Thursday, February 8, 2024

پورے آزاد کشمیر پانچ فروری کو مہنگائی، بجلی کے بلوں، اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے شدید مظاہرے ہوئے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر عوام #مظرآباد #باغ #راولاکوٹ #تھوراڑ #پلندری #ہھیرہ #منڈھول #تترینوٹ #کوٹلی #سہنسہ اور #میرپور میں سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں نکل آئے۔




قدیم کہاوت ہے کہ "اس دنیا میں کوئی بھی چیز ایسے شخص کے لیے مشکل نہیں جو اسے حاصل کرنے کے لیے کافی پرعزم ہو" یا "جہاں مرضی ہوتی ہے وہاں راستہ مل جاتا ہے"۔ 

مندرجہ بالا کہاوتوں کی روشنی میں، میرے لیے اس سوچ سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ دونوں ممالک جموں کشمیرکی زمیں  پر اپنا دعویٰ تو کرتے ہیں، اور دونوں اس دعویے کو ترک کرنے کے لیے تیار بھی نظر نہیں آتے جبکے دونوں دنیا میں نوآبادیاتی نظام کے خاطمے کے بنیادی اصول کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔ ان دونوں کے اس رویے کی وجہ سے ایک کشیدہ صورتحال نہ صرف آج ہے بلکے گذشتہ 76سالوں سے موجود ہے، جسکا نتجہ یہ ہے کے آج بھی خطے میں جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 

جموں و کشمیر کے لوگ کئی دہائیوں سے ھند پاک  کے اس رویے کے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں اور تشدد کی سیاست کے سبب جموں کشمیر کے عوام کے دونوں حصوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ نوجوان معاشروں کے مستقبل کی ضمانت ہیں لیکن جموں کشمیر کے نوجوانوں قبرستان اور جیل آباد آباد کر رہے ہیں۔ عوام کی زندگیوں کو اکسائی چن سے منگلہ اور لاکھن پور سے ہنزہ تک 76 سالوں میں آمن، سکون آزادی اورخوشحالی نہ مل سکی جب کے پڑوسی چین کے شہر ہاٹن کو دیکھ لیں۔ 

اس بات سے انکار ممکن نہیں کے جموں کشمیر کے عوام کے درمیان اس بات پر مضبوط اتفاق رائے موجود ہے کہ سیاسی  تنازعات کا پرامن حل ہی بہتر حل ہے، اور یہ کہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کے قابل ہیں اور ھند پاک کو ان پر اعتماد کرنا ہوگا نہ کے ہمیشہ شک کی نظر سے ریاست کے عوام کو دیکھنے کی عادت جس کی سزا نہ صرف جبری طور پرتقسیم شدہ ریاست کے عوام کو ملتی رہی ہے بلکے دونوں ممالک میں بسنے والے اربوں عوام بھی اسکی سزا اب تک کاٹنے پر مجبور ہیں۔ 

بدقسمتی سے ہند پاک، دونوں، جموں و کشمیر کے  عوام کی آواز سننے کے لیے آج تک تیار نظر نہیں آتے اور نہ ہی وقت اور تاریخ سے ان ممالک کے حکمران سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں اپنی طرف سے عوام دشمن ایجنڈوں پر عمل کرتے رہے ہیں، قطع نظر اس کے کہ اس علاقے میں رہنے والے عوام کو ان کی ان پالیسیوں کے سبب کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی رہی ہے۔ ان دونوں ممالک کے حکمرانوں کے توسیع پسندانہ رویے کی وجہ سے آج بھی آمن کی طرف جانے والے راستے میں ایک تعطل قائم ہے جس کا نتجہ خطے کے اربوں عوام بھکتنے پر مجبور ہیں۔ ان کے رجعت پسندنہ سیاسی رویے کے سبب آج بھی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور جس کا خاتمہ بدقسمتی سے دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا خطرہ آج بھی ایک  حقیقت ہے اور نہ ہی کوئی باشعور انسان اس سے انکار کرسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، اور ان کے درمیان تصادم سے پورے خطے کے لیے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہند پاک دونوں جموں و کشمیر کے عوام اور دنیا کی خاطر اپنے اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا راستہ تلاش کریں اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے سے نہ صرف اجتناب کریں بلکے بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور تعاون کی تعلیم بھی دیں۔ آج کسی بھی ملک کی سلامتی کی بنیادی ضرورت نہ صرف معیشت ہے بلکے پڑوسیوں کے ساتھ دوستی کی ضرورت قومی سلامتی کی سب سے پہلی دفاعی پوسٹ بھی ہے۔

دونوں ملکوں کے حکمرانوں کے لیے لازم ہے جموں کشمیر کے تنازعے کو جموں کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق کی نظر سے دیکھنے کا رویہ اپنانے کی کوشش کریں اسی طرح عالمی برادری کو بھی اسی زاویہ نگاہ سے اس سوال کو دیکھنا ہوگا جو بہت اہم ہے۔ عالمی برادری کے لئے لازمی ہے کے وہ ہند پاک پر اس مسلے کے پر آمن حل کے لیے دباؤ ڈالے، چونکے خطے کا آمن اب عالمی ضرورت بھی بن چکا ہے۔ عالمی برادری کے لیے لازم ہے کے وہ جموں و کشمیر کے عوام کو بھی انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرے، جو طویل عرصے سے ھند پاک نفرت کی سیاست کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

اس لیے میری رائے میں جموں و کشمیر کا سوال کوئی پیچیدہ نہیں بلکہ سب سے آسان سوال ہےلیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو مذہبی نسل پرستی کے تاریخی تعصبات سے نکل کر سائنسی فکر و نظر سے ماحول کو دیکھنا، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی راہ پر گامزن ہونا ہوگا۔

یہ ضروری ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کھلے ذہن کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کا آغاز کریں نہ کے ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور وقتی سیاسی مفادات کے لیے اپنے اپنے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی پالیسی کو جاری رکھیں جو خود تبائی کا راستہ ہے۔ 

اس کے لیے ضروری ہے کے  تقسیم کے دونوں اطراف کے ریاستی عوام کو جو اکسائی چن سے منگلہ اور لاکھن پور سے ہنزہ تک پھیلے ہوئے ہیں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع دیں جو مستقبل کی ریاست کے آئین کے لئے پہلے آپس میں اتفاق رائے پیدا کرسکیں اور پھر ہندوستان، پاکستان اور چین کے ساتھ اشتراکِ اقتداراعلی  کے اصول کے تحت، جو یورپی یونین کا کامیاب تجربہ بھی ہے اور جدید ریاستوں کے فیڈریشن یا یونین کے نظام کی شکل میں اظہار بھی اقتداراعلی کے اشتراک کا اصول ہی تو ہے، کی روشنی میں آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ 

زبردستی کی شادی کے عہد میں نہ ہم زندہ ہیں اورنہ ہی تصواراتی نعروں کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کرکے حقائق بدلے جاسکتے ہیں۔ اپنے عہد کے حقائق سے انکار اور تاریخی تصورات کے قیدخانوں میں زندہ رینے کی جبری کوشش اپنے وجود سے انکار کی دلیل کے سوائے کچھ نہیں ہے۔

اس لیے تمام فریقین کے سامنے تنازعات کے پرامن حل اور خطے میں امن کو آگے بڑھانے کے علاوہ کوئی متبادل راستہ نظرنہیں آتا جو نہ صرف خطے کے عوام کے لیے بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام امن،آزادی، خوشحالی اور ترقی کے مستحق ہیں جس کا اعلان ان کے ابو اجداد نے 1944میں ایک مکمل سیاسی دستاویز میں کیا تھا۔ یہ بات بھی ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کے دنیا اس خطے میں ایک اور جنگ کی نہ متحمل ہو  سکتی اور نہ ہی عالمی معیشت اسکی اجازت دیگی۔

No comments: