Saturday, December 13, 2025

اسلام میں مولویوں کا کردار اور ترک بابا قوم اتاترک کا مولویوں کے ساتھ مکالمہ اور تجربہ۔ تاریخ سے سبق۔


یہ تحریر ایکس پر محمد عارف نے پبلش کی ہے لیکن مذہب اور سیاست  سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک سبق کے طور پر آج بھی دلچسپ ہے۔ انسان حقیقت کے عمل کے قریب جا کر ہی سیکھتا ورنہ لفاظی وہ تحریر میں ہو یا تقریر میں، حجت پر اس قدر اڑا ریتا ہے کے زمین چاند ستاروں کا سفر کر کے واپس زمین پر لمحوں میں پہنچ جانے کی کہانی بیان کرنے سے کبھی  باز نہیں آتا۔ ہر انسان اپنے ماحول کا قیدی ہوتا ہے اور جو جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے پل کر بڑا ہوتا اسی ماحول ناگزیر عکس ہوتا ہے۔ غالب نے اسی پر کہا تھا

پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے



ترکی کے بابا قوم کمال اتاترک نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ملک کے بڑے مولویں کو میرے پاس لے آئیں، جب مولوی آئے تو اس نے ان سے کہا کسان حکومت کے لیے گندم، چاول وغیرہ اگاتے ہیں، گوش ڈیری فارمرز، درزی اور دیگر چیزیں بنانے والے اپنے لوگوں اور اپنی حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوہی کار آمد کام کرتے ہیں۔... آپ اپنی حکومت اور اپنی قوم کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ مولویوں نے کہا: ہم آپ کے اور اپنے لوگوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ کمال اتاترک نے پھر انہیں سمندری سفر کی دعوت دی اور ایک ملاح کو حکم دیا کہ وہ جہاز کو بیچ سمندر میں چھید کر دے ۔ سمندر کے بیچوں بیچ مولویوں نے جب جہاز میں سوراخ دیکھا اور جہاز میں پانی بھرتا دیکھا تو وہ سب چیخنے لگے کشتی کے نگہبانوں نے مولویوں سے کہا کہ وہ دعا کریں تاکہ جہاز میں وہ سوراخ بند ہو جائے، مولویوں نے غصے میں آکر بلند آواز سے جواب دیا کہ کبھی دعا سے بھی سوراخ بند ہوا، تو ملاحوں نے کہا اس پانی کو ہمیں جہاز سے نکالنا ہو گا ورنہ ہم سب مارے جاہیں گے۔ کشتی کے ملاحوں نے کچھ بالٹیاں مولویوں کے ہاتھوں میں تھما دیں اور کہا کہ وہ لگاتار پانی نکالتے رہیں۔ مولویوں نے بغیر رکے جہاز سے پانی نکالنا شروع کر دیا۔ ملاحوں نے جہاز کو واپس موڑا اور تیز رفتاری سے ساحل پر واپس پہنچا دیا۔۔ سب مولوی تھکن سے ایک کونے میں گر گئے۔ کمال اتاترک ان سے پھر ملنے آیا ان کی طرف متوجہ ہوا کہا: اب آپ لوگ سمجھ گئے ہونگے کہ ہمیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت نہیں، آپ کو ملک و قوم کے لیے کچھ کام بھی کرنا ہوگا۔۔ تاکہ آپ کے فائدے عوام اور حکومت تک پہنچیں، کام کے سوا کوئی ملک دعاؤں سے ترقی نہیں کرتا اور آپ مولویوں نے ہمیشہ مذہب کو اپنے ذاتی فائدوں کے لیے استعمال کیا ہے۔۔

 ترک ادب سے انتخاب

No comments: