبال کا نقطہ نظر جو نماز کے بارے میں انکی کتاب اسلام میں مذہبی افکار کی تشکیل نوہے، کچھ حصے کا ترجمہ شامل کیا ہے۔ جس طرح کتاب کے ٹاٹل سے ہی ظاہر ہو رہا ہے کے اقبال اسلام میں مذہبی افکار کی تشکیل نو کا وکیل تھا اور اقبال کی یہ کتاب پاکستان میں اردو ترجمہ تک نہیں ملتی اور نہ ہی بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان یا افغانستان میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہے بلکے مسجد کے ممبر سے جھوٹ اورفراڈ کو قران و سنت کے نام سے پھیلایا جاتا رہا ہے جسکا نتجہ بنیاد پرستی، انتہاء پسندی اور مذہبی سیاسی تشدد کا کلچر فروغ پاتا رہا ہے۔
اقبال کیا کہتا ہے؟
میں آپ کی توجہ عظیم امریکی ماہر نفسیات پروفیسر ولیم جیمزکے مندرجہ ذیل اقتباس کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا؛
ایسا لگتا ہے کہ سائنس اس کے برعکس جو کچھ بھی کہے سکتی ہے اس کے باوجود، انسان وقت کے آخر تک نماز کی رسم کرتے رہیں گے، جب تک کہ ان کی ذہنی فطرت اس طرح تبدیل نہ ہو جائے جس کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے کہ ہمیں توقع کرنے پر مجبور کرنا چاہئے. نماز پڑھنے کا جذبہ اس حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے کہ اگرچہ انسان کی تجرباتی ذات کا سب سے اندرونی حصہ سماجی نوعیت کا خود ہے لیکن پھر بھی اسے ایک مثالی دنیا میں اس کا واحد مناسب معاشرہ (اس کا "عظیم ساتھی") مل سکتا ہے ... . زیادہ تر انسان، یا تو مسلسل یا کبھی کبھار، اپنے سینوں میں اس کا حوالہ رکھتے ہیں. اس زمین پر سب سے عاجز شخص اس اعلیٰ پہچان کے ذریعے خود کو حقیقی اور درست محسوس کر سکتا ہے۔ اورانسان، یا تو مسلسل یا کبھی کبھار اپنے سینوں میں اس کا حوالہ رکھتے ہیں. اس زمین پر سب سے عاجز شخص اس اعلیٰ پہچان کے ذریعے خود کو حقیقی اور درست محسوس کر سکتا ہے۔ اور دوسری طرف، ہم میں سے زیادہ تر کے لئے، ایک ایسی دنیا جس میں ایسی کوئی اندرونی پناہ گاہ نہیں ہے جب بیرونی معاشرتی نظام خود ناکام ہو جاتا ہے اور ہم سے گر جاتا ہے تو ہمارے لیے خوف کی کھائی ہوگی. میں کہتا ہوں "ہم میں سے زیادہ تر کے لئے"، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ انسان اس حد تک مختلف ہوں کہ وہ ایک مثالی تماشائی کے اس احساس سے کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ یہ دوسروں کے مقابلے میں کچھ انسانوں کے شعور کا زیادہ ضروری حصہ ہے۔ جن لوگوں کے پاس یہ سب سے زیادہ ہے وہ ممکنہ طور پر سب سے زیادہ مذہبی انسان ہیں۔ لیکن میں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوں، اور واقعی میں کسی حد تک اس کا شکار ہو۔ انڈ اف کوٹ۔
آپ دیکھیں گے کہ نفسیاتی طور پر یہ تو اپنی اصل میں سبق آموز ہے۔ علم حاصل کرنے کے مقصد کے طور پر نماز کا عمل عکاسی سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود نماز اپنی بلند ترین سطح پر تجریدی عکاسی سے کہیں زیادہ ہے۔ غور و فکر کی طرح یہ بھی انضمام کا عمل ہے، لیکن نماز کے معاملے میں ہم آہنگی کا عمل خود کو قریب سے جوڑتا ہے اور اس طرح خالص سوچ کے لئے نامعلوم طاقت حاصل کرتا ہے. سوچ میں ذہن حقیقت کے کام کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے۔ نماز کے عمل میں وہ آہستہ آہستہ عالمگیریت کے متلاشی کی حیثیت سے اپنا کیریئر چھوڑ دیتا ہے اور اپنی زندگی میں ایک شعوری شراکت دار بننے کے مقصد سے حقیقت کو پکڑنے کے لئے سوچ سے زیادہ بلند ہوجاتا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ بھی پراسرار نہیں ہے. روحانی شعور کے ذریعہ عام طور پر نماز ایک اہم عمل ہے جس کے ذریعہ ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ اچانک پوری زندگی میں اپنی صورتحال کو دریافت کرتا ہے۔ یہ مت سوچو کہ میں آٹو تجویز کی بات کر رہا ہوں۔ آٹو تجویز کا زندگی کے ذرائع کے کھلنے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جو انسانی انا کی گہرائیوں میں واقع ہیں۔ روحانی روشنی کے برعکس جو انسانی شخصیت کو تشکیل دے کر نئی طاقت لاتا ہے، یہ زندگی کے مستقل اثرات کو پیچھے نہیں چھوڑتا ہے اور نہ ہی میں کسی غیبی اور خاص طریقے سے علم کی بات کر رہا ہوں۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ اپنی توجہ ایک حقیقی انسانی تجربے پر مرکوز کریں جس کے پیچھے ایک تاریخ ہے اور اس سے پہلے ایک مستقبل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تصوف نے اس تجربے کا خصوصی مطالعہ کرکے نفس کے نئے علاقوں کو ظاہر کیا ہے۔ اس کا ادب روشن ہے۔ اس کے باوجود اس کے طے شدہ جملے جو ایک بوسیدہ مابعد الطبیعیات کی فکری شکلوں سے تشکیل پاتے ہیں، جو جدید ذہن پر مہلک اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک بے نام چیز کی جستجو، جیسا کہ نو افلاطونی تصوف میں ظاہر کیا گیا ہے ، چاہے وہ عیسائی ہو یا مسلمان - جدید ذہن کو مطمئن نہیں کر سکتی ہے جو اپنی ٹھوس سوچ کی عادات کے ساتھ ، خدا کے ٹھوس زندہ تجربے کا مطالبہ کرتا ہے اور تہذیب انسانی کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ عبادت کے عمل میں شامل ذہن کا رویہ اس طرح کے تجربے کی شرط ہے۔ درحقیقت نماز کو فطرت کے مبصر کی فکری سرگرمی کا ایک لازمی ضمیمہ سمجھا جانا چاہیے جو ہمیں حقیقت کے طرز عمل کے ساتھ قریبی رابطے میں رکھتا ہے، اور اس طرح اس کے بارے میں گہری نظر کے لئے ہمارے اندرونی ادراک کو تیز کرتا ہے۔ میں یہاں صوفی شاعر رومی کا ایک خوبصورت اقتباس نقل کیے بغیر نہیں رہ سکتا جس میں انہوں نے حقیقت کے بعد صوفیانہ جستجو کو بیان کیا ہے
دفتر صوفی سوا دو حرف نیست جز دل اسپید مثل برف نیست
زاد دانش مند آثار قلم زاد صوفی چیست آثار قدم
ھمچوصیادے سوئے اشکار شد کام آھو دید و ہر آثار شد
چند گاھش کام آھو در خور است بعد ازان خود ناف آھو رھبر است
راہ رفتن یک نفس بر ہوئے ناف خوشتر ازصد منزل کام و طواف
صوفی ایک شکاری کی طرح شہرت حاصل کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہرن کا مشک ہرن کا ٹریک اس کے لئے مناسب اشارہ ہے، لیکن بعد میں یہ ہرن کا مسک گلئڈ ہے جو اس کا رہنما ہے۔ مسک گلینڈ کی خوشبو سے رہنمائی حاصل کرنے والے ایک مرحلے تک جانا ٹریک پر چلنے اور گھومنے پھرنے کے سو مراحل سے بہتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم کی تمام تلاش بنیادی طور پر نماز کی ایک شکل ہے۔ فطرت کا سائنسی مبصر نماز کے عمل میں ایک طرح کا صوفیانہ متلاشی ہوتا ہے۔ اگرچہ فی الحال وہ صرف مشک ہرن کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرتا ہے، اور اس طرح اس کی تلاش کے طریقہ کار کو معمولی حد تک محدود کرتا ہے، لیکن اس کی علم کی پیاس بالآخر اسے اس مقام تک لے جائے گی جہاں مسک گلینڈ کی خوشبو ہرن کے قدموں کے نشانات سے بہتر رہنمائی کرتی ہے۔ یہ اکیلا فطرت پر اس کی طاقت میں اضافہ کرے گا اور اسے مکمل لامحدود کا وہ تصور دے گا جسے فلسفہ تلاش کرتا ہے لیکن نتجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ طاقت کے بغیر بصیرت اخلاقی بلندی تو لاتی ہے لیکن دیرپا ثقافت نہیں دے سکتی۔ بصارت کے بغیر طاقت تباہ کن اور غیر انسانی بن جاتی ہے۔ انسانیت کی روحانی توسیع کے لئے دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
تاہم نماز کا اصل مقصد اس وقت بہتر ہوتا ہے جب نماز کا عمل اجتماء ہو۔ تمام سچی نمازوں کی روح سوشل اجتماع ہے۔ تمام سچی نمازوں کی روح ایک دوسرے کے ساتھ سوشل ہونا ہے۔ یہاں تک کہ صوفی جو اللہ کی تلاش میں ہوتا ہے، بھی انسانی معاشرے کو اس امید میں ترک کر اکیلی جگہ کو مسکن اس امید پر بناتا ہے کے اسے خدا کا ساتھ یا فیلوشپ مل جایگی۔ ایک سماجی اجتماع انسانوں کی ایک انجمن ہے جو ایک ہی خواہش سے متحرک ہوکر خود کو کسی ایک چیز پر مرکوز کرتے ہیں اور اپنے اندرونی نفس کو ایک ہی محرک کے کام کے لئے کھول دیتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ رفاقت عام آدمی کے ادراک کی طاقت کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے، اس کے جذبات کو گہرا کرتی ہے، اور اس کی مرضی کو اس حد تک تبدیل کر دیتی ہے جس حد تک وہ اپنی انفرادیت کی رازداری میں نامعلوم ہے۔ درحقیقت، اسے ایک نفسیاتی مظہر کے طور پر سمجھا جاتا ہے، اس لیے نماز اب بھی ایک معمہ ہے۔ کیونکہ نفسیات نے ابھی تک ایسوسی ایشن کی حالت میں انسانی حساسیت کو بڑھانے سے متعلق قوانین کو دریافت نہیں کیا ہے۔ تاہم، اسلام کے ساتھ معاون نماز کے ذریعے روحانی روشنی کی یہ سماجیت دلچسپی کا ایک خاص نقطہ ہے. جب ہم روزانہ نمازئی اجتماع سے لے کر مکہ مکرمہ کی مرکزی مسجد کے ارد گرد سالانہ تقریب تک جاتے ہیں تو آپ آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اسلامی عبادت گاہ آہستہ آہستہ انسانی میل جول کے دائرے کو وسیع کرتی ہے۔
نماز، چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، کائنات کے خوفناک ماحول میں ردعمل کے لیے انسان کی اندرونی تڑپ کا اظہار ہے۔ یہ کائنات کی زندگی میں ایک متحرک عنصر کے طور پر اپنی قدر اور جواز کو دریافت کرنے کا ایک انوکھا عمل ہے۔ نماز میں ذہنی رویوں کی نفسیات کے مطابق اسلام میں عبادت کی شکل اقرار اور نفی دونوں کی علامت ہے۔ اس کے باوجود انسانی تہذیب کے تجربے سے ظاہر ہونے والی اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نماز ایک باطنی عمل کے طور پر مختلف شکلوں میں ظاہر ہوئی ہے، قرآن کہتا ہے:
ہم نے ہر قوم کے لیے عبادت کے طریقے مقرر کر رکھے ہیں جن پر وہ عمل کرتے ہیں۔ پس وہ تجھ سے اس معاملے میں جھگڑا نہ کریں بلکہ انہیں اپنے رب کی طرف حکم دیں کیونکہ تو سیدھی راہ پر ہو۔ لیکن اگر وہ تجھ سے بحث کریں تو کہہ دو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ وہ قیامت کے دن تمہارے درمیان ان معاملات کا فیصلہ کرے گا جن میں اختلاف ہے (22:66-9)
نماز کی شکل کو تنازعہ کا موضوع نہیں بننا چاہئے۔ آپ اپنا چہرہ کس طرف موڑتے ہیں یہ یقینا نماز کی روح کے لئے ضروری نہیں ہے۔ قرآن اس نکتے پر بالکل واضح ہے
''مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں۔ پس تم جس طرف مڑو وہاں خدا کا چہرہ ہے''(البقرۃ ایت 109)۔
No comments:
Post a Comment