Saturday, December 10, 2022

Iِِِmran Khan's "illegitimate" child and concealment of assets. In Islam children are only children regardless of the social status of their parent's union. #imrankhanlatestnews #RaziNaama #Pakistan




کیا امریکہ یا برطانیہ کے اخبارت بچے کی سماجی شناخت اور پہچان کی رانمائی کے لیے کافی ہیں یا حقائق زیادہ ایم ہیں؟ 

بچے قانونی یا غیرقانونی نہیں ہوتے، بلکے وہ صرف بچے اور معصوم ہوتے ہیں۔ اگر آپ باقی کاموں کے لیے امریکہ یا برطانیہ کی طرف نہیں دیکھتے تو بچے کی شناخت کے سماجی اظہار کے لیے یہ ضرورت کیوں پیش آ گئی ہے؟ آپ کے آہین میں لکھا ہے کے ملک کا کوئی قانون قران و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا ہے۔ جناب سماجی اظہار وہی قابل قبول ہوگا جو بچے کی شناخت کو سماج میں عزت و احترام کو یقینی بناتا ہو اور بچہ کے لیے خود بھی گروتھ کے دوران کسی قسم کی نفسیاتی الجھن کا شکار ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ 

بات ٹریان، کرسچن، مسلمان یا ھندو بچوں کی نہیں بلکے دنیا کے سارے بچوں کا سوال ہے؟ حقیقت بھی لیوچالڈ ہو، اوٹ آف ویڈ لاک ہو یا ویڈ لاک میں پیدا ہونے والے بچے، سب بچے اپنے بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں،  لیکن ہرتعلق/عمل کے نتجے میں پیدا ہونے والے  ہر بچے کے حقوق برابر ہوتے ہیں اوران حقوق کے تحفظ کی ذمداری ماں، باپ اور معاشرہ تینوں پر برابرعائد ہوتی ہے اور سب سے پہلا حق بچے کے لیے معاشرے میں اس کی شخصیت، عزت و احترام کے حق کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

 شادی ایک سماجی ادارہ ہے، جس سے حقوق و فرائض کا تعین ہوتا ہے، لیکن بچے صرف سماجی ادارہ پیدا نہیں کرتا، نہ ہی بچے کی پیدائش سماجی یونین کا سبب ہوسکتی ہے، بلکےاس کے لیے بالوجیکل یونین ناگزیر ہوتی ہے جس کا نتجہ حمل اورتخلیق ہے۔ 

محروم مولوی خادم حسین رضوی نے اسی قسم کا حملہ عبدالستار عیدی پر کیا تھا، لیکن وہ یہ بھول گیا تھا کے عبدالستار عیدی ان بچوں کا سہارا بنتا رہا تھا جن کا کوئی سہارا نہ تھا، لیکن عبدالستار عیدی کا اپنا کوئی بچہ  لیوچالڈ تھا نہ اوٹ آف ویڈلاک۔ ان کے سارے بچے ویڈلاک سے ہوئے ہیں۔

کیا ہمارے نبی کا عمل ہمارے لئے سنت کا مقام نہیں رکھتا؟ آپکے قانون میں لکھا ہے کے قران و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ کیا حضرت ابراھیم بن محمد صلی اللہ علیہ و صلم کی ماں ماریہ قبطیہ نبی کی بیوی تھی؟ نہیں۔ وہ نبی کی کنیز تھی جس سے یہ بچہ پیدا ہوا تھا اور اٹھارہ ماہ تک زندہ رینے کے بعد فوت ہوگیا تھا۔ کیا یہ بچہ اوٹ آف ویڈلاک نہیں تھا؟ (مشکوۃ شریف جلد سوم صفحہ 297 اور 328 پر) 

کیا پاکستان میں کسی نے محروم خادم حسین رضوی کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے کو چلنج کیا تھا، کے یہ گالی اس نے صرف عبدالستا عیدی، سنگل والدین اور بچوں کو نہیں دی یا ان کے حقوق پر حملہ نہیں کیا بلکے یہ گالی اس نے نبی کو بھی دی ہے؟
 
اسلام سے قبل مکہ کے معاشرے میں ایک عورت کا ایک سے زیاد خاوند کا رواج نہیں تھا اورایک سے زیادہ خاوند کا رواج اسلام سے صدیوں پہلے ختم ہوچکا تھا۔ اسلام سے قبل مکہ کے معاشرے میں ایک مرد لامحدود عورتوں  سے ایک ہی وقت میں شادی کا رواج تھا۔ باپ کی وفات پر بڑا بیٹا اپنی سویتلی ماں کو گرل فرنڈ کے طور پر رکھنے کا رواج بھی تھا لیکن یہ رواج معاشرے میں قبولیت کھوتا جارہا تھا مگر لامحدود لانڈیوں کے ساتھ سیکس کا رواج غیر مقبول ابھی تک ںہیں ہوا تھا۔ 

اسلام جب مدینہ گیا توچونکے مدینے کا یہودی مرد چار بیویاں رکھتا تھا تو قران نے بھی محدود کر کے تعداد چار کر دی اور سورہ نساء ایت 23 کے تحت سوتیلی ماں کو گرل فرنڈ رکھنے کے رواج کو ختم کردیا، لیکن لامحدود لانڈیوں کے ساتھ جنسی تعلق کو نساء ایت 24 المومنون ایت 6 الاحزاب آیات 50/52 المعارج ایت 30 میں بحال رکھا۔ یہودیوں نے چار شادیوں کے رواج کو 12 ویں صدی میں ختم کردیا تھا لیکن مسلمانوں نے آج تک بحال رکھا ہوا ہے۔ لانڈیوں کے ساتھ سیکس کا رواج قبل اسلام کا ہی بحال رکھا گیا تھا چونکے یہ رواج معاشرے میں اس وقت کے ماحول میں غیر مقبول نہیں ہوا تھا مگر کرسچن اور یہودی مذہبی فلسفے کی رجت پسندی کے فکری دباو میں ضرور تھا۔
 
بعد اسلام اس میں اتنی سی تبدیلی ہوئی تھی کے مرد غلام عورت کے ساتھ سیکس کر سکتا تھا تو عورت بھی اپنے غلام مرد کے ساتھ سیکس کر سکتی تھی، لیکن اس تبدیلی نے حضرت عمر کے دور میں جھگڑے کی شکل اختیار کر لی۔ حضرت عمر کا موقف قبل اسلام کے رواج کی حمایت تھا جبکے خواتین کا موقف تھا کے حضرت عمر اپنے مردانہ تعصب کے تحفظ کے لیے قران کی غلط تعبیر و تشریع کر رہے ہیں۔ دائیاں ہاتھ سے مراد صرف مرد کا ہی ہاتھ نہیں عورت کا بھی ہے۔ حضرت عمر نے ایک کمیٹی بنائی جس میں سارے مرد شامل تھے، کوئی ایک بھی عورت نہیں تھی۔ وہ اپنی بیٹی حفصہ کو شامل کرسکتے تھے جو خود نبی کی بیوی تھی مگر شامل نہیں کی نتجہ کیمٹی نے حضرت عمر کے حق میں اور خواتین کے خلاف فیصلہ دیا جس کا نتجہ اسلام کو شکست اور قبل اسلام کے رواج کو فتح نصیب ہوئی۔
 
قران میں لانڈیوں کے ساتھ سیکس کی اجازت کے سبب ہی دمشق کے بشپ جان جو بنو امیہ کی حکومت کے اعلئی عہدیدار بھی تھے نبی کی وفات کے صرف پچاس سال بعد اپنی کتاب میں یہی الزام اس نے اسلام پر لگایا تھا کے اس مذہب کی سب سے  بڑی خرابی یہ ہے کے اس نے زنا کو جاہز قرار دے دیا ہے۔  دوسرے لفظوں میں بشپ اس وقت بھی اسلام کے خلاف فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والا مذہب قرار دیکر، تحریک چلا رہا تھا۔  اس تنقیدی مثال سے ہمیں شروع کے اسلام پر تنقید کے حق کے رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے۔ بشپ جان پر کسی نے کوئی جوابی تنقید کی ہو یا جواب آل غزل کا کوئی ثبوت ملتا ہو، نہیں ہے اور نہ ہی بشپ کو حکومت کے علئی عہدے سے علیحدہ کیا گیا تھا اس کے باوجود کے حکومت خود مسلمانوں کی تھی۔ 

اسی بشپ جان کی کتاب کو ثبوت کی بنیاد بناکر گیاریویں صدی میں رابرٹ کی قیادت میں اٹلی میں قران کا ترجمہ لاطین زبان میں کرایا گیا جو کرسچنوں کی طرف سے اسلام پر جوابی حملے کی کوشش تھی مگرعملی اعتبارسے تاریخ میں جو کام یورپ کے کرسچن اس وقت نام نہاد فحاشی/بے حیائی کو بنیاد بناکر عرب/ اسلام پر حملہ کر رہے تھے آج مسلمان معاشروں میں بنیاد پرست مغرب کو فحاشی/بے حیائی کا الزام لگاتے ہیں مگر تاریخی طور پر دونوں کا عمل ایک ہی ہے صرف وقت مختلف ہے۔ قران کے ترجمہ کے بعد دوبارا وہی الزام دہرایا جو بشپ جان کا تھا کے مسلمانوں کے مذہب کی بڑی خرابی یہی 
ہے کے اس نے زنا کو جاہز قرار دے دیا ہے۔

چودہ سو سال قبل کے بشپ جان، گیارہ سو سال قبل کے رابرٹ اور آج کے خادم حسین رضوی، عمران خان، ڈاکٹر ذاکر ناہک اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے مولانا چترالی ایک ہی سوچ اور فکر کے تعابے ہیں جس کا حوالہ اسلامی تاریخ سے لیا جائے تو وہ ابوجہل اور ابو لہب سے جا ملتا ہے جو سماجی عمل اور کلچرکو جامد و ساکت خیال کرتے ہیں۔ اس قسم کی سوچ کے حامل لوگ یہ بھول جاتے ہیں کے مذہب کلچر کا ایک عنصر ہے مکمل کلچر نہیں۔ کلچر ایک متحرک سماجی عمل ہے اسی لیے ہر کلچر مقامی ہوتا ہے جسکے ارتقاء کا سبب عوام کی مشترکہ زبان اور سماجی زندگی کا انٹرکورس ہوتا ہے جو کتابوں کی عبارت یا عقیدے کی مطلقیت سے تب ہی متاثر ہوتا ہے جب وہ عبارت یا وعظ سماجی حقیقت سے ہم آہنگ ہوکر بدلنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

قران کی پراری جیوش/کرسچن لیجنڈ اور مذہبی تاریخ کے علاوہ مکہ اور مدینہ کا کلچر تھا۔ پراری ماحول کا مسلط کردہ سچ ہوتا ہے مطلق سچ نہیں۔ خود لفظ اللہ، کرسچن یا جیوش مذہب سے قران میں نہیں آیا بلکے یہ مکہ کے قریشی مذہب سے قران میں آیا ہے جو قبیلے کا مذہب تھا اور قران میں استعمال کی گئی ٹرم "کافر" جس کا مطلب کسی چیز کا چھپانا ہوتا ہے کو عام بناکر نام نہاد توحید اورغیرتوحید  کو دیکھنے کے مادی تصورکو غیرمادی قرار دیکرتقسیم کی مطلق لکیر کینچھنے کی کوشش سے ایک طرف قریش کے زیر اثر مکہ کی انفرادیت کی تاریخ  کو سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے اور دوسری طرف بادشاہ کے ایک ہونے کے تصور کو اللہ کے غلاف میں واحد ہونے کے تصور کو لاشعوری طور پرعام ہونے میں مدد دیتے رہے۔ 

مذہب کو بشریات کی نظر سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کے مذہب کا آغازہوا ہی قبیلے کی سماجی اکائی سے تھا جس کی ایک زندہ مثال پاکستان کے چترال کے علاقے کا کلاش قبیلے کے لوگوں کا کلچر ہے جو اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ ماہرین لسانیات لفظ اللہ کو شام کے کچھ علاقوں سے منسوب کریں یا گریک الات سے لیکن اسلام سے آنے سے قبل یہ لفظ مکہ کے کریش کا اللہ تھا جس کی وہ عبادات کرتے تھے مزید میری اس دلیل کی تصدیق کے لیے نبی کے دادا اور ابرا کے درمیان ہونے والے مکالمے کی تاریخ کو دیکھا جاسکتا ہے یا قبل اسلام مکہ میں کعبہ کے گرد طوائف کے دوران "لبیک اللهم لبیک" ہی کا ورد کیا جاتا تھا جس سے پتہ چلتا ہے اللہ قریش کی عبادت کا ہی مرکزتھا جو قران/اسلام کو مکہ کے معاشرتی ماحول سے ورثے میں ملا ہے جسے فلسفے کی زبان میں پراری کہتے ہیں نہ کے لفظ اللہ، جیسا کے عام مسلمان کا خیال ہے کے یہودیوں کی کتاب تورات یا کرسچنوں کی کتاب انجیل سے قران کا حصہ بنا ہے۔

مکہ اور مدینہ کے کلچر میں لانڈی کے ساتھ سیکس اُس وقت نہ برا سمجھا جاتا تھا نہ زنا کہلاتا تھا۔ اُس وقت کےغلام دار معاشرے کی اخلاقیات، رسم و رواج اور قاعدے قانون غلام دار معاشرے کی ہی تھی جو قران کی ناگزیر پراری کے طور قران کی عبارت کا حصہ بنی۔ کیا قران کی عبارت اس وقت کے معاشرتی ماحول سے باہر ہوسکتی تھی یا وہ ماحول قران کی عبارت کا  ورثہ نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا؟ اُس وقت کی سماجی ضرورت قران کی عبارت اور نبی کی تحریک کو ڈکٹیٹ کررہی تھی نہ کے آج کی؟ لفظ پراری ڈسکارٹی اور کانت کی تحریروں نے زیادہ مقبول کی تھی لیکن اس فلاسیفکل ٹرم اور اصول کا استعمال گریک فلسفے کی تاریخ میں شروع سے ملتا ہے اور گریک فلاسفی کا اسلامی عہد کے نوآبادتی قانونی کلچر کے ارتقاء اور ترقی میں بھی بڑا کردار رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قانونی احکام کو واجب، مندوب، مکروہ، مباح یا حرام کی درجہ بندی نہ کی تھی نہ قران میں یہ درجہ بندی موجود ہے بلکے فقہ نے یہ اصول گریک فلسفہ اسٹوسس ازم  جسے عربی میں الرواقیۃ کہاجاتا ہے سے لی تھی جس کے بانی زینو ہیں۔ اسی لیے اقبال نے اس پر تنقید کی ہے کے قران کی تعبیر وتشریع کو گریک فلسفے کے اصول سے کر کے قران کی متحرک عبارت کو ساکت و جامد کردیا گیا ہے۔

قران کی عبارت اپنے وقت اور معاشرتی ضرورتوں سے باہر نہیں ہے لہذا قران کی عبارت کو آج کے سماجی ماحول کی ضرورتوں کے تعابے کرنے کی کوشش میرے نزدیک تاریخ کی سب سے بڑی غلط تشریع ہی نہیں بلکے قران کی مقدس عبارت کو استعمال کر کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے جس کا مقصد سماجی فکر کے سائنسی رجحان پر ضرب لگانا ہے جو غلامی کی دلیل کو باقی رکھنے کی تاریخ کا کلچر تھا۔ جب انسان کی فکری آزادی چھین لی جاتی ہے تو اس سے تحقیق و تخلیق کی صلاحیت چھینے کی کوشش ہوتی ہے جسکا فطری نتجہ سماجی/فکری نشونما کی ترقی کو روکنا مقصد ہوتا ہے اور نتجہ معاشرے اپنی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ قران انسانی فکر کو آزاد کرتا ہے اورہر ایک کو برابر دیکھتا ہے نہ کے جنس، مذہب، رنگ یا نسل کے تعصب میں تقسیم کر کے۔ غلط قران کی عبارت نہیں بلکے ہمارے عقیدے کا سماجی تصور اور کلچر کو دیکھنے کا زاویہ نگاہ غلط ہے جو چودہ سو سال قبل کے سماجی ماحول کی ضرورت کی مقدس عبارت کو آج کے سماجی ماحول پر مسلط کرنے کی کوشش ہے۔

اسلام اور ایمان کی تعریف خود نبی نے جبرائیل کے سوال کے جواب میں کردی تھی۔ سوال یہ تھا: اسلام کیا ہے؟ ایمان کیا ہے؟ حدیث جبرائیل متفق علیہ ہے، جس میں نبی کا جواب موجود ہے۔ کیا اُس جواب میں کیا پہنا ہے؟ کیا کھانا یا پینا ہے؟ کیا قوانین بنانے ہیں یا نہیں بنانے؟ کس کے ساتھ شادی کرنی ہے؟ اور کتنوں سے شادی کرنی ہے یا نہیں کرنی؟ یہ سوال نہیں ہیں مگر قران کی عبارت کی عام بحث یا اس وقت کی ضرورت کے قوانین ہیں  جو آج کے لیے نہیں صرف اُس عبارت کی روح رانمائی کرتی ہے مگر عوام کو ورثے میں ملنے والے عقیدے کو استعمال کرکے عوام کو مسلسل مذہب کے نام پر گمراہ کرکے معاشرے کو اس کی فطری ترقی کی دوڑ میں روکنے کی کوشش تاریخی طور پر رہی ہے اور آج بھی ہے۔ 

ہر سماج اور کلچر لمحہ بہ لمحہ تبدیلی و تغیر کی زد میں ریتا ہے جس کا کوئی فکس اسٹنڈر نہ کبھی بنا ہے نہ قابل عمل ہے۔ اسی لیے امام ابو حنیفہ نے دین اور شریعت کی تعریف یہ کی ہے: "دین نہیں بدلتا مگر شریعت ہر عہد کے ساتھ بدلتی ہے اور ہر عہد کی اپنی شریعت ہوتی ہے" فقہ اکبری میں جو امام سے منسوب ہے، درج ہے۔ یعنی ان کے نزدیک شریعت ایک کلچر ہے جو اپنے عہد اور اپنے سماجی، معاشرتی ماحول کے ساتھ سفر کرتا ہے اوراپنے حال کا عکس ہوتا ہے نہ کے ماضی کی کہانی۔

آج کی مذہبی فکر جو ممبر و محراب سے پروموٹ کی جاتی ہے نبی کی اسلام کی تعبیر و تشریع سے متصادم ہے۔  یہ تشریع ابن تعمیئی، محمد ابن عبدلوھاب اور مولانا مودودی جیسے سیاسی فکرکے علماء کی ہے جو انکے سیاسی ایجنڈےکے گرد گھومتی ہوئی تعریف ہے جو دراصل اسلام کی نہیں بلکے جیوش کی مذہبی قانون کی  کتاب حلاق کا ترجمہ ہے جو یہودیت کی تعریف ہے نہ کے اسلام اور ایمان کی جو نبی نے کی ہے۔
 

Judaism 101 Halakhah

اسلام نے یہودیت سےدوری اختیار کرتے ہوئے دوبارا مکہ کو اپنا کعبہ بنایا تھا جس پر یہودیوں نے اعتراض اٹھایا تھا کے کل تک تو آپ ہمارے ساتھ ملکر یروشلم کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے اور آج تم نے پھر مکہ  کے قریش کے کعبے کو اپنا کعبہ بنا لیا ہے۔ اس کا جواب بقرا ایت 115 جس کی بنیاد ریشنل ازم ہے نہ کے عقیدہ پرستی کی دلیل۔ چونکے یہودیت/عیسائیت اسلام کو ورثے میں ملی تھی اسی لیے قران میں ایک بھی آیت نہیں ہے جو مسلمانوں کو یروشلم کی طرف منہ کرکے عبادت کا کہتی ہو۔ سبب یہ تھا کے قران نے اپنی بنیاد یہودی/کرسچن مذہب پر رکھی تھی جو مسلمانوں کو ورثے میں ملا اور پھر اس میں ریفارم کی تحریک پیدا کی تھی۔ جن لوگوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا ان میں حضرت خدیجہ اور حضرت ابوبکر صدیق سرے فرست تھے اور یہ سب لوگ اس وقت حنیف کہلاتے تھے جو حضرت ابراھیم کو آیڈیل کے طور پرایک تاریخی شخصیت مانتے تھے اور قریش کے اندر اپنے وقت کے لبرل مانے جاتے تھے۔ 

یہودیت اور اسلام میں میرے نزدیک بنیاد فرق یہ ہے کے قران مسلسل تبدیلی اور معروضی ماحول سے نہ صرف ہم آہنگ ہونے کی تبلیغ کرتا ہے بلکے اس تبدیلی اور بہتری کی قیادت کی دعوت دیتا ہے جبکے  یہودیت بلخصوص ہردیز سماج میں فکری حوالے سےتبدیلی کے خلاف رہے ہیں۔ اسی لیَے بقرا ایت 106اور نحل ایت 101 جو تبدیلی اور ریفارم کی بنیاد ہے جبکے بعد کے مذہبی طبقے نے ان ایات کو ناسخ و منسوخ کی تھیوری کی بنیاد بنا کرخود تبدیل ہونے کے بجائے قران کی عبارت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔  ان آیات کی بنیاد پر ہی ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلمانوں میں سماجی، مذہبی، معاشی اور سیاسی ریفارم کی تحریک کو آگے بڑھانے کی مسلسل وکلات کرتے رہے تھے؛

فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات

ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظ ہے تازہ شان وجود

سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی

بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند

سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت حضر ہے مجاز

عقائد کے حوالے سے اسلام کی تعریف نبی نے خود کی ہے جو یونیورسل ہے۔ ایک مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے اور کسی بھی سماج میں ہو پورا مسلمان اپنے ایمان کے ساتھ ہوسکتا ہے جس طرح دوسرے عقائد ہیں لیکن قران کی عبارت سے غلام دار عہد کے سماجی قوانین کا اخذ آج کی ضرورت کے لیے اور اُس کلچر کے حیا کی کوشش مسلمانوں کو گمراہ کرنا اور قران کو مسخ کرنے کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے۔ 

 آج کے انسان کے جسمانی رنگ روپ کو قران کی عبارت کی نظر سے دیکھنے کی کوشش، بغداد میں جیوش مذہبی کلچرکے اثر کا سبب تھا جو آج تک رجعت پسندی اور انتہاء پسندی کا سبب بنتا رہا ہے۔ میرے نزدیک اسلام کی ریفارم کی تحریک کا دو سو سال بعد جمود کا شکار ہوکر تنازل کا سفر اُسی بہودی مذہبی فکر کا اثر تھا اور آج بھی اُسی غلط زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش ہورہی ہے جس نے نہ کبھی صیح نتائج پر پہنچنے میں مدد دی نہ ہی مسلمانوں کی سماجی پسماندگی کو دور کرنے میں کسی قسم کا کردار ادا کیا بلکے جس سماج میں بھی اسلامی عقائد کے لوگوں کی اکثریت تھی یا ہے اس سماج کو ہر حوالے سے اپائج بنانے میں مدد دیتا رہا ہے۔

کسی معاشرے کی سماجی ضرورتیں زماں و مکاں کے اندر اس معاشرے کے رسم و رواج، اخلاقیات، قدریں، قاعدے قانون کو  وجود میں لانے کا سبب ہوتی ہیں اورجو بھی تبدیلی اور بہتری یا تنازل اس معاشرے میں ہوگا پہلے سے موجود رسم رواج، اخلاقیات، قدریں اور قاعدے قانون ہی اسکا حصہ بنیں گے اور ہر تبدیلی، بہتری یا تنازل اس وقت کی سماجی ضرورتوں کے تناست سے اپنا اثر ڈالے گا۔ اس لیے کسی معاشرے کی تاریخ کواس کے وقت کے سماجی ماحول کی نظر سے ہی دیکھنا ہوتا ہے۔ لہذا قران کی عبارت کو مکہ اور مدینہ کے اس  وقت کے سماجی ماحول کے کلچر کی عینک سے ہی دیکھنا ہوگا۔ 

قران کی ایک بھی ایت جو قانون سے تعلق رکھتی ہو، تہذیب و تمدن، معاشی یا تاریخی حوالہ دیتی ہو، اس وقت کے معاشرے کا تاریخی امیج اور اس وقت کی تہذیب کی انسانی میموری سے باہر ہے نہ اس میں صیح یا غلط  کی تصدیق یا تردید کا پہلو بلکے ضرورتوں کو اس وقت کی ریشنل بنیاد کی عینک سے دیکھنے کی کوشش اور بہتری کی ضرورت نظر آتی ہے۔ ہر نیا نظام پہلے نظام کے پیٹ میں ہی پلتا ہے، پرورش پاتا ہے اور جب پرانا نظام نئی ضرورتوں سے ہم اہنگ ہونے کی صلاحیت کھو دیتا ہے تو نیا نظام خود بخود آہستہ اہستہ پرانے نظام کی جگہ لینا شروع کردیتا ہے جو ایک سماجی عمل کا نتجہ ہوتا ہے  نہ کے کتابوں کی عبارت یا وعظین کی تقریروں کا سبب وہی عبارت اور وعظ نتجہ خیز یا سماج میں تبدیلی یا تنازل کا سبب ہوتے ہیں جو سماج کی ضرورتوں سے ہم اہنگ ہوں۔ بنیاد پرستی، انتہاء پسندی، تشدد اور جنگ معاشرے کی اپنی سماجی ترقی کو روک کر تنازل کا شکار کرکے پیچھے لیجانے کا سبب بنتے رہے ہیں جبکے امن، بھائی چارہ، قانون کی حکمرانی، جمہوریت، ریاست کی جوابدہی، لبرل ازم اور کھلا پن معاشرے کی ترقی کو آگے لیجاتا ہے۔ جاپان، جرمنی، ویتنام اور چین اس کی مثالیں ہیں۔ 

جوقوانین سماجی ضرورتوں کا سبب اور سماج کے لیےہوتے
 ہیں وہ سماجی قوانین کہلاتے ہیں نہ کے اللہ کے قوانیں یا اللہ اور غیر اللہ کے درمیان تقسیم کے قوانین۔ جو چیز بھی قانون طبیعیات کے داہرے کے اندر ہے اور انسان کی پہنچ اور رسائی اس تک ممکن ہے وہ سماجی اور انسانی ہے اور جن تک انسان کی پہنچ نہیں ان کی پہچان انسان اپنے زباں و بیاں میں اللہ یا فطرت کے قوانین قرار دیتا رہا ہے۔ اسی لیے 1930 میں مصر کے مفتی اعظم محمد عبدو نے یہ موقف اختیار کیا تھا کے یہ کہنا ایک ہی بات ہے کے کچھ لوگوں کے نزدیک فطرت کے قوانین ہیں اور کچھ کے نزدیک اللہ کے قوانین ہیں دونوں ایک ہی بات کہے رہے ہوتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر اللہ کا یا فطرت کا قانون "کشش ثقل" ہے جو ہمیشہ سے تھا/ہے لیکن انسان نے اس قانون کو دریافت اور سمجھکر کے یہ قانون کس طرح کام کرتا ہے، اسکا نام "کشش ثقل" رکھا اور اس کی مخالف سمت میں جہاز اڑانے شروع کردیے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انسان کی ضرورت اللہ/فطرت کے قانون کی کھوج لگاکر انسانی مفاد کے تعابے اس کو بنانا ہے یا انسانی مفاد کے لیے اللہ/فطرت کے قانون سے متصادم اور مخالف سمت میں چلکرانسانیت کے مفاد کے تحفظ کو یقینی بنانا رہا ہے اور یہی انسانی تاریخ ہے۔

اللہ کے قانون سے بارش برستی ہے تو انسان اس سے بچنے  کے لیے چھتری اڑنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اللہ کے قانون کے خلاف انسان نے آگ دریافت کی، اپنے تحفظ اور اللہ/فطرت کے قانون کی سختی یعنی موسم کی سردی/گرمی  سے بچنے کے لئے انسان غاروں سے نکلا، درختوں سے اترا، آبپاشی کرنا سیکھی، گھر بنانا سیکھے، سڑکیں، گاڑیاں، ہوائی جہاز، ریل گاڑی، انٹرنیٹ یعنی ہر چیز اللہ/فطرت کے قانون کی مخالف سمت جاکر ہی بناسکا ہے جس سے انسان کی بقاء اور بہتری ممکن ہوئی ہے اور مزید ہوگی۔

ہر نبی کی تاریخ بشمول رام، بدھا یا کوئی اور مقدس نام ہو جو میرے علم میں نہیں اور آخر میں ہمارے نبی آخر الزماں کو شامل کرکے تاریخ کو دینتداری سے دیکھا اور سمجھا جائے تو سب ہی کی تحریکوں کی تاریخ اپنے وقت اور حالات کے تعابے ایک ہی سمت سفر کرتی نظر آتیں ہیں اور وہ یہ کے اپنے اپنے سماج میں ریفارم اور بہتری کی تحریکیں تھی جو آج بھی جاری ہیں لیکن مختلف رنگ روپ میں۔

ہر معاشرے کی سماجی ضرورتیں اس معاشرے کے زماں و مکاں کے اندر اسکے رسم و رواج، اخلاقیات، قدریں اور قاعدے قانون کا سبب ہوتی ہیں اور جب وہ سماجی ضرورتیں بدلتی ہیں تو ناگزیر طور پر اس معاشرے کے رسم و رواج، اخلاقیات، قدریں اور قاعدے قانون کا بدلنا بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔ کل اگر سڑک پر دو طرفہ ٹریفک تھی تو آج یک طرفہ اس لیے ہوگی ہے کے سیفٹی، ٹریفک فلو میں بہتری اور حادثے سے بچنے کی ضرورت نے آج یک طرفہ ٹریفک کے قانون کو اپنانے پر مجبور کردیا۔ 
 
جو چیز اپنے وقت اور ماحول کی ضرورتوں کے ساتھ بدلنے کی سکت کھو دیتی ہے یا ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے قابل نہیں ریتی وہ مر جاتی ہے۔ مردے انسانی تہذیب کی تاریخ میں تخلیق کار نہیں ہویے اور نہ ہی کسی مردے کی تخلیق کی کسی کو امید ہے۔ دنیا کے کسی  قبرستان میں ہمارے لیے تخلیق کاری کا کوئی میوزیم نہیں سجا رکھا۔

یہ میری باتیں کڑوی لگتی ہونگی لیکن یہ بچوں کو پڑھانے کے اسٹیج کی باتیں ہیں نہ کے بالغوں کی بحث کا حصہ بنے کی ضرورت۔ آج بنیادی انسانی حقوق، فرد کی آزادی، حق خود اختیاری، اظہار رائے، عقائد، اور ضمیر کے اظہار کی آزادی کو پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے تحفظ اور نفاظ کے لئے دنیا کی ہر ریاست نے منظم نظام تشکیل دیَا ہوا ہے۔ آج کسی مذہب، کلچر یا رواج کو بنیاد بناکر نہ انسان کے بنیادی انسانی حقوق ختم کئے جاسکتے ہیں نہ کوئی معاشرہ ایسے قوانین بناسکتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہوں۔
 
ھندو مذہب کی رسم ستی دو تین سو سال پہلے ہی تو ختم ہوئی تھی۔ آج بچوں کی تعلیم و تربیت ماں کی گود اور نرسری سے ضروری ہے کے وہ بچہ یہ لازم طور پر سیکھے کے اس کے ساتھ کلاس میں بیٹھنے والے داہیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ والے بچے، جو کسی بھی مذہب، رنگ، نسل، جنس کے گھر سے ہوسکتے ہیں، انکو بھی اُسی طرح عزت و احترام کا حق ہے اور ان کو بھی ورثے میں ملنے والے عقائد کو اُسی طرح عزت و احترام کا حق ہے جس طرح میرے بچےکو۔ باغ کا رنگ روپ وہی ہوگا جس کی باغ کے مالی نے پودوں کو کاشت کرتے وقت ترتیب کی ہوگی؟ ککر کے پودے کاشت کرکے انگور کے پھل کا انتظار خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ 
 
نوٹ: میں نے یہ شارٹ نوٹ رضی داد کے یوٹیوب پرشامل کیا تھا لیکن جب میں خاتمے تک پہنچا تھا تو میرا یوٹیوب ہیک کیا گیا اور سیف نہ ہو سکا تھا نتجہ ڈلیٹ ہو گیا تھا اور پھر میں نے بڑے مشکل سے دوسرا شارٹ سا نوٹ لکھ کر پوسٹ کیا تھا لیکن اس میں بھی کچھ سوال اٹھتے ہیں جو جواب طلب ہیں۔  آج 13 دسمبر2022 کو میں کچھ مزید جواب شامل کر رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کے عام عوام بلخصوص اسلامی عقائد والے افراد کو سماجی طور پر جانے کے لیے ضروری ہونگے۔


No comments: