Thursday, March 27, 2025

جن کی ذمداری بچوں کا تحفظ ہے لیکن وہی جب بچوں کے لیے خطرہ بن جایں تو ایسے ماحول میں معاشرے کی ذمداری بڑھ جاتی ہے۔ اپنا حقیقی والد اپنی نابالغ بیٹی کو ایک سال تک ریپ کرتا رہا تھا۔



پاکستان سے ایسے وڈیوز یوٹیوب پر پوسٹ ہوتے ہیں جن میں گھریلوں جنسی جرائم کی خبریں بہت زیادہ نظرآتی ہیں جس سے تاثر ابھرتا ہے کے گھریلوں جنسی جرائم بہت بڑھ گے ہیں۔ میری رائے میں ایسا نہیں بلکے گھریلوں جنسی تعلقات یا جنسی تشدد کی کہانیاں ہر عہد میں رہی ہیں کم یا زیادہ۔ مصر کے فراعون تک کی اپنی بہین کے ساتھ تعلقات کی کہانی ملتی ہے مگر قدیم دور میں نہ سمارٹ فون ہوتے تھے نہ انٹرنیٹ۔ سمارٹ فون کے ذریعے ایک دوسرے کی جاسوسی کرنا اور شناخت چھپا کروڈیو کو پبلک کرنے  کی دھمکی سے بلیک میل اور کچھ لوگ تو وڈیو پبلک بھی کرلیتے ہیں حالانکے اس سے لوگوں کی زندگی کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ 
اکثر خبریں انسسٹ کی جنسی کہانیاں ہوتی ہیں لیکن بہت تشویشناک صورت حال جہاں بچوں کے ساتھ جسنی تشدد ان کے اپنے ہی رشتے داروں یا مدرسوں کے اساتذہ  کے ملوث ہونے کی ہوتی ہیں۔  
جو صحافی یا یوٹیوبرزایسی خبریں رپورٹ کرتے ہیں، ان کی رپورٹنگ میری رائے میں سب کی نہیں کچھ کی اپنے پیشہ وارنہ کام کے بجائے ذاتی جذبات کو اسٹیج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے انکے پیشہ ورانہ تربیت معیار میں خامی کا تاثر ابھرتا ہے۔ 
جرائم کو اس لیے رپورٹ کیا جاتا ہے تاکے معاشرے میں جرائم کے خلاف اگائی پیدا کی جائے، مجرمانہ رویے اور نفسیاتی جنسی شکاریوں کے اس رجحان، انکی ذہنی ساخت اور وہ ماحول جس کے سبب انکی ذہنی کیفیت نے نشونما پائی، کو شناخت کر کے اسے سمجھ کر کیس اسٹیڈی کے طور پرجرائم کی جڑ تک پہنچ کر معاشرے کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن نہ ماہرین کا نقطہ نظر شامل ہو اور نہ بچوں کے تحفظ کی خامیوں کو خبر کے ساتھ سامنے لایا جائے  اور صرف یوٹیوب سے آمدن کی خبر کو پکڑنے کا سبب بنے تو اس سے آگائی زیادہ  پیدا  نہیں ہوگی۔ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں بےروزگاری بہت زیادہ ہے اس سے بہتری کی توقع کرنا بھی حماقت ہوگی۔ میری تنقید کا مقصد ایسی خبروں کی بیٹ کرنے والوں کو ڈسکرج  کرنا نہیں بلکے بہتری پیدا کرنے کی  کوشش ہے جو معاشرے کی ضرورت ہے۔
انسانی زندگی اس کرہ ارض پر قانون کے تعابے ہے، ہر بالغ انسان اس دنیا پر قانون کے سامنے جوابدے ہے اور اخرت میں اللہ کے سامنے خود نہ کےاس کے رشتے دار یا معاشرہ۔ اس لیے پارسائی اچھے یا برے انسان کا معیار طے نہیں کرتی بلکے قانون کا توڑنا اور قانون کی پاسداری اچھے اور برے شہری کی پہچان کا معیار پوری دنیا میں تسلیم ہے۔ 
اس وڈیو کی نیوز اسٹوری سوتیلے بہین بھائی کی آپس میں شادی ہے اور ان میں سے کسی ایک نے بھی ایک دوسری کی ماں کا دودھ نہیں پیا تھا۔ 
جرائم کی بیٹ کرنے والے صحافی یا یوٹیوبر کے لیے پہلے یہ چک کرنا ضروری تھا کے سوتیلے بہین بھائی کی شادی قانون یا مذہبی رواج میں جرم ہے یا نہیں۔ یہ وڈیو دیکھ کر مجھے دوبارا چک کرنا پڑھ گیا کے کیا سوتیلے بہین بھائی کی شادی اسلام میں انسسٹ ہے؟ 
 چونکے مجھے پتہ تھا کے ایسا نہیں ہے بلکے سوتیلے بہین بھائی کی شادی بھی اگر انہوں نے ایک دوسرے کی ماں کا دودھ نہیں پیا تو کزن میریج کی طرح ہے۔

یہ قران کی سورہ نساء ایت 22 جس میں ان خواتین سے شادی منع کی گئی ہے جن کے ساتھ باپ شادی کرچکے تھے۔ یہ رواج مکہ کا قبل اسلام کا رواج تھا کے جب والد فوت ہوجاتا تھا تو بڑا بیٹا اپنی سوتیلی ماں کو وراثت میں اپنی گرل فرنڈ رکھ لیتا یا شادی کرلیتا تھا لیکن یہ رسم عوام میں اُس وقت مقبولیت کھوچکی تھی جب اسلام آیا اس لیے اسلام نے اس رسم کو حرام قرار دیا اور کب قرار دیا جب اسلام مکہ سے مدینہ پہنچتا ہے اور یہودیوں کی سماجی قدروں کے کلچرکے ساتھ  ہم آہنگی کی سماجی ضرورت کا دباو معسوس کرتا ہے، تب اس رسم کو ختم کیا گیا تھا۔ اسی لیے نساء کی ایت 23 حرام کی لسٹ ماں، بیٹی اور بہین سے شروع کرتی ہے جسکا یہ مطلب نہیں کے مکہ کے لوگ اسلام سے قبل ماں، بیٹی یا بہین سے شادی کرتے تھے۔ قبل اسلام بھی یہی رواج تھا صرف قران نے اتنا ریفارم کیا تھا کے خاوند کی موت کی صورت میں سوتیلی ماں وراثت کے رواج کے تحت بڑے بیٹے کو ملنے کے حق کی رسم کو ختم کرکے سوتیلی ماں کو آزاد کردیا تھا۔


نیچے سورہ نساء ایت 23  جسکا کنٹکسٹ ایت 22 ہے جس میں انسسٹ کی پوری لسٹ ماں، بیٹی، بہین، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی، جن سے دودھ پیا ہے، دودھ پینے والی بہین، ساس، سوتیلی بیٹی، وہ بچے جو تماری نگاداشت میں یا تماری بیوی سے پیدا ہوئے ہیں۔ قران کو اپنے کنٹسکٹ سے علیحدہ کرکے پڑھنا اور نتائج اخذ کرنا غلط سمت میں جانے کا سبب بنتا رہا ہے۔ 

نیچے سورہ نساء ایت 
24 میں شادی شدہ عورت کے ساتھ بھی شادی حرام ہے اس کے علاوہ جو بھی بالغ عورت مرد رضامندی  سے آپس میں شادی کرسکتے ہیں یا سماجی قاعدے قانون کے مطابق رضامندی سے جو تعلقات رکھتے ہیں وہ ایسا کرنے میں آزاد ہیں۔ رنگ، نسل، مذہب، فرقہ یا بالوجیکل ساخت مثال کے طور پر وہ مرد عورت جن کا جسم اللہ نے اُپر سے خاتون اور نیچے سےمرد، یا وہ جن کو اللہ نے اُپر سے مرد لیکن نیچے سے خاتون کی ساخت بنائی ہے یا وہ جن کا اعضاء تناسل اور اندام نہانی اللہ نے مرد عورت کی صاف شناخت نہیں دی اور انکو جدید میڈیکل سائنس کی مدد کی ضرورت ہے، کے درمیان شادی کرنے پر اسلام میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ سورہ بقرہ ایت 221 مشرقین مکہ سے شادی منع کرنے کی بات اختیاری ہے حکم نہیں جبکے نساء کی ایات حکم ہے اور ٹرم حرام اسلام میں لا مکسم ہے اسی طرح سوتیلے بہین بھائی اگر ان دونوں  میں سے کسی ایک نے بھی ایک دوسری کی ماں کا دودھ نہیں پیا تو کوئی قدغن نہیں ہے۔ اسی لیے کورٹ میں شادی سے پہلے جج نے یہ چک کر لیا ہوگا کے سوتیلے بہین بھائی شادی کرسکتے ہیں مگر صحافی کو یہ چک کرنے کا وقت نہیں ملا ہوگا جو سوتیلے بہین بھائی کی شادی کو نیوز اسٹوری بنا دیا ہے۔


نیچے اس وڈیو میں حقیقی باپ پر اپنی 12 سال کی بچی کو جنسی تشدد کا شکار بنانے کا الزام ہے جس کی خود بچی اور بچی کے چھوٹے بھائی  نے ماں کے سامنے  گوائی دی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کے جنسی غلام باپ کی جنسی لالچ نے پوری فیملی کو تباہ کردیا ہے۔ اگرچہ ابھی تفتیش ہوری ہے اور ملزم کی بہین کے مطابق ڈی این اے کی رپورٹ میں جنسی تعلقات کی کوئی شہادت نہیں ملی ہے۔ ایک اور وڈیو اس قسم کی اسٹوری جو لاہورکا واقع ہے جہاں پر باپ نے اپنی 12 سال کی حقیقی بیٹی کو سکول کی پرانسپلز سے بچی کی ماں کی بیماری اور ہسپتال میں ہونے کا کہے کر بیٹی کو ماں سے ملانے کے لیے لیجانے کا بہانہ کرکے ماں کی عدم موجودگی میں گھر لایا اور گھرمیں  اسے زبردستی ریپ کیا اور ایک سال تک اسے ریپ کرتا رہا۔ ایسی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کے ایسے ماحول میں معاشرے کی ذمداری بڑھ جاتی ہے جہاں بچوں کو خود تحفظ دینے والوں سے خطرہ ہو تو ایسی صورت میں یہ سوال کے بچوں کو کیسے محفوظ بنایا جاسکتا ہے؟ کیا انسسٹ کے شکار ملزمان یا مجرمین کو اس سمت لیجانے کا سبب کوئی خاص قسم کا ماحول تھا یا کسی گینگ نے انہیں ایسا کرنے کے لیے تو راغب نہیں کیا تھا؟ کیا وہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل تو نہیں ہورہے تھے یا وہ اپنی بیٹی کو کم عمری میں اپنے ساتھ جنسی طور پر ملوث کرکے بیٹی کو جنسی کاروبار کی سمت میں تو نہیں لیجانا چاہتے تھے؟ کسی بالغ انسان کو انسسٹ کے جرم میں ملوث کرکے بلیک میل کرنا اور اسے جرائم کے لیے استعمال کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ پاکستان میں نہ جرائم کا جلدی فیصلہ ہوتا نہ کوئی پراپر کیس اسٹیڈی ہے تاکے معاشرہ اس سےسبق حاصل کرسکے اور تحفظ کے معیار کو بہتر بنایا جاسکے۔
ایشیاء اور افریقہ میں بہت زیادہ غربت ہے، بچوں کے تحفظ کے لیے کوئی معیاری نظام موجود ہی نہیں ہے۔ گھریلوں تشدد اور بچوں کے تحفظ کے خلاف مذہبی لوگ تو اچھے قوانین تک نہیں بنے دیتے تو تحفظ کا نظام جو مغرب، چین یا جاپان میں موجود ہے کا تصور کرنا بھی ناممکن ہے لیکن اس کے باوجود ریاست کو اپنے بجٹ میں بچوں کے تحفظ کے لیے زیادہ حصہ رکھنا ہوگا اور بچوں کے تحٖفظ کے لیے بھرپور آگائی کی ضرورت اور شرم کے کلچر سے معاشرے کو نکلنا اور اس قسم کے جرائم پر کھل کر بات کرنا بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔


خاموش سائے: بچوں کی حفاظت اور خاندانی زیادتی کے خلاف جدوجہد کی کہانی

ایک خاموش مضافاتی علاقے میں، جہاں درختوں سے گھری گلیاں اور صاف ستھری گلیاں تھیں، ایک دس سالہ لڑکی ایما رہتی تھی۔ ایما کی دنیا اسکول کی مہم جوئی اور بے فکری سے کھیلنے سے بھری ہونی چاہیے تھی، لیکن وہ ایک تاریک راز اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھی، جسے بتانے میں وہ شرمندگی اور خوف محسوس کرتی تھی۔

ایما کا چچا، جو ایک قابلِ بھروسہ خاندانی فرد تھا، کئی مہینوں سے اس کے ساتھ نامناسب برتاؤ کر رہا تھا۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 30 سے 40 فیصد متاثرین کسی قریبی رشتہ دار کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہوتے ہیں، جو اس پریشان کن حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ خطرہ اکثر گھر کے اندر ہی ہوتا ہے۔

یونیسف جیسے ادارے دنیا بھر میں بچوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن کئی ممالک میں مضبوط قانونی نظام، تعلیمی پروگرام اور حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے، جو بچوں کو ایسے مظالم سے بچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یونیسف 'بچوں کے تحفظ' کو تشدد، استحصال اور زیادتی سے روکنے اور ان کا جواب دینے کے طور پر بیان کرتا ہے۔

ایما کے اسکول میں، دوسرے کئی اداروں کی طرح، بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شناخت اور اس پر کارروائی کے لیے خاطر خواہ وسائل اور تربیت موجود نہیں تھی۔ ایک حالیہ رپورٹ میں برطانیہ میں حفاظتی ایجنسیوں کی سنگین ناکامیوں کو اجاگر کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ گھریلو زیادتی کے شکار بچوں کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان کی بات پر یقین نہیں کیا جاتا۔

ایک دن، ایما کی ٹیچر، مس تھامپسن، نے محسوس کیا کہ ایما خاموش اور پریشان رہنے لگی ہے۔ اپنی چھٹی حس پر بھروسہ کرتے ہوئے، انہوں نے ایما سے نرمی سے بات کی اور ایک محفوظ ماحول فراہم کیا، جہاں ایما اپنی کہانی سنا سکتی تھی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد، ایما نے اپنی ٹیچر کو سچ بتا دیا۔

مس تھامپسن نے فوری طور پر مقامی چائلڈ پروٹیکشن ادارے کو اطلاع دی، لیکن نظام کی کمزوریوں اور ناکافی تربیت کی وجہ سے ان کا ردعمل سست اور غیر مؤثر رہا۔ یہ ایک وسیع مسئلہ ہے، جہاں پیشہ ور افراد خود کو ایسے حساس معاملات کو سنبھالنے کے لیے تیار محسوس نہیں کرتے، جس کی وجہ سے کارروائی میں تاخیر ہوتی ہے۔

مس تھامپسن نے ایک غیر سرکاری تنظیم سے رابطہ کیا جو بچوں کے تحفظ میں مہارت رکھتی تھی۔ اس تنظیم نے ایما کو مشاورت اور قانونی مدد فراہم کی، اس کی حفاظت کو یقینی بنایا، اور اس کے چچا کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔

لیکن ایما کی کہانی اکیلی نہیں ہے۔ آسٹریلیا میں، معاشی بحران کی وجہ سے بچوں کے ساتھ زیادتی اور لاپرواہی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جہاں 2023-24 میں 307,022 کیسز رپورٹ ہوئے، جو دو سالوں میں تقریباً 12 فیصد اضافہ ہے۔

بچوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات

مضبوط قانونی نظام
حکومتوں کو ایسے قوانین نافذ کرنے چاہییں جو بچوں کو ہر قسم کے استحصال سے بچائیں اور مجرموں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
تعلیمی پروگرام
اسکولوں میں ایسے پروگرام متعارف کروانے چاہییں جو بچوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کریں اور انہیں اپنی بات کہنے کے قابل بنائیں۔ روک تھام کی تعلیم اور بچوں و بڑوں کے درمیان کھلی گفتگو نقصان دہ اثرات کو کم کر سکتی ہے۔
پیشہ ور افراد کی تربیت
اساتذہ، سماجی کارکنان اور صحت کے ماہرین کو خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ زیادتی کے نشانات کو پہچان سکیں اور بروقت کارروائی کر سکیں۔
عوامی آگاہی
ایسے مہمات چلائی جائیں جو بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے معاملات پر گفتگو کو عام کریں اور معاشرے کو زیادہ چوکس اور مددگار بنائیں۔
مدد فراہم کرنے والی خدمات
متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے نفسیاتی مدد اور مشاورت کی خدمات دستیاب ہونی چاہییں تاکہ وہ زندگی کو از سرِ نو بہتر بنا سکیں۔

ایما کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بچوں کی حفاظت محض ایک مہم نہیں بلکہ ایک مسلسل ذمہ داری ہے۔ اگرچہ یونیسف جیسے عالمی ادارے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن یہ ہر ملک اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات نافذ کریں جو ہر بچے کے لیے محفوظ اور خوشحال ماحول فراہم کریں۔

++++++++++++++

میری رائے میں اس وڈیو کی خبر کے بہت سارے پہلواور ایک پارٹی کے بیان کی بنیاد ہے۔ چونکے بالغ انسان رضامندی سے آپس میں کیا کرتے ہیں، ان کی ذاتی زندگی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہویا دوسروں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں توپھر خبر بنتی ہے۔ ایک خاتون اپنے خاوند کی اجازت سے ایک دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات رکھتی تھی تو اس میں خاتون کی کوئی غلطی نہیں بلکے چیٹنگ یا دھوکہ  ایک تو فکٹری کا مالک اپنی بیوی کے ساتھ کر رہا تھا اور اپنی دولت کے سبب جنسی بے راہ روی کا شکار تھا اور دوسری طرف اس خاتون کا خاوند اپنی بیوی اور بہین کو جنسی بزنس کے لیے استعمال کرتا تھا اور قصور خاوند اور سسرال کا لالچی ہونا ہے نہ اس خاتون کا جس سے بچے چھین کر گھر سے بے گھر کردیا ہے۔ مزید یہ کے غربت سارے راستے خود دیکھاتی ہے۔ جو بھوک کے  مارے ہوں؛ بچوں کو پالنے  کا سوال؛ بے روزگاری یا آمدن اتنی جو بجلی کا بل نہ دے سکے تو ان کے سامنے اخلاقیات کے درس، پارسائی کے نعرے کوئی وقت نہیں رکھتے۔ پیٹ میں روٹی ہوگی تو مسجد میں نماز بھی پڑھنا یاد آیگی اسی لیے وہ کہے رہی ہے کے جب خرچے بڑھ گے تو ہفتے یا پندرہ دن بعد جاتی تھی۔ بات معاشرے کی غربت ہے اور غربت ہی ازل سے جنسی بزنس کا سبب رہا ہے اور آج تک ہے۔ ظلم سسرال نے عورت کے ساتھ کیا ہے ایک تو خاتون سے جنسی بزنس کرائی اور اسکے بچے بھی لیے اور پھر نام نہاد بدنامی کے ڈر سے اسے بے گھر کردیا ہے جو معاشرے کی خامی کا اظہار ہے۔ نیچے سورہ نور ایت 33 میں قران مدینہ میں مسلمانوں سے مخاطب ہے کے اپنی لانڈیوں سے دنیاوی نفع کے لیے زبردستی جسم فروشی نہ کرایا کرو اگر وہ اس کے لیے رضامند نہیں ہیں۔ قران یہ نہیں کہتا کے اس قسم کا جنسی تعلق گناہ ہے یا ثواب بلکے قران غلام عورت کو زبردستی جسم فروشی کرانے کے لیے منع کرتا تھا۔ ایک تو رضامندی اور دوسرا اُس وقت غلام دار معاشرہ اور غلام دار معاشرے کی غلادار اخلاقیات اور قاعدے قانون ہوتے ہیں اسی لئے قران اُس وقت کے معاشرتی ماحول اور سماجی ضرورتوں سے باہر نہیں جاتا بلکے ان ہی کے اندر غلام عورت کے حقوق کے تحفظ کی کوشش کرتا ہے جسکا مطلب معاشرے کی سماجی ضرورتیں رسم و رواج، اخلاقیات اور قاعدے قانون کو وجود میں لانے کا سبب ہوتی ہیں اور جب وہ سماجی ضرورتیں بدلتی ہیں تو رسم و رواج، اخلاقیات اور قاعدے قانون کا بدلنا بھی ناگزیر ہوتا ہے۔

 


 قانون فرد کی آزادی، اسکے بنیادی حقوق اور سماجی تحفظ کی ضرورت کے درمیان باریک لائن کو عبورکرنے کی اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی مذہبی فسلطائیت پھیلا کر آج ہم انسانوں کو انکے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرسکتے ہیں۔ 

افغانستان میں نہ صرف مذہبی امریت مسلط ہے بلکے امریکہ کی مدد سے مذہب کے نام پر فسلطائیت مسلط کرکے امریکہ سے ڈالر خوری کا خفیہ ایجنڈا چل رہا ہے۔ نام نہاد آزادی لینے والے جو امریکہ اور پاکستان کے بیس سال تک پے رول پر تھے ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں کے وہ امریکہ کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس قسم کی مذہبی شیطانی سیاست جو دو سو سال سے جاری ہے اب امریکہ کی سینٹ اور کانگریس کے سامنے انکواری میں مکمل طور پر ایکسپوز ہوچکی ہے۔ طالبان جن کو امریکہ ہر ہفتے کیش کی شکل میں چالیس میلن ڈالر دیتا رہا ہے، امریکہ سے آزادی لینے کے نعرے لگاتے ہیں! مذہبی سیاست مسلمانوں اور اسلام کے نام پر ایک بدنما دبہ ہے اور جو لوگ ایسے سیاسی نظریات کو اسلام کے ساتھ نتھی کر رہے ہیں ان کو اپنے فرقے اور مذہبی تعلق اور سماجی ضرورت پر دوبارا غور کرنا ہوگا چونکے وہ اپنی سوچ کے حوالے سے اس قسم کے جرائم کا حصہ ہیں جو افغانستان اور فلسطین کے عوام کے خلاف جاری ہیں اور جو جنگی جرائم کے طور پر اقوام متحدہ میں تسلیم کئے جاچکے ہیں۔ 

پاکستان جیسے معاشرے جن پر عہد حاضرنے قانونی ذمداریاں لاگو کی ہیں وہ تو پورا کرنے سے ہنوز قاصر ہیں  مگر مصنوی اخلاقیات کی خدائی فوج بنے کا شوق جاہلت نے مذہب کے نام پر مسلمان معاشروں میں سیاسی مفادات کے حصول کے لیے بہت پال رکھا ہے۔ پاکستان کے کلچر میں یہ بنیادی خامی ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل پیچھے دھیکلا ہے۔ معاشرہ ایک سماجی اکائی ہے نظریاتی یا مذہبی نہیں اور قانون ایک ساٗنس ہے نہ کے عقیدہ اسی لئے جب ہم فقہ کا قانون اس کی تاریخ اور ارتقاء پڑھتے ہیں تو اسکی خود شناخت سائنس آف فقہ کہلاتی ہے۔ 


No comments: