Sunday, March 31, 2024

آزاد کشمیر سے ، نانی کا خواب ، ماں کا خصم اور منافق ہمسایہ ملک پاکستان، کی اصطلاحات کشمیریات میں شامل ہوئی ہیں۔ نانی، ماں کی ماں ہوتی ہے۔ اس لئے بھارت کو ماں کا خصم قرار دینا، نہائیت ہی معیوب طرز تکلم ہے۔ انڈیا اپنی جغرافیائی شکل میں خصم نہں ہو سکتا، لیکن ہندوستان کے ایک ارب، اور کثیرالمزاہب کے لوگوں کو کسی ماں کا خصم قرار دینا، نشے کی حالت میں بھی ممکن اور مناسب نہیں۔






ماں کا خصم ہندوستان 
منافق ہمسایہ ملک پاکستان

ہم نے اقوام متحدہ کی ٹمپلیٹ کی Jurisprudence متعارف کرائی اور اس کے دفاع میں لگے آئے ہیں۔ دیانتداری کے ساتھ کشمیر کی تشریح کرتے ہیں - اس تشریح میں ہماری تعریف "definition" اور ریاستی عوام کی اجتماعیت "inclusiveness" شامل ہیں۔ اس اجتماعیت کی قانونی حیثیت کو نظرانداز کرنا اور اسے نہ سمجھنے کی غلطی کرنا، کشمیر کی عسکری اور سیاسی تحریک کا کفن دفن ثابت ہوئے۔

کشمیر کیس کی جیورسپروڈنس پر پہلا وار جولائی 2006 کی واشنگٹن کی کشمیر کانفرنس میں ہوا۔Washington Conference کے اعلامیہ DECLARATION سے حق خودارادیت Self-determination اور اقوام متحدہ کی قراردادوں UN Resolutions کو ڈراپ کیا گیا۔ اس اقدام میں ہندوستان، پاکستان، آزاد کشمیر اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور دوسری جگہوں سے آئے کشمیری اور غیر کشمیری شرکاء شامل تھے۔

اس کی اطلاع مرحوم خالد حسن نےڈیلی ٹائیمز میں شائع ہونے والے کالم "Post Card USA:Yet another Kashmir Conference " میں دی۔ اس کانفرنس کی میزبانی کے اخراجات اسلام اسلام آباد نے اٹھائے تھے Self-determination اور UN Resolutions کو ڈراپ کرنے کا اقدام ان کی تابع منظوری کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

کشمیریات میں Half Windows, Kunan Poshpora, Custodial Killings, Torture, Rape, Disappearances, Refugees, Death of a Generation, OGWs اور اس طرح کی دوسری اصطلاحات شامل اور عام ہوئیں. ابKPs کی اصطلاح بھی شامل ہوئی ہے۔

آزاد کشمیر سے ، نانی کا خواب ، ماں کا خصم اور منافق ہمسایہ ملک پاکستان، کی اصطلاحات کشمیریات میں شامل ہوئی ہیں۔ نانی، ماں کی ماں ہوتی ہے۔ اس لئے بھارت کو ماں کا خصم قرار دینا، نہائیت ہی معیوب طرز تکلم ہے۔ انڈیا اپنی جغرافیائی شکل میں خصم نہں ہو سکتا، لیکن ہندوستان کے ایک ارب، اور کثیرالمزاہب کے لوگوں کو کسی ماں کا خصم قرار دینا، نشے کی حالت میں بھی ممکن اور مناسب نہیں۔

راجہ فاروق حیدر خان سے ان دو اصطلاحات کا منسوب ہونا، نانی اور ماں کی توہین ہے۔ نیلم سے لبریشن فرنٹ کے مصطفٰی مغل اور میر پور سے، جوائینٹ ایکشن کمیٹی کے راجہ امجد علی خان ایڈووکیٹ نے راجہ فاروق حیدر کو اپنے اپنے وڈیو پیغام میں جواب دیا ہے۔

چونکہ JKCHR اقوام متحدہ کے Resolution 1996/31 کے تحت operate کرتی ہے، اس لئے ہم زبان اور الفاظ کی تسلیم کی گئی ٹمپلیٹ پر قائم رہتے ہیں۔ ہم انڈیا کو Resolution L40 , Resolution L21 اور ضابطہ 1503 کی گالی دیتے ہیں۔ "منافق" اور " ماں کا خصم" جیسے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی میرٹ نہیں۔

راجہ فاروق حیدر خان، کے سیاسی علم بالخصوص کشمیر کیس کی جیورسپروڈنس کی سمجھ کمزور اور unreliable ہے۔ ہم پاکستان کی کشمیر کیس میں موجودگی کی تشریح UN template اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کی رو سے کرتے ہیں۔ اس میں برجیس طاہر، قمر زمان کائیرہ، علی امین گنڈاپور اور ایسے ہی دوسرے وسیلوں کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اگر یہ تین لوگ علم سیاسیات پڑہے ہوں تو، وہ خود بھی اس بات کی تائید کریں گے۔ آزاد کشمیر کوئی کالونی نہیں۔

راجہ فاروق حیدر خان اور آزاد کشمیر کے دوسرے سیاست دان، نہ نانی،نہ ماں، نہ پاکستان اور نہ ہی کشمیر کیس کی جیورسپروڈنس کے دل سے قائیل ہیں۔ ان کی سیاست ایک نوکری کے علاوہ، بھڑکوں اور چولوں تک محدود ہے۔ سابق وزیراعظم فاروق حیدر خان کا سیاسی جغرافیہ یورپین پارلیمنٹ اور ہمارے بھائی علی رضا سید کے تذکرے تک محدود ہے۔

آزاد کشمیر، جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان، ایک ریاست کی تین اکائیاں ہیں۔ ان کے حالات کا ذکر اور تقابل کرنا کوئی جرم نہیں۔ اگر عوامی ایکشن کمیٹی یا کسی دوسرے نے، پاکستان کو ہمسائیہ ملک قرار دیا ہے، یہ کہنا، آزاد کشمیر کے قیام کے اعلامیہ کے عین مطابق ہے۔ اس تشریح سے آزاد کشمیر کے نظام کی معتبریت ثابت ہوتی ہے۔

آزاد کشمیر کی حکومت کے قیام "reconstitution" کے 24 اکتوبر 1948 اعلامیہ میں، انڈیا اور پاکستان کو ہمسایہ ممالک "neighbouring Dominions of India and Pakistan" قرار دیا گیا ہے۔ یہ اعلامیہ ہم نے، نانی، ماں اور ماں کے خصم کے behalf پر جاری کیا ہے۔ ہم ان تین رشتوں اور دوسرے رشتوں کے ساتھ بے وفائی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔ ماں کو کسی خصم کے ساتھ جوڑنے میں، انسان کو ہر حالت میں، احتیاط برتنی چاہئے۔ ہمیں People of Legend کہا گیا ہے۔ تو پھر آٹے کے تھیلے کے لئے ایک قطار میں کھڑا ہونے کی نوبت کیوں آئی ہے۔

چیف سیکرٹری کو تو ہم Superior Executive Allowances دینے کے لئے قانون بناتے ہیں۔ آٹا مانگنے والے کشمیری کی ماں کو گالی کیوں؟
 
سید نذیر گیلانی
31 مارچ 2024

No comments: