Tuesday, April 22, 2025

تجزیہ: پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی ناکامی. وجاہت سعید خان کی ویڈیو کے تناظر میں پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں ناکامی اور فلسطین کے نام پر مذہبی منافرت کا استعمال




پاکستان کے صحافی وجاہت سعید خان کے اس نیوزویڈیو میں پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی ناکامی اور فلسطینی عوام کے نام پر مذہبی منافرت، سیاسی مفادات اور بدعنوانی کے سنگین مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا تجزیہ نہ صرف پاکستان کے صحت کے نظام کی کمزوریوں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ مذہبی رہنماؤں اور سیاستدانوں کی جانب سے فلسطین کے آزادی کے جذباتی مسئلے کے نام پر عوام کے جذبات کو استعمال کرنے کے خطرناک رجحان کو بھی بے نقاب کرتا ہے جس کا مقصد اپنے ہی سماج میں مذہبی منافرت اور کمزور طبقات کے جینے کو مشکل بنانے کے علاوہ نہ تو پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے نہ ہی پاکستانیوں کی امداد اسرائیل فلسطین یا غزا تک جانے دیگا۔ اسرائیل تو یواین کی تحقیق کار اور سکرٹری جنرل کو غزا میں داخل نہیں ہونے دے رہا ہے تو پاکستانی مولوی کس مقصد کے لیے اپنے معاشرے میں مذہبی انتہاء پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔



پولیو مہم کی ناکامی: حکومتی نااہلی یا مذہبی تعصبات؟

وجاہت سعید خان نے درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ پاکستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر پولیو کا مرض ابھی تک موجود ہے۔ میں وجاہت کی نیوز کی تصدیق تو نہیں کرسکتا لیکن پاکستان میں پولیو کی کرپشن پر دوسرے صحافی بھی وڈیو بناچکے ہیں جن میں رضی دادا نے بھی پولیو کے سٹاف پر اسی قسم کے الزامات لگائے تھے۔ یہ صیح ہے کے اس کی بڑی وجوہات میں حکومتی سطح پر ناکام پالیسیاں، دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کا فقدان اور بعض مذہبی گروہوں کی جانب سے ویکسینیشن کے خلاف پروپیگنڈا شامل ہے۔ کچھ علما نے ویکسین کو "غیر اسلامی" یا "مغربی سازش" قرار دے کر عوامی ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے، ایسے علما کے خلاف نہ قانون ہے نہ قانون حرکت میں آتا ہے تاکے مذہب کے نام پر جھوٹ پھیلانے کی روک تھام کی جاسکے، جس کے نتیجے میں لاکھوں بچے ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف معاشرے کی ترقی کے خلاف ہے بلکہ معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے بھی مترادف ہے۔

فلسطین کے نام پر مذہبی منافرت اور بدعنوانی

وجاہت نے ایک اور اہم نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کچھ مذہبی رہنما اور سیاسی جماعتیں فلسطینی عوام کے جائز مسئلے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

 یہ بات صیح ہے کے فلسطین پر اسرائیل نے جنگ 7 اکتوبر 2023 کے حملے کو جواز بناکر مسلط کی تھی۔ فلسطینی صدر کے بجائے حماس کے لیڈران کو تو پاکستان میں دعوتیں دی جاتی رہی تھی۔ کیا کسی نے ان سے پوچھا تھا کے7 اکتوبر کے میوزک کنسرٹ پر حملے کے پیچھے ریشنل کیا تھا؟ کیا یہ اسرائیل کے بڑے پلان کا حصہ تو نہیں تھا تاکے غزا سے فلسطینیوں کو عرب ملکوں کی طرف ہجرت پر مجبور کیا جایے نتجے میں عرب ملکوں بلخصوص خلیج میں عدم استحکام پیدا کیا جائے؟ یہ وہ سوال تھے جو پاکستانیوں نے حماس کی لیڈرشپ سے ضرور پوچھے ہونگے تب ہی تو دو سال کے بعد پاکستان کے مولویوں فلسطین اورغزا یاد آگیا ہے۔
  
فلسطین کے نام پر عطیات اکٹھے کیے جاتے ہیں، لیکن یہ رقم کہاں جاتی ہے، اس کا کوئی شفاف حساب نہیں دیا جاتا، یہ وہ بنیادی سوال ہے جسکا جواب حکومت پاکستان کے پاس ہونا چاہیے۔ کیا یہ فنڈز مذہبی انتہا پسند گروہوں یا سیاسی جماعتوں کی تجوریوں میں تونہیں چلے جاتے؟ پاکستان میں فلسطین کا سفیر تو کہے چکا ہے کے ایک پیسہ فلسطین نہیں گیا اور اس نے اپیل کی ہے کے فلسطین کے عوام کے خون پر حرام کمائی نہ کی جائے جس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔
 
مزید یہ کے فلسطین اور کشمیر کی حمایت کے نام پر نفرت انگیز بیانات دینے والے مذہبی اور سیاسی رہنما درحقیقت اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب کلنٹن صدر تھے تو پاکستانی وفد کی قیادت قاضی حسین احمد صاحب کر رہے تھے اور جب اس وفد نے کشمیر کی تقسیم کی بات کی تو کلنٹن نے ان سے کہا کے اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو اسکا اعلان پریس میں کریں تو قاضی کے وفد نے معذرت کی کے ہم پبلک میں یہ اعلان نہیں کرسکتے۔ کیا سیاست خفیہ ساز باز کا نام ہے جو افغانستان کے عوام کے خلاف کی گئی ہے؟

 تحریک لبیک ایک انتہاء پسند مذہبی فرقہ ہے جو لوگوں کو قتل کرنے کی تبلیغ کرتی ہے یعنی ایک قاتلوں کا گرہو لیکن وہ یہاں پر فلسطین کے بچوں کے خون پر سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کا رد مغرب میں مسلمانوں کے حقوق پربھی ہونے کا امکان ہے چونکے داہیں بازوں کے اتنہاء پسند یورپ میں منتخب ہونے کی پوزیشن پر آرہے ہیں جن کو ٹرمپ کی حمایت بھی حاصل ہے۔

پوری دنیا فلسطین کے ساتھ  کھڑی ہے۔ فلسطینی عوام  کا مسلہ اسلامی نہیں بلکے نوآبادیاتی نظام کے جبرسے آزادی کا سوال ہے۔ خود عرب عوام کئی سو سال تک سلطنت عثمانیہ کے نوآبادیاتی جبر میں رہ چکے ہیں جب کے دونوں کا مذہب ایک ہی تھا۔ اس لیے فلسطین اور کشمیر کا سوال حق خود اختیاری کا سوال ہے اور یہی سوال اس وقت افغانستان کے عوام کا ہے جن پر امریکہ اور پاکستان نے غیرقانونی بندوق برداروں کو مسلط کیا ہوا ہے جن کے بارے میں شک ہے کے یہ امریکہ کے کنٹریکٹروں کی فوج  ہے جن کو اس وقت تک امریکہ تین بلین ڈالر دے چکا ہے جو عوام کے بجائے طالبان لیڈران کے افغانستان سے باہرموجود بنک اکاونٹ میں جاتا ہے۔

 
وجاہت کا یہ سوال درست ہے کہ اگر واقعی فلسطین سے ہمدردی ہے تو اس کا حل یہ نہیں کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دی جائے، بلکہ بین الاقوامی اداروں کے ذریعے فلسطین تک مدد کی کوشش کی جائے جس کے لیے اسلام آباد میں فلسطین کا سفیر موجود ہے۔ 

کیا حکومت اور عوام کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے؟

وجاہت سعید خان کا تجزیہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کو صحت، تعلیم اور مذہبی استحصال جیسے مسائل پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیو جیسی بیماریوں کے خاتمے کے لیے مذہبی رہنماؤں کو تعاون کرنا چاہیے نہ کہ رکاوٹیں کھڑی کرنی چاہئیں۔ اسی طرح، فلسطینی عوام کے آزادی کے سوال کو جس پر فلسطین میں کوئی مذہبی تقسیم نہیں اور پہلی بار اخوان المسلمین سے اسرائیل نے حماس کو کھڑا کرا کر کی اوراس سوال پر عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال اسرائیل کی سازش کو ہی آگے بڑھانے کا حصہ ہی لگتا ہے۔ اسی لیے امام کعبہ نے فلسطین اسرائیل جنگ کو فتنہ قرار دیا ہے اور جو انفارمیشن امام کعبہ کے پاس ہوسکتی ہیں وہ میرے اور وجاہت سعید کے پاس نہیں ہوسکتی۔ کیا اسرائیلی صدرٹرمپ کا خاص دوست نہیں ہے؟ کیا ٹرمپ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے امریکہ کو نکال نہیں چکا؟ کیا دنیا نوآبادیاتی نظام کی طرف تو نہیں جارہی ہے؟

 عوام کے مذہبی جذبات کو استعمال کرنے کے بجائے پاکستان فلسطین کوملک تسلیم کرتا ہے اور جو بھی مدد فلسطین کی کرنی ہے وہ اس کے سفارت خانے کے ذریعے کی جائے نہ کے فلسطینی عوام کو فرقہ پرستی کی بنیاد پر تقسیم کر کےفسلطین کے نام کے پردے کے پیچھے اسرائیل کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے۔ بدقسمتی سے اس وقت تک ایسا ہی ہے۔ 

اختتامیہ
وجاہت سعید خان سے اختلاف کی گنجاہش ہے لکین اس نے اس  ویڈیو میں پاکستان کے دو اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
 ایک طرف صحت کے شعبے میں شدید ناکامیاں اور دوسری طرف مذہبی و سیاسی لیڈران کی جانب سے جذباتی مسائل کے نام پر عوامی جذبات کا استحصال۔ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو ان مسائل کا بلاامتیاز سامنا کرنا ہوگا۔




No comments: