خاموش سائے: بچوں کی حفاظت اور خاندانی زیادتی کے خلاف جدوجہد کی کہانی
ایک خاموش مضافاتی علاقے میں، جہاں درختوں سے گھری گلیاں اور صاف ستھری گلیاں تھیں، ایک دس سالہ لڑکی ایما رہتی تھی۔ ایما کی دنیا اسکول کی مہم جوئی اور بے فکری سے کھیلنے سے بھری ہونی چاہیے تھی، لیکن وہ ایک تاریک راز اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھی، جسے بتانے میں وہ شرمندگی اور خوف محسوس کرتی تھی۔
ایما کا چچا، جو ایک قابلِ بھروسہ خاندانی فرد تھا، کئی مہینوں سے اس کے ساتھ نامناسب برتاؤ کر رہا تھا۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 30 سے 40 فیصد متاثرین کسی قریبی رشتہ دار کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہوتے ہیں، جو اس پریشان کن حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ خطرہ اکثر گھر کے اندر ہی ہوتا ہے۔
یونیسف جیسے ادارے دنیا بھر میں بچوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن کئی ممالک میں مضبوط قانونی نظام، تعلیمی پروگرام اور حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے، جو بچوں کو ایسے مظالم سے بچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یونیسف 'بچوں کے تحفظ' کو تشدد، استحصال اور زیادتی سے روکنے اور ان کا جواب دینے کے طور پر بیان کرتا ہے۔
ایما کے اسکول میں، دوسرے کئی اداروں کی طرح، بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شناخت اور اس پر کارروائی کے لیے خاطر خواہ وسائل اور تربیت موجود نہیں تھی۔ ایک حالیہ رپورٹ میں برطانیہ میں حفاظتی ایجنسیوں کی سنگین ناکامیوں کو اجاگر کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ گھریلو زیادتی کے شکار بچوں کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان کی بات پر یقین نہیں کیا جاتا۔
ایک دن، ایما کی ٹیچر، مس تھامپسن، نے محسوس کیا کہ ایما خاموش اور پریشان رہنے لگی ہے۔ اپنی چھٹی حس پر بھروسہ کرتے ہوئے، انہوں نے ایما سے نرمی سے بات کی اور ایک محفوظ ماحول فراہم کیا، جہاں ایما اپنی کہانی سنا سکتی تھی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد، ایما نے اپنی ٹیچر کو سچ بتا دیا۔
مس تھامپسن نے فوری طور پر مقامی چائلڈ پروٹیکشن ادارے کو اطلاع دی، لیکن نظام کی کمزوریوں اور ناکافی تربیت کی وجہ سے ان کا ردعمل سست اور غیر مؤثر رہا۔ یہ ایک وسیع مسئلہ ہے، جہاں پیشہ ور افراد خود کو ایسے حساس معاملات کو سنبھالنے کے لیے تیار محسوس نہیں کرتے، جس کی وجہ سے کارروائی میں تاخیر ہوتی ہے۔
مس تھامپسن نے ایک غیر سرکاری تنظیم سے رابطہ کیا جو بچوں کے تحفظ میں مہارت رکھتی تھی۔ اس تنظیم نے ایما کو مشاورت اور قانونی مدد فراہم کی، اس کی حفاظت کو یقینی بنایا، اور اس کے چچا کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔
لیکن ایما کی کہانی اکیلی نہیں ہے۔ آسٹریلیا میں، معاشی بحران کی وجہ سے بچوں کے ساتھ زیادتی اور لاپرواہی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جہاں 2023-24 میں 307,022 کیسز رپورٹ ہوئے، جو دو سالوں میں تقریباً 12 فیصد اضافہ ہے۔
بچوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات
مضبوط قانونی نظامحکومتوں کو ایسے قوانین نافذ کرنے چاہییں جو بچوں کو ہر قسم کے استحصال سے بچائیں اور مجرموں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
تعلیمی پروگرام
اسکولوں میں ایسے پروگرام متعارف کروانے چاہییں جو بچوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کریں اور انہیں اپنی بات کہنے کے قابل بنائیں۔ روک تھام کی تعلیم اور بچوں و بڑوں کے درمیان کھلی گفتگو نقصان دہ اثرات کو کم کر سکتی ہے۔
پیشہ ور افراد کی تربیت
اساتذہ، سماجی کارکنان اور صحت کے ماہرین کو خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ زیادتی کے نشانات کو پہچان سکیں اور بروقت کارروائی کر سکیں۔
عوامی آگاہی
ایسے مہمات چلائی جائیں جو بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے معاملات پر گفتگو کو عام کریں اور معاشرے کو زیادہ چوکس اور مددگار بنائیں۔
مدد فراہم کرنے والی خدمات
متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے نفسیاتی مدد اور مشاورت کی خدمات دستیاب ہونی چاہییں تاکہ وہ زندگی کو از سرِ نو بہتر بنا سکیں۔
ایما کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بچوں کی حفاظت محض ایک مہم نہیں بلکہ ایک مسلسل ذمہ داری ہے۔ اگرچہ یونیسف جیسے عالمی ادارے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن یہ ہر ملک اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات نافذ کریں جو ہر بچے کے لیے محفوظ اور خوشحال ماحول فراہم کریں۔
++++++++++++++
میری رائے میں اس وڈیو کی خبر کے بہت سارے پہلواور ایک پارٹی کے بیان کی بنیاد ہے۔ چونکے بالغ انسان رضامندی سے آپس میں کیا کرتے ہیں، ان کی ذاتی زندگی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہویا دوسروں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں توپھر خبر بنتی ہے۔ ایک خاتون اپنے خاوند کی اجازت سے ایک دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات رکھتی تھی تو اس میں خاتون کی کوئی غلطی نہیں بلکے چیٹنگ یا دھوکہ ایک تو فکٹری کا مالک اپنی بیوی کے ساتھ کر رہا تھا اور اپنی دولت کے سبب جنسی بے راہ روی کا شکار تھا اور دوسری طرف اس خاتون کا خاوند اپنی بیوی اور بہین کو جنسی بزنس کے لیے استعمال کرتا تھا اور قصور خاوند اور سسرال کا لالچی ہونا ہے نہ اس خاتون کا جس سے بچے چھین کر گھر سے بے گھر کردیا ہے۔ مزید یہ کے غربت سارے راستے خود دیکھاتی ہے۔ جو بھوک کے مارے ہوں؛ بچوں کو پالنے کا سوال؛ بے روزگاری یا آمدن اتنی جو بجلی کا بل نہ دے سکے تو ان کے سامنے اخلاقیات کے درس، پارسائی کے نعرے کوئی وقت نہیں رکھتے۔ پیٹ میں روٹی ہوگی تو مسجد میں نماز بھی پڑھنا یاد آیگی اسی لیے وہ کہے رہی ہے کے جب خرچے بڑھ گے تو ہفتے یا پندرہ دن بعد جاتی تھی۔ بات معاشرے کی غربت ہے اور غربت ہی ازل سے جنسی بزنس کا سبب رہا ہے اور آج تک ہے۔ ظلم سسرال نے عورت کے ساتھ کیا ہے ایک تو خاتون سے جنسی بزنس کرائی اور اسکے بچے بھی لیے اور پھر نام نہاد بدنامی کے ڈر سے اسے بے گھر کردیا ہے جو معاشرے کی خامی کا اظہار ہے۔ نیچے سورہ نور ایت 33 میں قران مدینہ میں مسلمانوں سے مخاطب ہے کے اپنی لانڈیوں سے دنیاوی نفع کے لیے زبردستی جسم فروشی نہ کرایا کرو اگر وہ اس کے لیے رضامند نہیں ہیں۔ قران یہ نہیں کہتا کے اس قسم کا جنسی تعلق گناہ ہے یا ثواب بلکے قران غلام عورت کو زبردستی جسم فروشی کرانے کے لیے منع کرتا تھا۔ ایک تو رضامندی اور دوسرا اُس وقت غلام دار معاشرہ اور غلام دار معاشرے کی غلادار اخلاقیات اور قاعدے قانون ہوتے ہیں اسی لئے قران اُس وقت کے معاشرتی ماحول اور سماجی ضرورتوں سے باہر نہیں جاتا بلکے ان ہی کے اندر غلام عورت کے حقوق کے تحفظ کی کوشش کرتا ہے جسکا مطلب معاشرے کی سماجی ضرورتیں رسم و رواج، اخلاقیات اور قاعدے قانون کو وجود میں لانے کا سبب ہوتی ہیں اور جب وہ سماجی ضرورتیں بدلتی ہیں تو رسم و رواج، اخلاقیات اور قاعدے قانون کا بدلنا بھی ناگزیر ہوتا ہے۔
قانون فرد کی آزادی، اسکے بنیادی حقوق اور سماجی تحفظ کی ضرورت کے درمیان باریک لائن کو عبورکرنے کی اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی مذہبی فسلطائیت پھیلا کر آج ہم انسانوں کو انکے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرسکتے ہیں۔
افغانستان میں نہ صرف مذہبی امریت مسلط ہے بلکے امریکہ کی مدد سے مذہب کے نام پر فسلطائیت مسلط کرکے امریکہ سے ڈالر خوری کا خفیہ ایجنڈا چل رہا ہے۔ نام نہاد آزادی لینے والے جو امریکہ اور پاکستان کے بیس سال تک پے رول پر تھے ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں کے وہ امریکہ کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس قسم کی مذہبی شیطانی سیاست جو دو سو سال سے جاری ہے اب امریکہ کی سینٹ اور کانگریس کے سامنے انکواری میں مکمل طور پر ایکسپوز ہوچکی ہے۔ طالبان جن کو امریکہ ہر ہفتے کیش کی شکل میں چالیس میلن ڈالر دیتا رہا ہے، امریکہ سے آزادی لینے کے نعرے لگاتے ہیں! مذہبی سیاست مسلمانوں اور اسلام کے نام پر ایک بدنما دبہ ہے اور جو لوگ ایسے سیاسی نظریات کو اسلام کے ساتھ نتھی کر رہے ہیں ان کو اپنے فرقے اور مذہبی تعلق اور سماجی ضرورت پر دوبارا غور کرنا ہوگا چونکے وہ اپنی سوچ کے حوالے سے اس قسم کے جرائم کا حصہ ہیں جو افغانستان اور فلسطین کے عوام کے خلاف جاری ہیں اور جو جنگی جرائم کے طور پر اقوام متحدہ میں تسلیم کئے جاچکے ہیں۔
پاکستان جیسے معاشرے جن پر عہد حاضرنے قانونی ذمداریاں لاگو کی ہیں وہ تو پورا کرنے سے ہنوز قاصر ہیں مگر مصنوی اخلاقیات کی خدائی فوج بنے کا شوق جاہلت نے مذہب کے نام پر مسلمان معاشروں میں سیاسی مفادات کے حصول کے لیے بہت پال رکھا ہے۔ پاکستان کے کلچر میں یہ بنیادی خامی ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل پیچھے دھیکلا ہے۔ معاشرہ ایک سماجی اکائی ہے نظریاتی یا مذہبی نہیں اور قانون ایک ساٗنس ہے نہ کے عقیدہ اسی لئے جب ہم فقہ کا قانون اس کی تاریخ اور ارتقاء پڑھتے ہیں تو اسکی خود شناخت سائنس آف فقہ کہلاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment