ڈاکٹر محمد اقبال کی سوچ، خیالات اور شاعری برصغیر کے مسلمانوں اور ایران میں بہت مقبول رہی ہے۔ اقبال نے اپنے اظہار کا ذریعہ اردو، فارسی اور انگریزی کو بنایا تھا۔ دیکھتے
ہیں اقبال کیا کہتا ہے؟
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو 'خیال' کے بجائے 'عمل' پر زور"
دیتی ہے۔ تاہم جدید انسانوں کے لیے یہ یقین ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک اجنبی کائنات کو دوبارہ زندہ کر کے، ایک اہم عمل کے طور پر، اس خاص قسم کے داہرے کے اندرکا تجربہ جس پر مذہبی عقیدہ آخر کار ٹکا ہوا ہے۔ چونکے انسانی فکر کے ثقافتی ارتقاء کے سبب انسان نے اپنے آپ کو اس تجربے سے سیکھنے کے قابل نہیں بنایا جس کے بارے میں وہ مزید شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفی ازم کے زیادہ حقیقی مکاتب فکر نے اسلام میں مذہبی تجربے کی تشکیل اور رہنمائی میں اچھا کام کیا ہے۔ لیکن ان کے بعد کے نمائندے، جدید ذہن سے ناواقفیت اور جہالت کے سبب، جدید فکر اور تجربے سے کوئی نئی رانمائی حاصل کرنے میں بالکل ناکام اور اپائج ثابت ہوتے رہے ہیں۔
وہ طریقے جو ان نسلوں کے لیے بنائے گئے تھے جنکا ثقافتی نقطہ نظر کا ارتقاء اہم سماجی فکرمعاملات میں، ہمارے اپنے ثقافتی ماحول اور سماجی ضرورت سے مختلف ہیں۔ قرآن کہتا ہے 'تمہاری تخلیق اور دوبارا اٹھانا ایک ہی جان کے پیدا ہونے اور پھراسی کا دوبارا جی اٹھنے کی طرح کا ہے۔' یہ بالوجیکل قسم کا ایک زندہ تجربے کا عکس، جو اس آیت میں موجود ہے۔ آج کے دور میں انسانی فکر کے لیے کم متشدد اور نفسیاتی طور پر ایک ٹھوس قسم کے ذہن کے لیے زیادہ موزوں طریقہ کار کی مذہبی فکر کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے طریقہ کار کی عدم موجودگی میں مذہبی علم کی سائنسی شکل کا مطالبہ فطری اور ماحول کی ناگزیر ضرورت ہے۔ ان لیکچرز میں، جو مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی درخواست پر تھے اور مدراس، حیدر آباد اور علی گڑھ میں دئیے گئے تھے، میں نے اس فوری مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے، اگرچہ جزوی طور پر، مسلم مذہبی فلسفے کو فلسفیانہ اعتبار سے از سر نو تشکیل دینے کی کوشش کی ہے۔ اسلام کی روایات اور انسانی علم کے مختلف شعبوں میں حالیہ ترقی میں ہم آہنگی ناگزیر ہے اور مزید
یہ کے موجودہ تحریک ایسے اقدام کے لیے کافی سازگار ہے۔ کلاسیکل فزکس نے اپنی بنیادوں پر تنقید کرنا سیکھ لیا ہے، اس تنقید کے نتیجے میں وہ مادیت پسندی، جس کی اسے اصل میں ضرورت تھی، تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس اب تک غیر مشکوک باہمی ہم آہنگی دریافت کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے حتمییت کی فلسفیانہ سوچ کہا جاسکے۔ جیسے جیسے علم میں ترقی ہوتی ہے اور فکر کی نئی راہیں کھلتی ہیں، دوسرے نظریات، اور ان لیکچرز میں بیان کیے گئے خیالات کے مقابلے میں شاید بہتر خیالات ممکن ہوسکتے ہوں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم انسانی فکر کی ترقی کو احتیاط سے دیکھیں، اور اس کے بارے میں ایک آزاد تنقیدی رویہ برقرار رکھیں" (ڈاکٹر محمد اقبال کی کتاب مذہبی افکارکی اسلام میں تجدید نو کے پیش لفظ کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ)۔
اقبال کی تحریریں نوآبادیاتی عہد کی ہیں جب دنیا میں نہ انسانوں کے بنیادی حقوق تسلیم ہوئے تھے، نہ مقامی عوام کا حق خود اختیاری، اور نہ ہی قوموں اور ریاستوں کے درمیان بقائے باہمی کا اصول تسلیم ہوا تھا۔ اقوام متحدہ نام کا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا نہ ہی اقوام متحدہ کا چاٹر تھا جس میں تاریخ انسانی میں پہلی بار اس عبارت کے ساتھ دنیا کا عہدنامہ وجود میں آیا تھا "ہم دنیا بھر کے عوام یہ عہد کرتے ہیں" تھا۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کے انسانی فکر اپنے عہد اور ماحول سے زیادہ بغاوت نہیں کرسکتی بلکے ماحول سے ہم آہنگ ہونا ہمیں نہ صرف انسانی ضرورت جو قربت داری اور طبیعیات کے قوانین کی ناگزیریت ہے اپنے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیےمجبور کرتی ہیں اور یہی درس ہمیں قران کی عبارت سے بھی ملتا ہے۔
سورہ بقرہ ایت 173
سورہ بقرہ ایت 173 اردو انگریزی ترجمہ
سورہ المائدہ ایت 3
سورہ المائدہ ایت 3 اردو انگریزی ترجمہ
سورہ نساء ایت 3
سورہ نساء ایت 3 اردو انگریزی ترجمہ
مندرجہ بالا تین آیات جن میں بقرہ ایت 173 اور المائدہ ایت 3 جن میں کھانے پینے کی وہ چیزیں ہیں جن کو قران حرام کی لسٹ میں شامل کرتا ہے اور اسی طرح نساء ایت 3 جو شادی کے اس وقت کے سماجی ادارے کے بارے میں ہے۔ عرب یا مہاجرین جو مسلمان ہوکر مکہ سے مدینہ آئے تھے اپنے ساتھ لامحدود بیویوں اور لامحدود لانڈیوں کے ساتھ جنسی تعلق اور سماجی ذمداری کا رواج لائے تھے جسے اس وقت کے مدینہ کے کلچر سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت تھی اور اسی کی تصویر ہمیں قران میں بھی نظر آتی ہے۔
جو کھانے پینے کی لسٹ میں حرام چیزیں ہیں وہ وہی ہیں جو اُس وقت کے مدینے کے لوگوں کا کلچر تھا بلخصوص مدینہ کے یہودی۔ اسی لیے حرام کی لسٹ میں شراب شامل نہیں ہے چونکے شراب کو دو سو سال بعد حنبلی سکول نے عباسی خلیفہ متوکل کے دور میں انالجی اور گریک فلسفہ کی بنیاد پر حرام قرار دیا تھا جسکا مذہبی طور پر انکو اختیار نہیں تھا۔ اور یہی بات چار بیوں کے رواج کی ہے چونکے مدینے کے یہودی اس وقت چار بیویاں کرتے تھے اور تورات میں بھی یہ موجود ہے جسے انہوں نے 12ویں صدی میں ختم کیا تھا جبکے انجیل (قران انجیل اس لیے کہتا ہے چونکے گریک زبان میں نیوٹسٹامنٹ کو انجیل کہا جاتا ہے۔ گریک جب قران آیا تو اس وقت مکہ مدینہ کے قرب و جوار بشمول شام کی مذہبی زبان تھی)۔ یہاں تک کے مسلمانوں میں ختنہ اور یروشلم کی طرف منہ کرکےعبادت کرنا قران میں نہیں بلکے تورات اور مدینہ
مدینہ کے یہودیوں کا رواج تھا جو پراری کی بنیاد پر مسلمانوں کے عقائد کا حصہ بنا۔ دوسرے الفاظ میں قران کے حکم کے بغیراختیار کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کے جیوش اورکرسچن مذہبی کہانی قران کی عبارت کی پراری (پراری فلاسفیکل ٹرم ہے جو گریک فلسفے میں استعمال ہوئی ہے اور قران کی تعبیر و تشریع مثال کے طور پر سہروردی نے سورہ نور ایت 35 کی بنیاد پرافلاطون کے نظریئے سے کی ہے؛ جبکے باقی سب نے بھی اسلام کے نوآبادیاتی عہد کے سارے قوانین کی تشریع بلخصوص قانون کی کلاسیفیکیشن زینوں اور ارسطو) کے اصول سے کی تھی اور اس ٹرم کو17ویں صدی کے فرنچ فلسفی رینی ڈیسکارٹس اوراٹھارویں صدی کے جرمن فلسفی امیول کانٹ نے اپنی تحریروں میں مشہور کی تھی۔
اسی طرح ختنہ بھی تورات میں ہے قران میں نہیں ہے۔ یروشلم کی طرف منہ کر کے عبادت کا ثبوت بھی ہمیں قران کی ان ایات میں ملتا ہے جو کعبہ مکہ کی طرف موڑنے کے سبب تنقید کے جواب کے طور پر اتری تھی جو بقرہ کی ایات 104 سے 177 تک مسلسل قران کا تقرار ریشنل ازم کی بنیاد پر نظر آتا ہے، یہ کے پہلا حکم (یروشلم کی طرف منہ کرکے) بھی اللہ کا تھا یہ (مکہ کی طرف منہ کر کے) بھی اللہ کا حکم ہے۔
کیا یہ مدینہ کے لوگوں کے درمیان ولیو کنسنسس کی کوشش نہیں تھی تاکے معاشرے میں سماجی ہم آہنگی پیدا کر کے سماج میں سوشل آرمونی کے ماحول کو فروغ دیا جائے؟
سماجی سائنس کا بنیادی اصول سماج میں ہم آہنگی دلیوکنسنسس کے ذریعے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کے معاشرے میں رنگ، نسل، مذہب، فرقہ اور جنس کی بنیاد پر سیاست یا سیاسی مفاد کے لیے نفرت کی تعلیم دے کر معاشرے میں انارکی پیدا کرنا جو آج ہمیں مسجد و مدارس کی تعلیم میں نظرآتی ہے۔
سماج میں تہذیبی، سماجی اور مذہبی فکر حتی کے انسانوں کے درمیان بالوجیکل اختلاف فطری ہے۔ جدید عہد کے معاشروں نے اس فطری ڈئیورسٹی کو سمجھا اور قبول کرکے سماجی ہم آہنگی کی تعلیم و تربیت بچوں کے لیے ماں کی گود اور نرسری کی سطح سے شروع کر کےسماج میں ہم آہنگی پیدا اور ڈئیورسٹی سے نفرت کرنے کے بجائے سلیبریٹ کرنا سیکھ لیا ہے، لیکن جو معاشرے اس سمت میں سفرکرنے میں اپائج ثابت ہوئے ہیں، اپنے مذہبی، نسلی، جنسی، قبائلی اور قومیتی تعصبات کے قید خانہ سے نہ نکل سکے بلکے اپنے مذہبی اور نسلی انتہاء پسندی کے دباو کا شکار ہرکرخانہ جنگی کا شکار ہوئے۔ اس قسم کے معاشرے فرقہ پرست نسل پرستی کے رجحان اورانارکی کا شکارہوکر اپنے معاشروں کی معاشی، سماجی، سیاسی اور انسانی حقوق میں بہتری لانے کے اعتبار سے نہ صرف بہت پیچھے رہ گے ہیں بلکے مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔
معاشرت کے بنیادی عناصرجس میں انسانوں کے آپسی تعلقات، رسم و رواج، قاعدے قانون، اخلاقایات، فرد کی شخصی آزادیاں، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، معاشی اور سماجی بہتری کا عمل ایک سائنس ہے عقیدہ نہیں۔ یہ ساری چیزیں مادی ہیں جنکو پڑھنے، پڑھانے، سمجھنے اور ان میں بہتری لانے کے لیے سائنسی طریقے کی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے نہ کے عقیدہ یا فرقہ پرستی کی تعلیم و تربیت۔ دوسرے الفاظ میں ہماری تعلیم و تربیت کے صیح اور غلط ہونے کا معیارسماج پر اس تعلیم کے اپلائی کرنے کے بعد ملتا ہے۔ تھیوری کی کوریکشن پرکٹس کرتی ہے نہ تھیوری کو عام کرنے یا عوام کو گمراہ کرنے سے۔ اگر جرائم میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا ہے تو ہمیں قانون، کلچر، لوگوں کے رویے کو دوبارا پڑھنا اور سمجھنا ہوتا ہے نہ کے عقائد کی تبلیغ سے بہتری کی امید جو پاکستان کے ماس میڈیہ پر صبح شام نظر آتا ہے۔
کیا میرے لیے یہ ممکن ہے کے میں اپنے گھر کے سامنے، باہیں، داہیں اور پیچھے کے پڑوسی کا انتخاب کرسکوں؟ کیا قانون طبیعیات میری سوچ کے تعابے ہے یا میری سوچ کے لیے بدلے گی؟ نہیں۔ کیا مذہبی انتہاء پسندی کی سوچ کا دعوہ اسی قسم کا نہیں ہے کے قانون فطرت اور قانون طبیعیات ان کے عقائد کے تعابے ہے؟ قانون طبیعیات میرے لیے تبدیل نہیں ہوگی بلکے مجھے اپنے ماحول کے ساتھ جو جس قسم کا بھی ہے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہوتا ہے۔ یہ تہذیب انسانی کی تاریخ ہے اور یہی سماج کے امن، ترقی، ماحول کو بہتر بنانے اور
سلامتی کی بنیاد اورضرورت ہے۔
میں حیران ہوں کہ ملاقات کا آغاز کرنے کے لیے ہمیشہ سلام ہیؔ پہلا لفظ ہوتا ہے۔ لیکن نماز میں یہ آخری لفظ ہے۔ شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کا اختتام ملاقات کا آغاز ہے، علی شریعتی۔
No comments:
Post a Comment