جیو نیوز نے رپورٹ کیا جسے دی اکنامک ٹائمز نیوز نے "25" جنوری 2025 کو شائع کیا تھا کے مطابق غیرت کے نام پر قتل اور تشدد میں پاکستان میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کے سندھ کے چار اضلاع میں تین دنوں کے دوران پانچ خواتین سمیت آٹھ افراد کو قتل کر دیا گیا۔
غیرت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں ورثے میں ملنے والے عقائد کو استعمال کر کے معاشرے کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ قدیم انگلش قانونی نظام میں خاوند نے اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو جنسی حالت میں دیکھا اور وہ کنٹرول نہ کر سکا اور اس نے اس مرد کو قتل کر دیا تو اسکی سزا ارادی قتل کی جگہ غیرارادی یا منش گھات قتل میں بدل جاتی تھی اور اس کے پیچھے ریشنل یہ تھا کے وہ کنٹرول نہ کرسکا۔ جب کے اسلام میں ایسا نہیں ہے۔
قران کیا کہتا ہے
چار آنکھوں دیکھے گواہ جنوں نے اپنی آنکھوں سے مباشرت کے عمل کو دیکھا نساء ایت 15 سزا: بیوی اکیلی گھر سے باہر نہیں جا سکتی۔
نساء ایت 16 سزا درج نہیں درگزر کر نے کی بات ہے۔
نساء ایات 15/16 میں ترمیم کر کے نور ایت 2 میں سزا 100 کوڑے کر دی گی۔
نور ایت 4 الزام لگانے والا/والی 4 گواہ نہ لائے تو الزام لگانے والوں کو 80 کوڑوں کی سزا اور ان کی گواہی انکی زندگی میں کبھی قبول نہ کی جائے۔
نور ایت 6 اگر خاوند نے بیوی پر الزام لگایا کے اس نے خود اپنی بیوی کو دوسرے مرد کے ساتھ جنسی حالت میں دیکھا ہے لیکن اس کے پاس 4 گواہ نہیں ہیں تو چار بار حلف اٹھایگا کے
وہ سچ کہتا ہے۔
اس کے جواب میں بیوی
نور ایت 8 اگر بیوی جواب میں چار بار حلف اٹھا کر کہے دیتی ہے کے یہ جھوٹ بولتا ہے تو سزا ختم۔
میں نے قران کی وہ ساری ایات جو زنا کی سزا شادی شدہ کے بارے میں ہیں اس تحریر میں پیش ہیں مگر ایک پہلو رہ گیا ہے۔ وہ یہ ہے کے ایک غلام عورت آزادی حاصل کرنے کے بعد شادی کرتی ہے اور پھر زنا کی مرتکب ہوتی ہے، تو طریقہ وہی ہے کے چار گواہ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے جنسی عمل ہوتے ہوے دیکھا ہو نساء ایت 25 کے مطابق اس کی سزا شادی شدہ عورت کے مقابلے میں جو کبھی غلام نہ رہی ہو، آدھی ہوگی
یعنی 50 کوڑے۔
قران میں نہ سنگسار(الرجم) کی سزا ہے اور نہ ہی غیرشادی شدہ کی کوئی سزا۔ قران کی تعبیر و تشریع کا پہلا اصول خود قران ہی قران کی تعبیر و تشریع کرتا ہے نہ کے دو سو سال بعد حدیث لٹریچر جس کی بنیاد بغداد میں سنی سنائی باتوں کے علاوہ کوئی تحریری ثبوت نہیں تھا۔
سنگسار کی یہ ظالمانہ سزا حضرت عیسی نے ختم کردی تھی جب کچھ لوگ ایک عورت کو لیکر ان کے پاس آے تھے کے اس نے زنا کیا ہے لہذا اسے سزا دی جاے۔ ان کی سازش یہ تھی کے حضرت عیسی اگر اس عورت کو سنگسار نہیں کرینگے تو ہمیں لوگوں میں یہ کہنے کا موقع مل جایگا کے یہ تو زانیوں کو سزا نہیں دینا چاہتا لہذا عوام اس کے خلاف ہوجاینگے۔
سنگسار کی یہ ظالمانہ سزا حضرت عیسی نے ختم کردی تھی جب کچھ لوگ ایک عورت کو لیکر ان کے پاس آے تھے کے اس نے زنا کیا ہے لہذا اسے سزا دی جاے۔ ان کی سازش یہ تھی کے حضرت عیسی اگر اس عورت کو سنگسار نہیں کرینگے تو ہمیں لوگوں میں یہ کہنے کا موقع مل جایگا کے یہ تو زانیوں کو سزا نہیں دینا چاہتا لہذا عوام اس کے خلاف ہوجاینگے۔
جب خاتون لیکر حضرت عیسی کے پاس آیے تو انہوں نے اس سے قبل کے یہ فیصلہ کریں کے سنگسار کریں یا نہ کریں، انہوں نے کہا کے ٹھیک ہے اس کو سنگسار کی سزا دیتے ہیں لیکن پہلا پتھر وہ ماریگا جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
حضرت عیسی نے سازشیوں کے سامنے میزالٹ دیا جس کا نتجہ یہ ہوا کے سب شرمندہ ہوے اور سنگسار کی سزا ختم ہوگی۔ سنگسار کی سزا یہودیوں کی تورات اور ھندوں کی منوہ میں ہے جہاں سے بدبختوں نے دو سو پچاس سال بعد بغداد میں دو بارا اسے اسلامی کلچر کا حصہ بنا دیا تھا اور کتابوں کے پہاڑ اپنے جھوٹ کو پھیلانے کے لیے لکھے گے تھے۔ بعض نے تو حضرت عمر کے نام سے قران کی ایت تخلیق کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ نام نہاد ایت مجھے خود تحقیق کے دوران دیکھنے کا موقع ملا لیکن بقول ان کے حضرت عمر نے کہا تھا کے اگر میں اسے قران میں شامل کرونگا تو لوگ بولیں گے کے میں نے قران بدلا ہے۔
اس جھوٹی کہانی کو ایک فیصد بھی مانا جاے تو اسلام کی ساری عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے۔
یہ تو حضرت عمر تھے جنہوں قران کو کتابی شکل دینے کی تجویز دی تھی اور ان کے سامنے زید بن ثابت نے دو قران کے نسخے تیار کرکے حضرت ابوبکر صدیق کے حوالے کیے تھے۔ جب ان کی وفات ہوئی تو حضرت عمر خود خلیفہ تھے اور قران کے دونوں نسخے ان کے پاس تھے۔ حضرت عثمان نے قریش کے افراد کو شامل کر کے زید بن ثابت کی قیادت میں دوبارا قران لکھنے کی کمیٹی بنائی تھی۔ سزا تو روز مرہ کا عمل ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کے قران میں ایک سزا نہیں تھی لیکن نبی کے صحابہ اُس نام نہاد سزا پر عمل کر رہے تھے؟
اس جھوٹی کہانی کو ایک فیصد بھی مانا جاے تو اسلام کی ساری عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے۔
یہ تو حضرت عمر تھے جنہوں قران کو کتابی شکل دینے کی تجویز دی تھی اور ان کے سامنے زید بن ثابت نے دو قران کے نسخے تیار کرکے حضرت ابوبکر صدیق کے حوالے کیے تھے۔ جب ان کی وفات ہوئی تو حضرت عمر خود خلیفہ تھے اور قران کے دونوں نسخے ان کے پاس تھے۔ حضرت عثمان نے قریش کے افراد کو شامل کر کے زید بن ثابت کی قیادت میں دوبارا قران لکھنے کی کمیٹی بنائی تھی۔ سزا تو روز مرہ کا عمل ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کے قران میں ایک سزا نہیں تھی لیکن نبی کے صحابہ اُس نام نہاد سزا پر عمل کر رہے تھے؟
کیا کسی کو یہاں (مردوں کی غیرت عورتوں کی غیرت نہیں) غیرت کا کوئی عنصر نظر آیا یا قران صرف اور صرف قانون کی حکمرانی کا حکم اور تعلیم دیتا ہے۔ کیا قران کے نزدیک خاوند کی غیرت کا سوال نہیں تھا کے اس نے اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ جنسی حالت میں دیکھا تھا لہذا وہ کنٹرول نہیں کرسکا چونکے یہ اسکی غیرت کا سوال تھا؟ یا یہ کے اس نے غیرت کو چھوڑ کرگواہوں کی تلاش شروع کر دی؟ کیا کسی غیرت ایمانی کا کوئی تصور اسلام میں ہے؟ پاکستان میں ڈالر خوری کی فکٹری مذہب کے نام پر فیک نظریات گھڑتی رہی ہے؟ کیا بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور افغانستان کا اسلام اور یہاں کے مسلمانوں کا اسلامی کلچر، عقیدہ، رویہ، مذہبی اور جنسی تعصب قران سے 100 فیصد متصادم نہیں ہے؟ میں نے عربوں کو شامل نہیں کیا چونکے میں خود عرب معاشرے میں رہا ہوں اور دیکھا ہے کے وہاں پر لوگوں کا عمومی رجحان عقیدہ پرستی سے زیادہ ریشنل ہوتا ہے۔
اسلام کی بنیاد وحی ہے اور وحی قران ہے نہ کے دو سو پچاس سال بعد زرشت اور یہودی مذہبی کہانیوں کا غلاف جسے نبی اور صحابہ کے نام کے ساتھ منسوب کر کے انکا مذہبی غلاف اسلام پر چڑا دیا گیا تھا (پرائمری ماخذ نہیں بلکے ثانوی ماخذ ہے جسے شکوک و شہبات سے دیکھنا لازم ہے)۔ خود نبی کی بیوی تک پر اس لٹریچر میں جو یہودی ربانکل لٹریچر کا چربہ ہے، میں الزام لگایا گیا ہے کے جو مرد ان سے ملنے آتے تھے تو نبی کی بیوی پہلے اپنی بھتیجیوں اور بھانجیوں کو کہتی تھی کے ان کو چھاتی دو تاکے میرے لیے وہ مرد محرم بن جایں۔ یہ کتنی مضحکہ خیز کہانی ہے؟ چونکے محرم، حجاب اور جنسی علیحدگی اسلام میں نہیں تھی اور یہ لوگ بغداد
میں بیٹھ کر جھوٹی کہانیاں گھڑتے تھے۔ دوسری بیوی جس کی عمر شادی کے وقت 19/20 سال تھی کو 6 اور 9 سال کی بچی بنا دیا جبکے ہجرت کے وقت اسکی بڑی بہین کی عمر27 سال تھی جو حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھی۔ کیا مولوی جھوٹی کہانیاں آج نہیں گھڑتے؟ وہی جھوٹی کہانیاں؛ جنسی اور مزہبی فرقہ پرستی کا پروپیگنڈا لٹریچر آج اسلام کا کلچر بنا ہوا ہے جو ہمیں ورثے میں ملتا ہے۔
طارق جمیل اسلام کے بنیادی اصول کے خلاف کہانی
گھڑ رہا ہے جو کن فیکون ہے نہ کے تجلی۔
یہاں پر طارق جمیل جنت کا آنکھوں دیکھا حال
سنا کر اپنے مالی اور سیاسی اثر کو کس طرح
آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا ایسے
جھوٹے لوگوں کو عالم کہا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے
لوگوں کے زیر اثر معاشرہ ترقی کر سکے گا؟
اس مولوی نے تو اللہ کو قادر مطلق سے گرا کر کشش ثقل کے قانون
کے تعابے کرکے خالق سے مخلوق بنا دیا۔ کیا یہ بلاسفیمی نہیں ہے؟
خادم رضوی کو کیسے پتہ تھا کے جنت
میں کیا ہو رہا ہے؟ خود نبی کو نہیں پتا تھا جس
کے لئے ان پر وحی آتی تھی۔ کیا خادم رضوی
کا جھوٹ نبوت کا دعویٗ نہیں ہے؟
ٹرم غیرت جاگیردارنہ اور قبائلی معاشرے کی غیر مہذب ٹرم ہے جہاں عورت ایک برابر کا انسان نہیں سمجھا جاتا تھا بلکے جنس کے طور پر خیال کیا جاتا تھا اسی لیے قبائلی اور جاگیردارنہ معاشروں میں عورت کو "زن" "زر" "زمین" کے ساتھ تشبی دی جاتی تھی۔ آج ہم قبائلی یا جگیردارنہ غلام معاشروں میں رعایا کے طور پر نہیں ریتے بلکے شہری اور ریاست کے نظام میں ریتے ہیں جہاں عورت بھی برابر کا شہری ہے نہ کے مرد کے لیے جنسی لذت اور بچے پیدا کرنے کی مشین۔
غیرت کے ثقافتی پہلو کا تعلق قبائلی زندگی کی ابتدائی معاشرت کے دور سے ہے جہاں بیٹے کو دفاع اور حملے کے لیے ماں کی گود سے تیار کیا جاتا تھا۔
جب ایک قبیلہ جا کر دوسرے پر حملہ کرتا تھا تاکے اس کا مال جن میں خواتین بھی تھی لوٹ کر لانا تھا تو غیرت کا سوال تھا کے اپنی زن، زر اور زمین کے تحفظ کے لیے بے جگری سے لڑنا اور جان بھی دینی پڑے تو گریز نہ کی جاے۔ ایسے معاشرے میں نہ منظم ریاست ہوتی تھی نہ قانون اورنہ ہی عوام کے جان و مال کے تحفظ کا کوئی نظام۔ قبیلے کے مردوں کو خود تحفظ کرنا پڑھتا تھا یا جا کر حملہ کر کے دوسروں کی چیزیں بشمول عورتوں کو لوٹ کر لاتے تھے۔ ایک قبیلہ جنگ کے ذریعے دوسرے کو زمین سے بدخل کرنا بھی اسی غیرت کا سوال تھا اور آج بھی قبائلی معاشروں میں اسی قبائلی اخلاقیات پر زور دیا جاتا ہے بلکے اس کا غلاف اسلام پر بھی چڑا دیا گیا ہے اور اسے اور پر کشش بنانے کے لیے غیرت ایمانی کی ٹرم ایجاد کی گی ہے۔
*غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ: سردار تنویر الیاس کا فوٹو سیشن اور اویس چغتائی کی جرات*
تحریر: ام البنین چغتائی
آزاد کشمیر کے ضلع باغ کے نواحی گاؤں "بنگراں" میں ایک بار پھر دینِ اسلام کی اقدار نے معاشرتی رسم و رواج پر سبقت حاصل کی۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر غیرتِ ایمانی بیدار ہو تو بڑے سے بڑا نام بھی احترام سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
یہ بات سن 2000 کے اوائل کی ہے جب بنگراں گاؤں کے تین معزز افراد: مرحوم سردار محمد صدیق خان چغتائی، سردار محمد حسین خان اور سردار محمد عارف خان نے شادی بیاہ میں رائج غیر اسلامی ہندوانہ رسومات، جیسے ڈھول باجے، آتش بازی اور نیوتا کے خلاف آواز بلند کی۔ شروع میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان کا مؤقف درست تھا۔ جلد ہی پورا گاؤں ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور یہ رسوم ختم کر دی گئیں۔
تاہم افسوس کہ حالیہ دنوں میں انہی صدیق چغتائی مرحوم کے گھر میں اُنہی رسومات کا ازسرِنو آغاز ہوا۔ اُن کے پوتوں کی شادی پر رات گئے تک آتش بازی کی گئی۔ گاؤں کے بزرگ، مریض اور اہلِ ایمان اس بے سکونی پر حیران و پریشان تھے۔ کیا یہ وہی گھر تھا جس کے ایک فرد نے اصلاح کی شمع روشن کرنے میں پہل کی تھی؟ مرحوم صدیق چغتائی کی روح ضرور تڑپی ہو گی کہ جن بدعات کے خلاف انہوں نے جہد کی، آج اُن کے بھتیجے اور پوتے خود انہی رسومات کو زندہ کر رہے ہیں۔
لیکن! اسی موقع پر ایک ایمان افروز واقعہ پیش آیا۔
شادی کی تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر سردار تنویر الیاس صاحب تشریف لائے۔ انتظامیہ کی طرف سے خواہش ظاہر کی گئی کہ وہ اندر آ کر دولہوں اور دلہنوں کے ساتھ فوٹو سیشن کریں۔ اس مقصد کے لیے ہال میں موجود خواتین کو ہٹا کر جگہ خالی کروانے کا کہا گیا۔
ایسے میں گاؤں کے مدرسے کی ایک محترمہ عالمہ اور دلہن کی معلمہ نے جرات مندانہ انداز میں سوال اٹھایا:
کیا تنویر الیاس ہماری ان لڑکیوں کے محرم ہیں؟
کیا یہ غیر شرعی عمل نہیں؟
ان کے سوال نے ماحول کو بدل دیا۔
ہال میں موجود تمام خواتین ان کی حمایت میں کھڑی ہو گئیں اور فوٹو سیشن کی تیاری روک دی گئی۔
یہ عمل نہ صرف دینی غیرت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ معاشرے کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔
دوسری طرف، اویس افتخار رشید چغتائی، جو خود دولہا تھے، جب انہیں یہ بتایا گیا کہ فوٹو سیشن کیلئے تنویر الیاس ہال کےاندر لائے جا رہے ہیں اور وہ بھی اندر تشریف لے آئیں تو وہ ہال کے اندر جانے کے بجائے فوراً داخلی دروازے پر پہنچے، تنویرالیاس کا ہاتھ تھاما اور کہا:
سر، یہ ہماری دینی روایات کے خلاف ہے، آپ مہربانی فرما کر واپس تشریف لے جائیں۔
نتیجتاً، سردار تنویر الیاس کو فوٹو سیشن کے بغیر واپس جانا پڑا۔
یہ کوئی عام واقعہ نہیں بلکہ دین کے تحفظ کی ایک روشن مثال ہے۔
اویس افتخار رشید چغتائی نے دنیاوی پروٹوکول، سٹیٹس اور ناموری کو رد کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو فوقیت دی۔
اسی طرح محترمہ معلمہ نے اپنی طالبات کے پردے اور حیاء کے تحفظ کے لیے، تنہا کھڑے ہو کر پوری محفل کا رخ موڑ دیا۔
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ دین کے محافظ آج بھی زندہ ہیں۔
وہ پوتا جس نے دادا کی غیرت کو زندہ رکھا۔
وہ معلمہ جس نے علمِ دین کو کردار سے زندہ کیا۔
ان سب کو سلام جنہوں نے روایت نہیں، شریعت کا علم بلند کیا۔
"طالبات کے پردے اور حیاء کے تحفظ کے لیے"
میں اس کا جواب تفصیل سے دونگا لیکن یہاں اتنا عرض کردینا کافی سمجھتا ہوں کے قران نے مسلمان مرد سے مسلمان عورت کو اضافی طور پر جسم کے جس حصے کو ڈھانپنے کا کہا ہے وہ نور ایت 31 بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوۡبِهِنَّ (چھاتیوں پر نقاب ڈالیں)۔ قران میں ایک سو سے زیادہ بار لفظ چہرہ اور 20 سے زیادہ بار لفظ سر آیا ہے لیکن ایک بار بھی عورت کا چہرہ اور سر نہیں۔ چہرہ اور سر ڈھانپنے کا رواج مکہ اور مدینہ کا نہیں بلکے بغداد میں یہودیوں اور زرتشیوں کے مذہب سے اسلامی کلچر کا حصہ بنا تھا۔
آج لباس ورثے میں رواج کے طور پر مقامی کلچر کا حصہ ہے۔ لباس مسلسل تبدیل ہوتا ہے اور ہر سال نیا فیشن یا ڈیزائن سامنے لایا جاتا ہے جسے مارکیٹ کی ڈیمانڈ ڈکٹیٹ کرتی ہے نہ کے ہماری خواہشات یا عقیدہ۔
یہ یہودی خواتین جو ہردیز کہلاتی ہیں پوری طرح برقعے میں لپٹی
ہیں۔ یہودی بنیاد پرست نہ عورت سے ہاتھ ملاتے ہیں نہ اسے مرد کے
آگے چلنے یا بٹھنے دیتے ہیں۔ گاڑی میں بھی عورت کو آگے نہیں
بیٹھنے دیتے۔ یہی یہودی رواج دو سو پچاس سال بعد بغداد میں
اسلام بنا دیا گیا جب کے مسلمانوں کے لیے حضرت ھاجرہ کا سماجی
عمل عبادت کا درجہ پا چکا ہے جو صفا و مروہ۔
آسٹرو ہنگری کا بادشاہ فرانز جوزف جس کی بیوی
پوری طرح برقعے میں ہے اور یہ بات بہت زیادہ دور
کی نہیں بلکے 1916 کی ہے۔ اس لیے سر او چہرے کا
ڈھانپنا اسلامی نہیں بلکے یہودی، کرسچن اور زرتشت مذہب تھا جو 250 سال بعد
مسلمانوں کے کلچر کا حصہ بنا شروع ہوا تھا۔
سے قبل اپنی بیٹی کے ساتھ استنبول میں چہل قدمی
کر رہا ہے۔ کیا ہمیں فرق نہیں نظر نہیں آتا کے یہ
برقعہ کس کا لباس تھا اور مسلمانوں کا کلچر
کیسے بنا؟
یہ ہے وہ ایت جسے تاریخ میں پہلی بار ابن
تعمیئ نے قران بدل کرچہرے کے پردے کے
طور پراستعمال کی تھی جو بعد میں بنیاد
پرستوں کے کلچر میں چہرے کے
پردے کا رواج بنا شروع ہوا تھا۔
محترمہ جس جگہ کی تصویر پیش کر کے حجاب و حیا کی تحریک چلا رہی ہیں اسی جگہ کے ارد گرد ابھی کچھ عرصہ قبل انکی فیملی کے مطابق دو بھایوں کا ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کیس سامنے آیا تھا۔ دونوں نوجوانوں کا تعلق طالبان دہشت گردوں سے جوڑا گیا ہے۔ یہ دونوں بھائی بھی اسی قسم کی تحریروں اور نظریات سے متاثر تھے جس کا عکس غیرت ایمانی کی تحریر میں بھی نطر آتا ہے۔ اسلام میں ایمان کی تعریف بقرہ ایات 113 اور 177میں اللہ نے خود کی ہوئی ہے جس میں کسی جسمانی شکلو صورت یا غیرت ایمانی کا کوئی تصور
نہیں ہے۔
سورہ بقرہ ایت 113
نبی کے وقت سے لیکر بنوامیہ کے دورحکومت تک جو سکے اس وقت کے معاشرے کے استعمال میں تھے ان پر کرسچن مذہب کا کراس اور مرد کی تصویر بغیر داڑھی کے موجود ہے۔ جب معاویہ خلفیہ تھا تین سال تک کراس کا نشان کرنسی سے غائب ہوجاتا ہے لیکن اسی کے اقتدار کے دوران تین سال کے بعد دوبارا کرنسی پر نظر آنے لگا تھا جب کے شروع کے بنوعباسیہ کے سکوں پر زرتشت مذہب کا آگ کا نشان، مرد کی تصویر داڑھی کے ساتھ اور ایک طرف صرف عربی زبان میں اللہ لکھا ہے۔ اسلامی تاریخ کا مکہ مدینہ کے سیاسی، سماجی اور کلچرل زندگی کے ثبوتوں کا ریکارڈ جو اُس وقت کے لوگوں کے عمل کی کہانی، عدالتی فیصلے یا انکی ہاتھ کی تحریری شکل ثبوت کہاں ہیں؟ کیا اسلام مکہ اور مدینہ سے اڑ کر بغداد پہنچ گیا تھا؟ اُس کی مکہ مدینہ کی کوئی کہانی نہیں تھی تو زبانی بغیر کسی تحریری ثبوت کے فلا نے فلا سے یہ کہا کی بنیاد پرکہانیاں نبی کی وفات کے 200 سال بعد گھڑی گی جو یہودیوں کا مذہبی کلچر تھا جن کے مذہبی رواج میں زبانی مذہبی کہانیوں کو تورت کے ہوتے ہوئے قبول کرنے کا مذہبی کلچر تھا جب کے اسلام کی بنیاد صرف قران ہے اور یہی بنیادی فرق ہے اسلام اور یہودیت/عیسائیت کے درمیان۔
"غیر اسلامی ھندوانہ رسومات، جیسے ڈھول باجے، آتش بازی۔"
کیا ڈھول باجہ، آتش بازی کا بھی کوئی عقیدہ ہوتا ہے لہذا یہ بھی غیر اسلام، ھندوانہ رسوم ہیں؟ باجہ جو ہمارے کلچر کا حصہ ہے جسے ہم بیگ پائپ کہتے ہیں اور جو عام طور پر اسکاٹ لینڈ کا مشہور ہے مگر تاریخی طور پر اس کی ایجاد سکاٹ لینڈ سے نہیں مصر سے ہوئی تھی نہ کے ھندوستان سے۔ ڈھول تو نبی کی سنت ہے جسے دف کہا جاتا تھا اور خواتین نبی کے لیے میوزک
بجاتی اور گاتی تھی۔
پروفیشنل گانے والی خواتین نبی کے وقت شادی بیا کے وقت
گاتی تھی۔ ہمارے معاشرے میں بھی ہماری خواتین جو پڑھی لکھ نہیں ہوتی تھی مگر اپنی تخلیق کردہ شاعری مقامی زبان میں دو دو کی ٹولی میں شادی بیاہ کی پارٹی میں گاتی تھی۔
طالبان، داعش، القاعدہ، حیات تحریر الشام، بکوحرام جن کو یو
ایس ایڈ سے کروڑوں ڈالر ملتے رہے ہیں کیا یہ ان کا ایجنڈا نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسلام نہیں بلکے ابن تعمیئی کے خرفات ہیں جو یہودی مذہبی فکر کے اثر سے کبھی آزاد نہ ہوسکا تھا جو انسانی صفات کو اللہ پر لاگوں کرتا تھا اوراسی بنیاد پر وہ گرفتار بھی ہوا تھا اور اس پر مقدمہ بھی چلا تھا؟ اُس کے نزدیک ھندوستان کے مسلمان حکمران کافر تھے۔
اس کا فلسفہ جسے ہمفر نے محمد ابن عبدالوھاب کومتعارف کرایا تھا۔ اس مذہبی فکر کی بنیاد پر سلطنت عثمانیہ کو بھی کافر قرار دیا تھا۔ لہذا یہ جو تحریر ہے کیا اس سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کے پاکستان کی ریاست خود معاشرے کو تشدد اور انتہا پسندی کی طرف لیجانے کی کوشش کر رہی ہے؟
میں نے ابن ماجہ اور حبان کی حدیث پوسٹ کی ہیں جس میں گانے والی خواتین کا ذکر ہے اور بخاری کی حدیث میں خود نبی ﷺ خواتین کے ساتھ بیٹھے ہیں اور خواتین نبی ﷺ کے لیے دف (ڈھول) بجاتی اور گاتی ہیں۔ توبہ ایت 71 مسلمان عورت اور مسلمان مرد آپس میں دوست ہیں۔ حج ایت 40 مندر، چرچ،
سنیگاگ اور مسجد میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔
کلچر ساکت اور جامد چیز نہیں ہوتا بلکے ہر کلچر مسلسل تبدیل ہوتا ریتا ہے۔ لیکن بیرونی آقاوں کے اشاروں پر اپنے کلچر پر حملہ اور باہر سے کلچر کو امپورٹ کرنا نوآبادیاتی سیاست ہے نہ کے ریفارم کی جدوجہد۔ ہر تبدیلی لازم نہیں بہتری کی طرف جاتی ہو لیکن ہر بہتری ایک تبدیلی ہوتی ہے۔ صرف تبدیلی جس کی مثال خود پاکستان اور افغانستان ہیں جو ایک مہذب معاشرے سے فسطائیت کی طرف چلے گے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی بنیاد اس کا کلچر ہے اور مذہب کلچر کا ایک عنصر ہوتا ہے پورا کلچر نہیں۔ کلچر ہر انسان کو اس گھر سے ملتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا ہے۔
کیا کسی مولوی نے کسی مسجد میں مندرجہ بالا احادیث یا قران کی ان ایات کا کبھی ذکر کیا ہے؟ کیوں نہیں کیا؟ اس لیے کے ان کا اسلام قران کا اسلام نہیں بلکے مالی اور سیاسی ضرورت کے لیے گھڑا گیا اسلام ہے جس کی بنیاد مولویوں کی جھوٹی کہانیوں کی تحریریں اور تقرریں ہیں۔ میں نے ثبوت کے طور پر چاروڈیوز اُپر پوسٹ کی ہیں جن کے سامنے ہزاروں لوگ ان کی جھوٹی کہانیاں سنے کے بعد سبحان اللہ کا نعرہ لگا تے ہیں۔
قران کے ترجمہ میں بھی بڑے پرابلم ہیں۔ قران کی لسان اور بغداد کی فضی عربی یا حدیثوں کی عربی ایک نہیں ہیں۔ عربی نے بولی سے تحریر، اسٹنڈر، کلاسک اور لنگوفرنکا کے ارتقائی سفر کی تاریخ کے دوران بہت ساری زبانوں کو اپنے اندر جذب کیا ہے اور بہت ساری زبانوں کو متاثر کا ہے۔
کیا کسی مولوی نے کسی مسجد میں مندرجہ بالا احادیث یا قران کی ان ایات کا کبھی ذکر کیا ہے؟ کیوں نہیں کیا؟ اس لیے کے ان کا اسلام قران کا اسلام نہیں بلکے مالی اور سیاسی ضرورت کے لیے گھڑا گیا اسلام ہے جس کی بنیاد مولویوں کی جھوٹی کہانیوں کی تحریریں اور تقرریں ہیں۔ میں نے ثبوت کے طور پر چاروڈیوز اُپر پوسٹ کی ہیں جن کے سامنے ہزاروں لوگ ان کی جھوٹی کہانیاں سنے کے بعد سبحان اللہ کا نعرہ لگا تے ہیں۔
قران کے ترجمہ میں بھی بڑے پرابلم ہیں۔ قران کی لسان اور بغداد کی فضی عربی یا حدیثوں کی عربی ایک نہیں ہیں۔ عربی نے بولی سے تحریر، اسٹنڈر، کلاسک اور لنگوفرنکا کے ارتقائی سفر کی تاریخ کے دوران بہت ساری زبانوں کو اپنے اندر جذب کیا ہے اور بہت ساری زبانوں کو متاثر کا ہے۔
آج کل میں یہاں بھی دیکھتا ہوں کے قران کو عبارت کے بغیر صرف انگریزی ترجمے کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے تاکے جھوٹی کہانیوں کو اسلامی کلچر کے فروغ میں قران کا چیلنج درپیش نہ ہو۔
ان محترمہ کے مطابق اگر میوزک، گانا، یا ڈھول ھندوانہ رسوم تھی تو عرب کلچر میوزک کے بغیر تھا؟ کیا نبی ھندوانہ رسوم میں شرکت کرتے تھے یا حدیث والے جھوٹ لکھتے ہیں؟ میوزک، ڈانس ہر جاندار چیز کے ڈی این اے کا حصہ ہوتا ہے۔ پیٹ میں بچے کو ماں کے دل دھڑکن اس کا میوزک اور ماں کا بچہ کو پیٹ میں لیکر چلنا پھرنا بچہ کا ڈانس ہوتا ہے۔ اسی لیے جب بچے کو سولایا جاتا ہے تو اس کے لیے رولی گائی جاتی ہے اور ہلایا جاتا ہے تب بچہ سوجاتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کے جب اسے وہ ماحول ملتا ہے جس سے اسے احساس ہوتا ہے کے وہ ماں کے پیٹ میں ہے تو وہ سو جاتا ہے جب کے شور اور حرکت کے دوران انسانوں کو نید آنا مشکل ہوتا ہے۔
ان محترمہ کے مطابق اگر میوزک، گانا، یا ڈھول ھندوانہ رسوم تھی تو عرب کلچر میوزک کے بغیر تھا؟ کیا نبی ھندوانہ رسوم میں شرکت کرتے تھے یا حدیث والے جھوٹ لکھتے ہیں؟ میوزک، ڈانس ہر جاندار چیز کے ڈی این اے کا حصہ ہوتا ہے۔ پیٹ میں بچے کو ماں کے دل دھڑکن اس کا میوزک اور ماں کا بچہ کو پیٹ میں لیکر چلنا پھرنا بچہ کا ڈانس ہوتا ہے۔ اسی لیے جب بچے کو سولایا جاتا ہے تو اس کے لیے رولی گائی جاتی ہے اور ہلایا جاتا ہے تب بچہ سوجاتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کے جب اسے وہ ماحول ملتا ہے جس سے اسے احساس ہوتا ہے کے وہ ماں کے پیٹ میں ہے تو وہ سو جاتا ہے جب کے شور اور حرکت کے دوران انسانوں کو نید آنا مشکل ہوتا ہے۔
عمر بن ہشام جو ابوجہل کے نام سے مشہور ہوا جس کا مطلب جاہلوں کا باپ ہے۔ جہالت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں
بلکے غیرت ایمانی کی ٹرم کی بدعت بہتری نہیں گامار کلچر کی طرف سفر ہوگا۔
میرا فیس بک پر نوٹ:
میں نے جن قران کی آیات کو غیرت کے سوال پر ریفرنس اپر دیا ہوا ہے جن کا تعلق قانون اور زنا کے بارے میں مکمل ہے وہ یہاں پوسٹ کر رہا ہوں تاکے ہر ایک خود پڑھ لیے۔ نساء 15/16 نور ایات 2/4/6/8۔ یہاں میری پوسٹ جو ایات کا امیج ہے وڈیوز نہیں، اسے وڈیوں کہے کر فیس بک نے بپلش نہیں کیا۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کے کون ہے جونہیں چاہتا کے لوگ خود حقائق جانیں۔ میں نے فیس بک پر لکھا تھا کے اگر آپ کو یہ نظر آرہا ہے تو میں یہ پوسٹ پاکستان، بھارت، افغانستان، ایران یا سعودی عرب سے نہیں بلکے لندن یوکے سے کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
بلکے غیرت ایمانی کی ٹرم کی بدعت بہتری نہیں گامار کلچر کی طرف سفر ہوگا۔
میں نے جن قران کی آیات کو غیرت کے سوال پر ریفرنس اپر دیا ہوا ہے جن کا تعلق قانون اور زنا کے بارے میں مکمل ہے وہ یہاں پوسٹ کر رہا ہوں تاکے ہر ایک خود پڑھ لیے۔ نساء 15/16 نور ایات 2/4/6/8۔ یہاں میری پوسٹ جو ایات کا امیج ہے وڈیوز نہیں، اسے وڈیوں کہے کر فیس بک نے بپلش نہیں کیا۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کے کون ہے جونہیں چاہتا کے لوگ خود حقائق جانیں۔ میں نے فیس بک پر لکھا تھا کے اگر آپ کو یہ نظر آرہا ہے تو میں یہ پوسٹ پاکستان، بھارت، افغانستان، ایران یا سعودی عرب سے نہیں بلکے لندن یوکے سے کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
No comments:
Post a Comment