Saturday, October 4, 2025

مذہب، نسل، جنس، یا رنگ کو سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنا سماجی ہم آہنگی کو کمزور کرتا ہے اور معاشرتی یکجہتی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ عوامی جانچ سے بچنے کے لیے ہمارا رشتہ کیا جیسے جملے اور لا إله إلا الله جیسے مقدس اعلانات کا استعمال ایک فریب کار حربہ ہے جو تقسیم اور عدم اعتماد کو مزید گہرا کرنے کا خطرہ رکھتا ہے۔





کیا ہمارا رشتہ "لا الٰہ الا اللہ" کی بنیاد پر بھارت کے مسلمانوں، چین کے مسلمانوں، افغانستان کے مسلمانوں، ایران کے مسلمانوں، سعودی عرب کے مسلمانوں، امریکہ کے مسلمانوں، برطانیہ کے مسلمانوں، یورپ کے مسلمانوں، مصر کے مسلمانوں، اسٹریلیا کے مسلمانوں، کنیڈا کے مسلمانوں، جنوبی امریکہ کے مسلمانوں، افریقہ کے مسلمانوں سے نہیں ہے؟ اگر لا الہ الا اللہ ہی بنیادی رشتہ ہے تو صہونیت اور اسلام  میں کیا فرق ہے؟ یہودی مذہبی نسل پرستی کے نظریات اور مسلمانوں کے مذہبی نسل پرستی کے نظریات میں 
کیا فرق ہے؟


اگر صرف لا الہ الا اللہ کا رشتہ ہی مسلمانوں کو سیاسی، سماجی، قومی اور نفسیاتی طور پر متحد رکھنے اور مسائل کے حل کا نسخہ ہے تو پھرہمارے نبی کو قلم اور ھڈی کیوں مانگنا پڑی تھی  "تا کے وصیت لکھیں،" مگر صحابہ کے درمیان اختلاف کا سبب بنا جو واقع قرطاس کے نام سے اسلامی تاریخ میں مشہور ہوا؟


حضرت عثمان کا اقتدار سے استعفیُ مانگنے کے لیے مسلمانوں کا مدینہ میں جمع ہونا اور جس کا نتیجہ انکی شہادت پر منتج ہوا تھا مگر لا الہ الا اللہ کا رشتہ مسلہ حل نہ کرسکا؟
 
حضرت علی اور حضرت عائشہ کی فوجوں کے درمیان جنگ جمل کیوں ہوئی تھی؟ حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان جنگ صفین کیوں ہوئی تھی؟ کیا آج کا پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی، سعودی، ایرانی، مصری، ترکی اور کشمیری مسلمان ان سے زیادہ لا الہ الا اللہ کو سمجھتا اور مانتا ہے؟

اگر لا الہ الا اللہ کا مطلب یہ تھا تو سورہ بقرہ ایات 113/177


 میں قران کو مذہب کی تعریف کیوں کرنا پڑھی؟ بقرہ ایت 151 كَمَآ اَرۡسَلۡنَا فِيۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡكُمۡ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيۡکُمۡ وَيُعَلِّمُکُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِکۡمَةَ وَيُعَلِّمُكُمۡ مَّا لَمۡ تَكُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ "میں یہ کیوں کہا کے

 جب میں لوگوں کے لیے نبی ان کے ہی اندر سے بھیجتا ہوں تاکے وہ ان لوگوں کو کتاب اور سائنس کی تعلیم دیں؟ قران نے کسی جگہ کتاب و سنت کیوں نہیں فرمایا؟ بقرہ ایات 282/283 ثبوت کے لیے تحریر کو لازمی ہے۔ نبی کے پاس جب وحی آتی تھی تو وہ لکھواتے تھے جس کی شکل قران ہے، تو وحی سے باہر جا کر دو سو سال بعد بغداد میں بیٹھ کر سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر تخلیق کیا گیا مذہبی کلچر جو خود قران سے متصادم ہے، لا الہ الا اللہ سے تعلق جوڑنے میں آپکو کوئی



 دشواری معسوس نہیں ہوتی؟ سورہ توبہ ایت 71 مومن مرد اور مومن عورت کو دوست قرار دیتی ہے تو مذہب کے نام پر محرم، جنسی علیحدگی اوربرقعے کا کلچر لا الہ الا اللہ میں کس دروازے سے داخل ہوا تھا؟ سورہ حزاب ایت 35 جنسی تفریق






 کی نفی اور عورت مرد کو برابر قرار دیتی ہے تو جنسی نسل پرستی کا اسلام لا الہ الا اللہ کے کلچر میں کون سی کھڑکی سے داخل ہوا تھا یا کون سے اسلام کے ساحل پر اترا تھا؟ سیاست ایک سائنس ہے عقیدہ یا مذہب نہیں جسے پرکھنے کا طریقہ تجرباتی ثبوت  ہوتے ہیں نہ کے ایمان بالغیب یا ورثے میں ملنے والے تعصبات۔


 
یہودیت کی مذہبی تعریف کو زبان کی سائنس سمجھے بغیر اسلام کے مذہبی کلچر پر مسلط کر کے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش خود غرضی اور دھوکہ ہے جو اچھی سیاست نہیں کہلائی جاسکتی۔ 


آزاد کشمیر جس طرح اس کے نام سے ظاہر ہے آزاد ریاست ہے۔ اس کی آزادی کا سوال جدید نوآبادیات کے خاتمہ کی تاریخ سے جڑا ہوا ہے نہ کے کسی مذہبی رسم یا رواج سے۔ جموں کشمیر کے عوام جو لداخ سے آزاد کشمیر اور جموں سے ہنزہ تک کے نقشے پر آباد ہیں انہوں نے اپنا حق خود اختیاری ابھی استعمال کرنا ہے۔ یہ صرف میں ہی نہیں کہے رہا ہوں بلکے 1995 میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے جو رپورٹ اقوام متحدہ کو جمو و کشمیر کے لیگل سوال پر دی تھی اس رپورٹ میں  بھی یہی کہا گیا تھا کے ابھی تک جموں کشمیر کے عوام نے اپنا حق اختیاری استعمال نہیں کیا بلکے کرنا ہے اور بھارت کا یہ موقف کے جموں کشمیر کے عوام نے یہ حق استعمال کر لیا ہے غلط قرار دیا تھا۔

جموں کشمیر جس کی ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے 1586 میں اکبر کی فوج کے ساتھ لڑائی میں جموں کشمیر کی فوج کو شکست ہوئی تھی جب یوسف شاہ چک ریاست کا بادشاہ تھا تب سے جموں کشمیر ھندستان کی نوآبادیاتی غلامی میں چلا گیا تھا مگر دونوں، ھندستان کا بادشاہ اکبر اور کشمیر کا بادشاہ یوسف شاہ چک کا رشتہ لا الہ الا اللہ ایک ہی تھا بلکل اسی طرح سے تھا جس طرح مدینے کے مسلمانوں اور حضرت عثمان کی خلافت کا؛ حضرت علی اور حضرت عائشہ کا یا حضرت علی اور امیر معاویہ کا مگر یہ رشتہ ان کے درمیان جنگیں نہ اس وقت روک سکا تھا نہ ہزار سال بعد روک سکا۔  زندگی ایک   قانون طبیعیات کے اندر کی مادی حقیقت ہے مابعد الطبیعیات کا عقیدہ نہیں۔

 
محمود آف غزنی جو ھندستان پر سترہ حملے کرنے کے لیے تاریخ میں مشہور ہوا، جموں کشمیر پر بھی حملہ کیا تھا مگر اسے بھی شکست کشمیر کے جس حصے میں ہوئی تھی، وہ خود میری جائے پیدائش ہے اور پونچھ ریاست کے نام سے جموں کشمیر کے وفاقی سیاسی نظام کا لداخ، گلگت بلتستان کے ساتھ ہزاروں سال تک حصہ رہا ہے۔ پونچھ کے لوگوں کی اکثریت اور محمود کا لا الہ الا اللہ کا رشتہ ایک ہی تھا،  مگر محمدد آف غزنی ایک غیرملکی غاصب تھا۔ 


 
مجھے یہ ساری کہانی اس لئے لکھنا پڑی کے سیاسی مفاد کے لیے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال اور نفسیاتی ہتھکنڈوں کا استعمال کرنا نہ اچھی سیاست ہے نہ ایسی سیاست سے سماج میں بہتری لانے کی امید کی جاسکتی ہے۔ سیاست کسی بھی معاشرے کا اجتماعی اظہار ہوتا ہے۔ منفی یا مثبت ہر دو قسم کی سیاست کا پھل یا تکلیف معاشرے کو اجتماعی طور پر اٹھانی پڑتی ہے جس سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے۔
 
لوگوں کے رنگ، نسل، جنس، قبیلہ، قومیت اور مذہبی اختلاف کو استعمال کر کے معاشرے میں تقسیم کی سیاست آسان حربہ ہے اور نوآبادیاتی قبضے کا ہتھکنڈا رہا ہے اور آج بھی ہے۔ آزادی اور عوام کے حقوق کی جدوجہد کی تحریکوں کا نہیں۔ آزادی اور عوامی حقوق کی تحریکوں کی بنیادی ضرورت عوام میں اتحاد پیدا کرنا ہوتا ہے اسی لئے جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا نعرہ ہے کے ہم ایک ہیں، رنگ، نسل، جنس، قبیلہ، قومیت، فرقہ، مذہب سے بالاتر ہم سب ایک ہیں مظفر آباد میں، راولاکوٹ میں، میرپور میں، پلندری میں، کوٹلی میں، گلگت میں، بلتستان میں، ہنزہ میں، لداخ میں، سرینگر میں، راجوری  میں جموں میں۔ عوام کے درمیان اتحاد ہی وہ قوت ہے جسے بندوق کے زور پر فتح نہیں کیا جاسکتا۔
 
جموں کشمیر کے عوام کا پہلا مطالبہ ریاست کی جبری تقسیم کا خاتمہ ہے۔ جب تک جموں کشمیر کے عوام کے سینے پریہ خونی لکیر موجود رہے گی، جس نے خاندانوں کو آپس میں تقسیم کر رکھا ہے، کشمیر کے کسی حل کی بات نعرے بازی کے علاوہ کچھ نہیں۔  ریاست کے مسائل کا حل جن میں پہلا سوال حق خود اختیاری کا ہے، حل نہیں ہو سکتا۔
 
گذشتہ 78 سال کے تجربے، جنگوں، قتل عام اور نوجوانوں کے قبرستان آباد کرنے کے عمل سے سیکھ کر کشمیری یہ تجویز دے رہے ہیں  کے پاکستان اور بھارت اپنے درمیان اختلافات کے حل کا طریقہ کار دشمنی، مخاصمت اور محاذ آرائی کے بجائے دوستی اور تعاون کے اصول کے ذریعے حل کرنے کے کلچر کو فروغ دیں۔ اسی اصول کو جموں کشمیر پر لاگوں کرتے ہوئے پوری ریاست میں الیکشن کروائیں تاکے منتخب نمائندے آپس میں ایک ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے دستور پر متفق ہو سکیں اور اسی دستور کی بنیاد پر چین، بھارت اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچیں۔ اور اگر اتفاق ہو جاتا ہے تو اسی دستور کو جموں کشمیر کے عوام کے سامنے ووٹ کے لیے رکھا جائے جو حق خود اختیاری کا جمہوری طریقہ ہے اور خطے میں دیر پا امن کی ضمانت بھی۔
 
ہماری رائے میں آج ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہ ریاست اور شہری کا نظام ہے۔ اس نظام میں قومیں اور قومیتیں اپنے اقتدار اعلی ایک دوسرے کے ساتھ شیر کرتی ہیں جس کی شکل ہمیں بھارت کی یونین یا پاکستان کی وفاقیت، چین میں نیم خود مختار علاقوں اور اس میں مزید یہ کے پورپ میں آزاد اور اقوام متحدہ کی ممبر ریاستوں نے اقتدار اعلی کو شیر کر کے ایک یونین بنائی ہوئی ہے جس کا بنیادی مقصد اپنے شہریوں کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنا ہے۔ 

شراکت اقتدار اعلی کی بنیاد پر جموں کشمیر کے منتخب نمائندے چین، بھارت اور پاکستان کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔  چونکے جموں کشمیر کے عوام کی ضرورتیں بھی چین، بھارت اور پاکستان کے ساتھ  معاشی، سماجی اور تاریخی طور پر جڑی ہوئی ہیں اور شادی ہمیشہ دو طرفہ مفادات کی ضرورت کی ناگزیریت کا اتحاد ہوتا ہے نہ کے یکطرفہ۔
 
مثبت سیاسی تحریک کی جگہ منفی سیاسی تحریک اپنے عوام کو اور پیچھے لیجانے کا سبب بن سکتی ہے اور بنتی رہی ہیں۔ آج مقدس عبارت کی ٹرم "یاایها الذین آمنو" اور "یاایوالکفرین" اپلائی نہیں ہوتی۔ آج لوگ اپنا مذہب تبدیل نہیں کرتے بلکے وہی ہوتا ہے جو ان کے ماں باپ کا ہوتا ہے۔ مودودی صاحب اس لیے مسلمان تھے چونکے وہ ایک مسلمان کے گھر پیدا ہوئے تھے یا مہاتما گاندی اس لیے ھندو تھے چونکے وہ ایک ھندو کے گھر پیدا ہویے تھے۔ آج ہر ایک کا وہی عقیدہ ہوتا ہے جو جس گھر میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی عقیدہ ہمیں ورثے میں ملتا ہے جس طرح مادری زبان، لہذا کسی کا عقیدہ صیح اور غلط کا پیمانہ نہیں ہوسکتا نہ ہی دوسرے کے لیے دلیل۔ 

معاشرے کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سماجی ہے نظریات نہیں نظریات ہر اکائی کے اندر تنوع فطری ہے۔ معاشرہ اور سیاست قانون طیبعیات کے اندر کی حقیقت ہے مابعد الطیبعیات کا عقیدہ نہیں۔ ایک گھر کے اندر عورت، مرد، ان کی مختلف سوچ، مختلف شکلیں لیکن گھر سب کا اور اس گھر کے مفادات سب کے مشترکہ ہوتے ہیں۔ اس لیے انتہا پسندانہ نظریات سے معاشروں کو عدم استحکام کا شکار تو کیا جاسکتا ہے مگر بہتری نہیں لائی جاسکتی۔ ہر تبدیلی بہتری نہیں ہوتی مگر ہر بہتری تبدیلی ہوتی ہے۔ معاشرے کے اندر تنوع اتنی ضروری ہے کے اللہ خود قران کی سورہ یونس ایت 99 میں نبی کو لوگوں
 کے مذہب بدلنے سے منع کرتا ہے اور اس کی دلیل یہ دیتا ہے کے اگر میں چاہتا تو سارے انسان ایک ہی مذہب کے ہوتے مگر پھر بھی اختلاف کرتے۔ کیوں؟ اختلاف فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس لیے مطلقیت کی عینک سے سماج کو دیکھنے والے کبھی صیح نتجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ 

آپ کی لا الہ الا اللہ کی سیاسی تھیوری کی خود قران تردید کرتا ہے۔ سورہ حج ایت 40 کہتی ہے کے اگر اللہ کچھ لوگوں سے کچھ کو نہ ہٹاتا تو وہ لوگ گرا دیتے، مندر، چرچ، سنیگاگ اور مسجد جہاں پر اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔ قران خود لا الہ الا اللہ کا تعلق مندر، چرچ، سنیگاگ اور مسجد سے جوڑ رہا ہے لیکن ہمارے فرقہ پرستی کی سیاست کے راستے پر چلنے والے
 توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قران کی عبارت کا غلط


 ترجمہ کر کے عوام کو فرقہ پرست سیاست کے لیے استعمال تو کیا جاسکتا ہے لیکن اصل تو قران کی مقدس عبارت ہے نہ کے ترجمہ۔ 

سماج میں نفرت، تقسیم، فرقہ پرستی اور نسل پرستی  کی سیاست نے ریاست جموں کشمیر کے عوام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مذہبی فرقہ پرستی کے سبب اکبر کی فوج کو ہمارے ملک پر قبضہ کرنے میں مدد ملی تھی۔ اگر شعیہ سنی فرقہ پرستی نہ ہوتی تو اکبر کی فوج کبھی کامیاب نہ ہوتی۔  فرقہ پرست سیاست کے ہی سبب ہماری ریاست 1947 میں تقسیم ہوئی اور جس کا نتیجہ جموں کشمیر 78 سال سے پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات کے مفادات کے تحفظ کی سیاست کا فٹ بال عالمی اور مقامی سیاست میں بنا ہوا ہے مگر ریاست قید و بند اورنوجوانوں کے قبرستان آباد کرنے علاوہ بے بس نظر آتی ہے 

اور عوام دکھی ہیں۔ 

یوسف شاہ چک سے مقبول بٹ تک ہی بات نہیں بلکے بھارت نے ریاست کے سب سے مقبول رانما یاسین ملک کو آزادی کی جدوجہد کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہوئی ہے جسے اب وہ پھانسی میں بدلنے کی کوشش  کررہا ہے۔ شبیر شاہ چالیس سال سے جیل کاٹ رہا ہے اور آج بھی ہزاروں سیاسی قیدی جموں سے لداخ تک بھارت کی جیلوں میں ہیں اور جن میں اضافہ لداخ کی سینکڑوں سیاسی قید جن میں سہرفرست سونم وانگچک ہیں۔ آزادکشمیر میں معاشی حقوق مانگنے پر قتل عام اور گلگت بلتستان میں سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالنا مسلے کا  حل نہیں ہے۔ پاک بھارت کو عوام کی مرضی سے جموں کشمیر کے  سوال کو حل کرنا ہوگا۔

میرے الفاظ سے اگر کسی کا دل دکھا ہو تو میں معذرت خواہ ہوں لیکن تنقید کے بغیر نہ تخلیق ممکن ہے نہ بہتری۔ تعلیم و تربیت کا معیار ہی معاشرہ میں بہتری کے امکان پیدا کرسکتا ہے۔

No comments: