Saturday, August 4, 2018

اسلام کو سیاسی اور مادی مفادات کے لیے مسخ کیا جارہا ہے جس سے انتہاہ پسندی، دہشتگردی اور قتل و غارتگری جنم لیے رہی ہے۔

جو لوگ اللہ اور محمد مصطفے احمد مجتبیُ صلی اللہ و علیہ و صلم کا نام لکھنے کو ایمان اور اسلام سمجھتے ہیں میرے نزدیک ان کو اپنے ایمان پر شک ہے۔ ایمان اور مذہب انسان کے دل اور دماغ کا رشتہ ہوتا ہے جس کا اظہار کبھی بھی مادی طور پر نہ ہوا ہے نہ ہوسکتا۔ مادی طور پر ہمشہ انسانوں نے انسانوں کے ساتھ مذہب اور عقیدے کے نام پر فراڈ پی کیئے ہیں جس کی تاریخ گواہ ہے۔ الفاظ اور لکھائی انسان 
کی تخلیق کا ایک مادی عمل ہے روحانی نہیں۔  

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاء وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ.(صورۃ نور آیات 35)
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے۔ اور چراغ ایک قندیل میں ہے۔ اور قندیل (ایسی صاف شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارہ ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف۔ (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (پڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ   دکھاتا ہے۔ اور خدا نے (جو مثالیں) بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے (صورہ نور آیات 35) 
اللہ کیا ہے؟ قران صورہ نور آیات 35 میں کہتا ہے: اللہ نور ہے زمین اور اسمان میں۔ اس کا مطلب ہے کاہنات اللہ کا ہی نور ہے اور حضور اللہ کا نور ہیں۔  

وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَاِذِ اعۡتَزَلۡـتُمُوۡهُمۡ وَمَا يَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاۡوٗۤا اِلَى الۡـكَهۡفِ يَنۡشُرۡ لَـكُمۡ رَبُّكُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِهٖ وَيُهَيِّئۡ لَـكُمۡ مِّنۡ اَمۡرِكُمۡ مِّرۡفَقًا (صورۃ کاف آیات  16)۔ 
اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان  سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔ (صورۃ کاف آیات 16 )۔
انسان اور اللہ کے رشتے کے لیے قران صورہ کاف آیات 16 میں کہتا ہے: اللہ انسان کی شہے رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ایک چیز جو انسان کے جسم، روح، ساہنس اور دل کی دھڑکن کے بھی قریپ ہے اس کو سیکولر فریم آف ریفرنس سے دیکھنا اور حواس خمسہ سے ناپنے اور تولنے کی کوشش کرنا اللہ اور نبی کے مذہبی تصور کو مسخ کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ اتنے دفعہ اللہ لکھو، ایک سیکولر طرز تکلم ہے جس کا اطہار اللہ سے انسان کے رشتے کا نہیں ہوسکتا۔ قران اور اللہ کا پیغام، نبی اور اللہ کے درمیان فوق الفطرہ اور ما بعد الطبعیات ہے۔ اس رشتے کو فطرت اور طبعیات کے رشتے کے تابعے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر تابعے کرنے کی کوشش کرینگے تو عقیدے کی پوری عمارت زمیں بوس ہوجایگی۔ نبی اور دنیا کے درمیان ہر چیز سیکولر یا دنیاوی ہے اور اس کو ناپنے، تولنے اور پرکھنے کا معیار فطرت اور طبعیات کے قوانین ہیں۔ اسی لیے نبی کی ہی زبان میں قران فرماتا ہے: 

 قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ يُوۡحٰٓى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌  ۚ فَمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡالِقَآءَ رَبِّهٖ فَلۡيَـعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًـاوَّلَايُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا (صورۃ کاف آیات 110)۔ 
کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (وہی) ایک معبود ہے۔ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے (صورۃ کاف آیات 110)۔ 
  یعنی میں اپ جیسا انسان ہوں۔ یہ نبی کا سیکولر اظہار تھا۔ اس کا مطلب اس بات پر زور دینا تھا کہ دنیا میں ہر چیز قانون فطرت اور طبعیات ہی کے اندر تلاش کرنا اور کسی فوق الفطرہ سے امید پر مت بیٹھے رینا۔ اسی لیے قران بار بار اس بات پر زور دیتا ہے: کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح دن رات بنتے ہیں؟ (Qur’an 2:159, 13:12, 88:17, 30:21) اس لیے دنیا کو عقیدہ پرستی کی آنکھ سے دیکھنا ہی بت پرستی ہے۔ اسلام نے اسی بنیاد پر اپنے سے پہلے مذہب کو اپڈیٹ کیا تھا کہ اب انسان کے لیے علم کا سرچشمہ انسانی تجربہ، تاریخ اور فطرت ہے۔ اسی لیے اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایماں (فطرت) اور کتابوں اور رسولوں پر ایمان (تاریخ) پر زور دیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر نئے نبی کے آنے کا تصور بھی ختم ہوا ہے۔ جیوش تو ابھی تک مسیحا کی انتظار میں ہیں اور اسلام کے اندر سے درجن بھر لوگ خود کلیم کرچکے ہیں۔ مگر نبی کے آخری اور نبوت کا خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے علم کے سرچشمے کے تصور کو آخرت تک تبدہل کردیا ہے۔ 

اس لیے اللہ لکھنے والے یا تو اپنے کمزور عقیدے کے دباوٗ میں ہیں یا لوگوں کو عقیدہ پرست اپنی سیاسی ضرورت جو، خود ایک سیکولر عمل ہے کے لیے بنا رہے ہیں۔ عقیدہ پرستی جاہلت کا آخری مورچہ رہا ہے جس نے تاریخی طور پر جم کر ہر نبی، ولی، انقلابی تبدیلی اور معاشرتی بہتری کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ حضرت ابراھیم کو عقیدہ پرستوں نے ہی آگ میں ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ حضور کو مکہ سے ہجرت پر عقیدہ پرستوں نے ہی مجبور کیا تھا۔ آج بھی عقیدہ پرست ہی استعمال ہورہے ہیں وہ جہاد کی شکل ہو یا خود کش بمبار۔ یہ بیماری صرف مسلمان عقیدہ پرستوں میں نہیں بلکے دوسرے مذاہب میں بھی تیزی سے سر اٹھا رہی ہے۔ اس 
لیے میں اس اللہ لکھنے کی تحریک کو اسلام کی روح کے خلاف تصور کرتا ہوں۔


No comments: