تحریر ۔۔ زہرا بتول بلتی
آگر چی پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اچھی اور زرخیز زمین کی یہاں کمی ہے اس کے باوجود گلگت بلتستان ایک زرعی علاقہ کہلاتا ہے اور یہاں کی پچانوے فیصد آبادی کا انحصار کاشتکاری پر ہے گویا زمین کو گلگت بلتستان کی معیشت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔اسی لیے بزرگوں کا بلتی میں مقولہ ہے ۔ بو بنا سا ہرتین اس کا معنی ہے اگر گر جائے تو زمین کا سہارا لو یہاں ہر ایک کنبے کے پاس چاہیے وہ کتنا غریب ہی کیوں نہ ہو کاشف کے لئے تھوڑی سی زمین کے علاوہ ان کے ملکیت میں خوبانی بادام سفیدے کے علاوہ دیگر چن درخت ضرور ہوتے ہے جو ہمارے معاش کے بنیادی ذرائع ہے زراعت پیشہ لوگوں کو اس علاقے میں بہت محنت کرنی پڑھتی ہے جبکی اس محنت کے نتیجے میں فصلوں کی آمدن بھی بہت کم ہوتی ہے تاہنوز تجارتی نقطہ نگاہ سے زراعت کے شعبے کام نہ ہونے کے برابر ہے البتہ کچھ عرصہ پہلے سے آغا خان دیہی ترقیاتی پروگرام کی بدولت آلو اور خوبانی کی وجہ سے لوگوں میں تجارتی مقصد کے لئے زراعت کرنے کا شعور بیدار ہوا ہے بلتستان کے بعض پائنی علاقوں میں دو فصل کاشت ہوسکتی ہے اس ضمن میں بلتی زبان میں ایک مقولہ ہے ۔اتی رو سکیورے شول توب۔۔ باپ کی لاش چھوڑ کرخریف کی فصل کاشت کر گویا اس حد تک خریف کی کاشت کی اہمیت تھی اب اس اہمیت میں کمی آرہی ہے۔
گزشتہ وقتوں میں راجاؤں کی زمینیں ان کے مزارع کاشت کرتے تھے اور وہ لوگ جن کی زمین کم ہوتی وہ زیادہ زمین والوں کے کھیت سانجھے پر لیتے کھیتی باڑی کا کام زیادہ تر مردوں کی ذمہ داری ہے لیکن عورتیں بھی ان کے ہاتھ بٹاتی ہے اور یہاں کے زیادہ تر علاقوں میں یہ کام مردوں سے زیادہ عورتیں کرتی ہے
۔۔ دون لا نوسے دوک نہ
۔۔ ہلزا لا تہود
No comments:
Post a Comment