Wednesday, December 24, 2025

میں نے مولویوں کی تقریروں کے وڈیو جو ایکس پر تھے جن میں پاکستان کی حکومت کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے پر سوال اٹھایا گیا ہے؟ یہ تحریر میں نے ایکس پر پوسٹ کی تھی جسے بہتر بنا کر بلاگ پر شائع کر رہی ہوں۔ تحریر سدرا جدون

امریکہ ہر ہفتے طالبان کو آج تک چالیس سے
 اسی ملین ڈالر کیش کی شکل میں دیتا ہے۔

کیا حکومت بھی اسلامی، کرسچن، یہودی، ھندو، بدھ۔، یا
 پارسی ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو قران کی کون سی ایت؟

ایک مسلمان کے ایمان کا ان باتوں سے کیا تعلق ہے کہ نبی کی مدینہ میں حکومت تھی یا نہیں، ابوبکر، عمر، عثمان اور علی خلیفہ تھے یا نہیں، اور کس کی کیسی حکومت تھی یا نہیں۔ مذہب کی تعریف خود قران  بقرہ ایات 113/177 میں کر رہا۔ کیا اس تعریف میں  کسی اسلام، کرسچن، یہودی، ھندوں یا بدھسٹ حکومت کا ذکر ہے یا صیح اور غلط کی بات ہے؟
Quran 2:113
Quran 2:177

ایک مسلمان کا ایمان صرف یہ ہے کہ وہ نبی کو اللہ کا رسول مانے اور اللہ کو ایک مانے۔ یہ مولویوں کی سیاست ہے جو صدیوں سے مذہب کو اقتدار اور معاشرے پر اپنے اثر و رسوخ کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج چودہ سو سال پہلے کے سیاسی جھگڑے کھڑے کر کے اس پرجج بنکر فیصلے صادر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نبی ﷺ کے وقت کا عہد ان کی سماجی ضرورتوں کے تعابے تھا، ان کے سیاسی، معاشی، طبقاتی اور قبائلی اختلافات اور جنگیں اُس وقت کے سیاسی اور معاشی ماحول کا عکس تھا نہ کے آج کا۔ ان کا معاشرہ ایک قبائلی اور غلام دار معاشرہ تھا جس کی اخلاقیات، رسم و رواج، قاعدے قوانین اس وقت کی ضرورتوں کے تحت غلام دار معاشرے کے ہی تھے نہ کے آج کے شہری اور ریاست کے  پوسٹ صنعتی عہد کا کلچر۔

کیا کسی بھی حکومت کے خلاف جنگ جائز ہے؟ سورہ حج ایت 40 میں تو جہاد ان کے خلاف ہوتا ہے جو مظلوموں پر ظلم کرتے ہیں اور لوگوں کے عبادات کے مراکز کو گرا دیتے ہیں۔ کیا سورہ آلماہدہ ایت  32 کا  فساد فی الارض طالبان پرلاگونہیں  ہوتا یا کوئی  خاص عقیدے کی بات ہے؟ کیا اس سے یہ تاثر نہیں ابھر کر سامنے نہیں آتا کے مولویوں نے قران کو مسخ کر کے عوام کو گمراہ کیا ہوا ہے اور دہشتگردی کا ذمدار بندوق بردار سے زیادہ ممبر پر بیٹھا ہوا مولوی ہے؟



قانون اور سیاست سائنس ہے، مذہب یا عقیدہ نہیں نہ کے اس پر ایمان بلغیب لانا کی ضرورت ہے۔ لوگ مساجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں نہ کے سیاسی تقریریں سننے۔ ہم قانون اور سیاست کو عقیدے کی بنیاد پر نہیں پرکھتے بلکہ مشاہدات و تجربات کی روشنی پر بناتے یا ریفارم کرتے ہیں جن کی تصدیق یا تردید حواسِ خمسہ یا تجربے سے ہوتی ہے۔ 

لوگوں کو ان کے رنگ، نسل، قبیلہ، قوم یا مذہب اور فرقے میں تقسیم کی سیاست منفی سیاست ہے جو ہمیشہ معاشروں کو تقسیم کرتی رہی ہے جوڑتی نہیں۔ آج انسانی سماج ریاست اور شہری کے نظام کا بدوبست ہے جو انسانی تاریخ کی ہرزاروں سال کی جدوجہد کا نتجہ ہے جبکے اس وڈیو میں جو لوگ گفتگو کر رہے ہیں وہ بنیادی علم سے ناواقف ہیں۔  حکومتوں کو اسلامی اور غیراسلامی کی ٹرم کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر گستاخی نہ ہو تو ان کو خود تعلیم کو ضرورت ہے نہ کے ان کو معلم اور عالم کی کرسی پر بٹھایا جایے۔ 

تاریخِ اسلام میں مسلمانوں کو گمراہ، جاہل اور غریب رکھنے میں جو کردار مساجد اور مدارس کا ہے کسی اور کا نہیں ہے۔ اللہ سورہ نساء ایات 127/176 نبی کو کہے رہا ہے کے تم سے فتوی مانگتے ہیں۔ ان سے کہاو اللہ تمیں فتوی دیگا۔ فتوی تو اللہ دیتا ہے نبی بھی نہیں دے سکتا تھا اور وہ فتوی قران ہے تو یہ دنیا پر خدا کہاں سے مفتی کی شکل بن چکے ہیں۔ اللہ سورہ اعراف ایت 32 میں نبی سے فرماتا ہے کے چیزیں کس نے حرام قرار دی۔ اللہ سورہ نحل ایت 116 میں فرماتا ہے کے چیزوں کو میرے نام سے جھوٹ موٹ حرام اور حلال نہ قرار دیا کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کے نبی کے وقت بھی ایسے مسلمان تھے جوآج کے مولویوں کی طرح اللہ کے نام سے اپنی کہانیاں گھڑتے اور لوگوں سناتے تھے۔
 127سورہ نساء ایت 
 176 سورہ نساء ایت 
 32سوری اعراف ایت 
 116 سورہ نحل ایت


سورہ حج ایت 40 ہمیں بتاتی ہے کے مندر، چرچ، سنیگاگ اور مسجد میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے مگر مولوی بتاتا ہے کے اللہ تو صرف بریلویوں کی مساجد میں قید کیا ہوا ہے لہذا ہر ایک ایمان والا نہیں ہوسکتا جو بریلویوں کی مساجد میں نماز نہیں پڑتا اور ہمارے جبری بھاشن نہیں سنتا۔
سورہ حج ایت 40 

ان تمام ممالک میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، مولویوں کی مساجد میں آنٹ شٹ کی تقریروں پر پابندی لگانی ہوگی، جو خواتین، دوسرے مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں اور مقامی کلچر پر اپنے تعصبات کو مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے ایسی پابندی 1984 میں لگا تھی جس سے معاشرے میں بہتری اور استحکام پیدا ہوا ہے نہ کے انارکی کا رجحان بڑھا ہو۔ 

مدارس اور سکولوں کو ایک دوسرے میں ضم کرنا ہوگا، اساتذہ کی تربیت عالمی معیار کی ہونا لازمی ہے اور تعلیم کو عالمی معیار اور موجودہ سماجی ضرورتوں کے مطابق بنانا ہوگا۔ 

تعلیم عہد حاضر کے مطابق ہی دینی یوتی ہے نہ کے ماضی کی کہانیوں پر مستقبل کی عمارت کو تعمیر کرنے کی کوشش۔ علامہ اقبال کا وہ خط پڑھ لیں جو انہوں نے مہاتما گاندھی کے خط کے جواب میں جس میں ان سے مسلم یونیورسٹی کا وی سی بنے کی درخواست کی گی تھی کے جواب میں لکھا تھا کے "مسلمانوں کو مذہبی تعلیم سے زیادہ سائنس کی تعلیم کی ضرورت ہے چونکے مسلمان غریب ہیں اور غربت میں آزادی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔" پاکستان میں وہ جگہ جہاں پر ہر ایک رنگ نسل، مذہب، جنس، فرقہ، قبیلہ، قومیت، قوم کے جاسکتا ہے وہ میوزک کا کنسرٹ ہوتا ہے۔ دیوبندیوں نے جب دیکھا کے وہ صوفی ازم کی عوام میں مقبولیت کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو انہوں نے جاگیردارنہ نسل پرستی کی اخلاقیات کے پیچھے چھپ کر معاشرے کے کلچر پر حملہ کرنا شروع کیا کے مخلوط جنسی اجتماعات، میوزک کنسرٹ، گانا اور رقص حرام ہیں مگر قران کی ایک ایت بھی پیش نہ کر سکے۔ نحل ایت 116 اس قسم کے لوگوں کے خلاف ہی اتری تھی۔

صوفی مذہبی کلچر میں میوزک، وجد (رقص)، قوالی محفل سما کے طور پر عبادت کا حصہ ہے اور دوسری طرف سورہ توبہ ایت 71 عورت مرد کو دوست قرار دیتی ہے۔ زرشت اور یہودی مذہبی غلاف جو دو سو سال بعد بغداد میں اسلامی کلچر پر چڑھایا گیا اسکا قران سے متصادم ہونے کی وجہ یہی ہے جس کے پیچھے مذہبی طبقات کے سیاسی، مالی اور سماج پر اثر رسوخ حاصل کرنے کے مفادات تھے۔ 


اقبال، جناح، اسلام، رسول، قران اور اللہ کا نام پاکستان میں عوام کو گمراہ اور دھوکے دینے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے نہ کے جو تعلیم ان مقدس ناموں کے حوالے سے ہے اسکا  صیح درس و تدریس کا بندوبست۔ 

جس ملک میں اس کے بانی کی لکھی ہوئی تقریر جو قانون ساز ادارے کے سامنے کی گی تھی کو سنسر کردیا جاتا ہے اس ملک سے بہت زیادہ بہتری کی توقع کرنا بھی میری رائے میں غلط ہے۔ میں غلط ہوسکتی ہوں، میرے خیالات غلط ہوسکتے ہیں لیکن ریکارڈ تو میری بات کی تصدیق کریگا۔ 

ہمیں ماں کی گود سے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ ہم سب انسان ہیں اور انسانوں سے پیار کیا جاتا ہے نہ کے نفرت۔ انسان کے ساتھ ان کے رنگ، نسل، جنس، مذہب، فرقہ، قبیلہ، قومیت یا قوم کے فرق کی بنیاد پر نفرت نہیں پیار کیا جاتا ہے۔ ایک ماں باپ کے سارے بچے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ 

جب مذہب کی تعریف خود قران نے کر دی تو اس تعریف اضافہ یا کمی کا اختیار کس کو تھا یا ہے اور وہ تعریف ایک سکولر اور میانہ رو معاشرے کی ہے نہ کے مذہبی فسطائیت کے نظریات جو افغانستان میں مسلط ہیں جہاں پر عوام کا بنیادی حق، حق خود اختیاری بھی چھین لیا گیا؛ افغانستان پر ایک نوآبادیاتی مطلق العنانیت مذہب کے نام پر مسلط ہے جہاں خواتین کا انسان ہونے کا حق چھین کر ان کو غلام دار معاشرے کی اخلاقیات کے تحت جنسی غلام بنا دیا گیا ہے لیکن دوسری طرف ایک فٹ لمبی داڑھی والے مولوی ان کو کافر کہنے سے کتراتے ہیں۔ کیا اللہ کے نام پر حرام حلال بنانے والے کافر نہیں ہیں؟ کیا یہ مولوی خود اسی چور فکٹری کی پیداوارنہیں ہیں جس نے طالبان جیسے شیطان پیدا کیے تھے اور امریکہ انکو افغانستان پر مسلط کرنے کے بعد اب تک ہر ہفتہ 40 سے 80 ملین ڈالر کیش کی شکل میں ہر ہفتے دیتا ہے۔ کیا ان ڈالروں میں سے کچھ حصہ پاکستان کے مولویوں کو بھی تو نہیں ملتا؟ 
 

کیا دشمن کو امریکہ نے کبھی مدد کی ہے؟
طالبان کو ہر ہفتہ 40 سے 80 ملین ڈالرزکیوں دیتا ہے؟
  


No comments: