Saturday, April 17, 2021

حکومت پاکستان کا عوام کو یہ تاثر درست نہیں کے تحریک لبیک ختم ہوگی ۔

#TLP #Pakistan #Islam #Extremism




حکومت پاکستان یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کے تحریک لبیک ختم ہوگی ہے۔ تحریک لبیک ہو یا کوئی اور مذہبی جماعت یا دہشتگرد مذہبی تنظیم وہ کبھی بھی پاکستان کے عوام میں مقبول نہیں رہی ہیں۔ ایسی تنظیمیں پریشر گروپ کا کام کرتی ہیں جن کی طاقت کا سرچشمہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا سیاسی ایجنڈا اور مذہبی فرقہ پرستی کی نفرت کی طاقت رہا ہے نہ کے کوئی سیاسی سماجی پروگرام۔
فرانس میں ایک ٹیجرنے جب کارٹون پر بحث کرانے کی کوشش کی تو ایک مسلمان انتہاء پسند نے ٹیجر کو قتل کردیا۔ ایک مذہب جو تحریروتقریر کا جواب قتل سے دیتا ہو تو سوال اس قاتل تک محدود نہیں ریتا بلکے اس کے مذہبی فلسفے پر غور کا سوال بن جاتا ہے جو ایسے انسان پیدا کررہا ہو۔ خود پاکستان میں ممتاز قادری نے سلمان تاثر کو قتل کیا تھا۔ یہ واقع فرانس کے اندر اور فرانس کے شہریوں کے درمیان ہوا اور اس کی ذمداری اور حل فرانس کا ہے نہ کے کسی دوسرے ملک کا۔
پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے پاکستان کون ہوتا  ہے جو فرانس کے اندرونی ماملات میں مداخلت کرے اور اس کو ڈیکٹیٹ کرے؟ دوسرا سوال یہ ہے کے کیا پاکستانی اسلام ایسے مسلمان پیدا کررہا ہے جو تحریر و تقریر کا جواب تحریر و تقریر سے نہیں بلکے  قتل سے دیتے ہوں؟ تیسرا سوال یہ  ہے کیا اس قاتل کا اسلام/ نبی  پاکستانیوں کااسلام/ نبی بھی ہے؟ کیا دہشتگردوں کا نبی اور وزیراعظم عمران خان کا نبی ایک ہیں؟ کیا کارٹون ہمارے نبی کے ہیں؟ لوگوں کے کسی عمل یا اظہار کو ہم نے اپنے نبی کی شناخت کیوں اور کیسے بنا دیا؟ کیا اس خود کی مشترکہ شناخت کے پیچھے کوئی سیاسی ایجنڈا تھا/ہے؟
قبائلی یکجہتی دلیل اور نظریے کی بنیاد پر سماج میں قائم نہیں ہوتی بلکے نسلی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ قبیلے کے فرد نے اپنے قبیلے کے ساتھ کھڑا ہونا اور فیبلے کے جاہز و ناجاہز مفادات کے تحفظ کے لیے  لڑنا ہوتا ہے۔  اس لیے سوال ناموس رسالت کا نہیں بلکے ناموس رسالت کے پیچھے چھپے سیاسی مفادات ہیں۔ 
کیا وزیر اعظم عمران خان یا پاکستان کی کسی مذہبی تنظیم نے دہشتگردی کے خلاف کبھی کوئی جلوس نکالا ہو اور اسلام کا وہ پیغام دنیا کو دیا ہو جو دہشتگردوں یا دہشتگردی کے اسلام سے  مختلف تھا/ہے؟ اللہ اکبر کے نعرے کی چری کے نیچے معصوم انسانوں کی گردنیں دیکر زبح کیا گیا مگر کسی نے نہیں کہا کے یہ ہمارا اللہ اکبر نہیں ہے یا دہشتگرد ہمارے اللہ اکبر کی توہین کررہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف تو پاکستان میں جلوس نہیں نکلا مگر جب کارٹون چھپے تو پاکستانی مسلمان نے فور طور پہچان لیا کے یہ ہمارے نبی کے ہی کارٹون ہیں اور دہشتگردوں کا سیاسی محاز سنبھالتے ہوئے عوام کو متحرک کرنا شروع کردیا کے کفار ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کررہے ہیں۔ کیا ایک طرف سیاسی محاذ اور دوسرے طرف مسلح محاذ دنیا کو واضح نظر نہیں آرہے تھے/ہیں؟ کیا یہی وجہ نہیں ہے کے مسلمان عقائد کے اکثریتی ممالک نے اس گندی کھیل سے اپنے آپکو دور رکھا ہوا ہے اور صرف پاکستان اس  میں اکیلا اس لیے کھڑا ہے کے سعودی عرب اور یو ایے ای بھی تشدد کے نظریے کو خدا حافظ کہے چکے ہیں اور اب میدان میں عمران خان اورطعیب رجب اردگان باقی رہے گے ہیں جو نوآبادیاتی اسلامی نظام لانے کے لیے عوام کی تعلیم و تربیت ارتغرل سے کرکے انتہاء پسندی اور دہشتگردی سے دنیا کو فتح کرنے کے مشن پر گامذن ہیں۔ پاکستان سرکاری طور پر اس وقت تک دہشتگردوں کے ساتھ  رابطہ رکھے ہوئے ہے بلکے ان کی  وکلات بھی کرتا ہے اور غیرسرکاری طور پران کے ایجنڈے کو پاکستان کے وجود میں آنے کا مقصد قرار دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال طالبان ہیں۔
 اس لیے تحریک طالبان ہو یا تحریک لبیک یہ دونوں ایک ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا عمل ہے اور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، دونوں کی ڈوری ایک ہی فرد کے ہاتھ میں ہے جس طرح کشمیر میں جے کے ایل ایف اور حزب المجاھدین کی ڈوری بھی ایک ہی فرد کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ دنیا اتنی بیوقوف نہیں ہے جتنا میرے پاکستانی بہین بھائی خیال کرتے ہیں۔ 

کیا یہ نیچے والی وڈیوں پاکستان کی نہیں ہے اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کے پاکستان کے حکمران مذہب کے مختلف رنگ روپ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی سازشیں کرتے ریتے ہیں؟ یوسف کا پروجکٹ ایکسپوز ہونے کے بعد نیا پروجکٹ تخلیق کرنے کی کوشش میں معصوم انسانوں کا خون اور اسی سازشی پروجکٹ کے خلاف بنے والے خطرات جن میں بینظیر بھٹواور سلمان تاثر بھی ہوسکتے تھے کو بھی نہ صرف راستے سے ہٹھایا گیا تھا بلکے بے چاری غریب کرسچن خاتون کو تختہ مشق بنایا گیا تاکے عوام 
کی توجہ حاصل کر کے اس شیطانی پروجکٹ میں جانی ڈالی۔

 کیا اس ساری کہانی کے پیچھے ایک ہی ضرورت نہیں ہے کے پاکستان کے عوام کو جمہوریت سےمحروم رکھنا، قانون کی حکمرانی بحال نہ ہونے دینا اور عوام کو حق حکمرانی سے محروم رکھنا؟ اس کے علاوہ اور کوئی مقصد ہمارے سمجھ سے بالا تر ہے۔  




No comments: