Sunday, July 20, 2025

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا جہاں پر عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کی حکومت گذشتہ 13 سال سے ہے، کے ضلع کوہستان میں مبینہ طور پر ترقیاتی منصوبوں میں جعلی بلنگ، منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں کی کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں۔


پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا جہاں پر عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کی حکومت گذشتہ 13 سال سے ہے، کے ضلع کوہستان میں مبینہ طور پر ترقیاتی منصوبوں میں جعلی بلنگ، منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں کی کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں۔

کوہستان کرپشن کیس: خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا مالیاتی اسکینڈل، تازہ ترین صورتحال اور تجزیہ

خیبرپختونخوا میں کوہستان کرپشن کیس ایک بڑے مالیاتی اسکینڈل کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے صوبے میں حکومتی عہدیداروں، ٹھیکیداروں اور بینکرز کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ یہ کیس اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا جا رہا ہے، جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے تیزی سے کارروائیاں کرتے ہوئے اہم گرفتاریاں کی ہیں اور بھاری مالیت کے اثاثے برآمد کیے ہیں۔

کیس کیا ہے؟

کوہستان کرپشن کیس یعے بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں سے متعلق ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ اسکینڈل 40 ارب روپے تک کا ہو سکتا ہے۔ اس میں سرکاری اہلکاروں، ٹھیکیداروں اور بینک ملازمین کے درمیان گٹھ جوڑ شامل ہے جس کے ذریعے غیر موجود ترقیاتی اسکیموں کے نام پر فنڈز کی خردبرد کی گئی۔ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسر کو اس میگا اسکینڈل کا مرکزی کردار قرار دیا جا رہا ہے۔

تازہ ترین پیش رفت

حالیہ دنوں میں اس کیس میں تیزی سے پیش رفت ہوئی ہے:

  • اہم گرفتاریاں: نیب نے اس کیس میں ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسر شفیق الرحمان قریشی، سابق کیشیئر محمد ریاض (ڈمی کنٹریکٹر)، آڈیٹر اے جی آفس پشاور فضل حسین، سابق بینک مینیجر طاہر تنویر، اور چار ٹھیکیداروں (دراج خان، عامر سعید، صوبیدار، اور محمد ایوب) سمیت 8 اہم ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ ان ملزمان پر جعلی چیکوں کی منظوری، منی لانڈرنگ، اور بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے غبن کا الزام ہے۔

  • اثاثوں کی برآمدگی: نیب نے اب تک 25 ارب روپے سے زائد مالیت کے اثاثے برآمد اور منجمد کیے ہیں۔ ان میں ایک ارب روپے سے زائد نقد رقم، غیر ملکی کرنسی، 3 کلوگرام سے زائد سونا، 77 لگژری گاڑیاں (بشمول مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو، آؤڈی، پورشا، لیکسز، لینڈ کروزر اور فارچونر)، اور 109 جائیدادیں شامل ہیں۔ ان جائیدادوں میں 30 رہائشی مکانات، 25 فلیٹس، 12 کمرشل پلازے، دکانیں، فارم ہاؤسز، اور 175 کنال زرعی اراضی شامل ہے جو اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں واقع ہیں۔

  • پلی بارگین اور عدالتی کارروائی: کچھ ملزمان نے پلی بارگین (رضاکارانہ طور پر رقم کی واپسی) کی درخواستیں دی ہیں، تاہم اس کے باوجود گرفتاریوں پر پشاور ہائی کورٹ نے نیب کو نوٹس جاری کیے ہیں اور جواب طلب کیا ہے۔ عدالت نے 8 ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری میں 22 جولائی 2025 تک توسیع بھی کی ہے۔

  • سیاسی ردعمل: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی بھی اس کیس میں پیش ہوئے اور انہوں نے نیب سے تعاون کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملوث افراد کو نشان عبرت بنایا جائے۔ دوسری جانب، پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کیس کی شفاف تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے یقین دلایا ہے کہ ہر ملوث فرد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

تجزیہ

کوہستان کرپشن کیس خیبرپختونخوا میں مالیاتی نظم و نسق کی سنگین خامیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ اسکینڈل ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سرکاری اداروں، بینکس اور ٹھیکیداروں کے گٹھ جوڑ سے عوامی وسائل کو لوٹا جا سکتا ہے۔ نیب کی جانب سے کی جانے والی بڑی کارروائیاں اور بھاری اثاثوں کی برآمدگی قابل ستائش ہے، لیکن اصل چیلنج یہ ہے کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور تمام ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

اس کیس کے کچھ اہم پہلو یہ ہیں:

  • احتساب کے دعوؤں کی حقیقت: یہ کیس صوبائی حکومت کے بدعنوانی کے خلاف دعوؤں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ "تبدیلی" کے دعویداروں نے صوبے کو کرپشن کا گڑھ بنا دیا ہے۔

  • اداروں کی ملی بھگت: اس کیس میں ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسر، اے جی آفس کے آڈیٹرز اور بینک ملازمین کی شمولیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالیاتی اداروں میں اندرونی کنٹرولز ناکافی ہیں اور بدعنوانی کے لیے گنجائش موجود ہے۔

  • سیاسی دباؤ اور شفافیت: سیاسی جماعتوں کی جانب سے مطالبے اور ہائی کورٹ کے نوٹسز کے تناظر میں، نیب پر دباؤ ہے کہ وہ اس کیس کی تحقیقات کو مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ رکھے۔ پلی بارگین کی درخواستوں اور گرفتاریوں پر عدالتی کارروائی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قانونی نظام میں شفافیت کو برقرار رکھنا کتنا اہم ہے۔

  • عوامی اعتماد کی بحالی: اس طرح کے بڑے اسکینڈلز عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ حکومت اور احتساب کے اداروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کیس کو اس انداز میں حل کریں کہ عوام کا نظام پر اعتماد بحال ہو سکے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔

کوہستان کرپشن کیس ایک طویل قانونی جنگ بننے کی توقع ہے، جس کے دور رس اثرات خیبرپختونخوا میں حکمرانی، شفافیت اور احتساب کے مستقبل پر مرتب ہوں گے۔ نیب کی جانب سے جاری تحقیقات اور مزید گرفتاریوں کے امکان کے پیش نظر، آنے والے دنوں میں اس کیس سے متعلق مزید سنسنی خیز انکشافات سامنے آ سکتے ہیں۔



No comments: