ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے پونچھ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے تین افراد کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ انہیں ہندوستانی فوج نے اپنی حراست کے دوران اذیت اور تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی ہے۔
انہیں مسلح اپوزیشن کی طرف سے کیے گئے ایک حملے کے بعد اٹھایا گیا تھا، جس کی ذمداری پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ (پی اے ایف ایف) نے قبول کی تھی۔ اس تنظیم نے اسی ہفتے کے شروع میں ہندوستانی فوج پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں فوج کے پانچ ارکان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
ان تین بے گناہ کشمیریوں کی شناخت 37 سالہ محفوظ حسین، 26 سالہ محمد شوکت اور 32 سالہ شبیر احمد کے طور پر کی گئی ہے، جو پونچھ ضلع کے ٹوپا مستندرہ گاؤں کے رینے والے ہیں اور تینوں کی مبینہ طور ہر فوج کی حراست میں اذیت اور تشدد سے شہادت ہوئی ہے۔
ان کی شہادت کی خبر پھیلنے کے احتجاجی مظاہرے پوری ریاست میں ہوئے ہیں۔ اس پر رد عمل کو روکنے کے یے حکام کو پونچھ اور راجوری میں انٹرنیٹ سروس بند کرنا پڑی۔
ٹوپہ مستندرہ کے علاقے کے کمیونٹی لیڈر (سرپنچ) محمود احمد نے بتایا کہ مقتولین ان آٹھ افراد میں شامل تھے جنہیں فوج نے ان کی رہائش گاہوں سے حراست میں لیا تھا۔ مقامی عوام اور متوفی کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ انہیں فوج نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے تین بے گناہ شہریوں میں سب سے چھوٹے، شوکت کے چچا محمد صدیق نے کہا، فوجی جوانوں نے جمعہ کی صبح کئی شہریوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا اور ان میں سے چند کو فون پر اپنے کیمپ میں بلایا۔ صدیق، جو اس علاقے کے ایک کمیونٹی لیڈر بھی ہیں، نے گواہی دی کہ اس نے کئی مقامی سیاست دانوں اور عہدیداروں کو فون کیا تاکہ ان کو حراست سے رہائی دلانے میں مدد کی جا سکے۔ ان کے الفاظ "میں نے انہیں بتایا کہ انہیں مارا پیٹا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی ان کو بچانے کے لیے نہیں آیا،"۔
مقتولین کو مال پوسٹ کے کیمپ میں فوج کے جوانوں نے بے رحمی سے مار ڈالا۔ پریس نے ہندوستانی فوج کے نمائندوں سے پوچھا کہ ان شہریوں کو کیوں مارا گیا؟ فوج کا جواب جو رپورٹ ہوا ہے، ان کی 'غلطی' کی وجہ سے مارے گئےہیں۔
فوج اور سی آر پی ایف نے انسانیت کے خلاف اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے میڈیا سمیت کسی کو بھی گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ مقامی عوام کے ایک اور رکن مسٹر صدیق نے فوج کی بربریت کا نشانہ بننے والوں کے لیے کہا کہ وہ بے قصور تھے اور ان کا کسی عسکری سرگرمی سے دور دور تک کا تعلق بھی نہیں تھا۔ ان کے خلاف کوئی منفی بات نہیں تھی۔ پولیس میں ان کے خلاف کوئی رپورٹ تک بھی نہ تھی۔
متوفی محفوظ حسین کے بھائی نور احمد نے بتایا کہ ان کے بھائی کو فوج کے جوانوں نے جمعہ کے روز اس کو گھر سے حراست میں لیا تھا۔ ہم شام کو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ انکو ماردیا گیا ہے۔ وہ حراست میں مارے گئے ہیں۔ وہ پریس سے بات کرنے سے بھی قاصر تھا کیونکہ وہ صدمے کی وجہ سے نڈال ہوچکے تھا۔
زیر حراست افراد کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی ویڈیو کلپس میں فوج کے سپاہی ایک قیدی کے کولہوں پر مرچ کا پاؤڈر چھڑکتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ گانڈ میں ڈال اس کو مرچی (مرچ اس کے مقعد میں ڈالو) ویڈیو میں ایک فوجی کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں یہ بھی ہے کہ ایک نوجوان لڑکا زمین پر بےحرکت پڑا ہوا ہے جب کہ ایک اور شخص کو مرچ پاؤڈر چھڑکنے سے پہلے بے بسی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
فوج کا ایک سپاہی ایک شخص کو پلاسٹک کی چھڑی کی طرح دھکیل رہا ہے اور اس کی پٹائی کر رہا ہے جب کہ وہ ایک اور ویڈیو میں ان سے جان بخشی کی التجا کر رہا ہے کہ اسے بچایا جائے۔ اس کے علاوہ، ایک فوجی جوان کو زمین پر بے حرکت پڑے سویلین کے بازوؤں پر جیک بوٹ کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
رفیق کے نام سے معروف کمیونٹی رہنما نے بتایا کہ فوج کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے وہ ان کے گاؤں نہیں جا سکتا۔ اسے یہ بھی بتایا گیا کہ دیگر پانچ کو آرمی ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ تمام محنت کش تھے جو اپنی روزی روٹی کمانے کے علاوہ کسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے۔ یہ افسوسناک ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ نے قبول کی تھی جو پہلی بار 20 اپریل کو فوج پر پونچھ کے حملے میں نمودار ہوئی تھی پھر 5 مئی کو راجوری کا حملہ اور اس کے بعد 4/5 اگست کو کولگام کا حملہ جہاں اس کے چار مقامی گوریلے فوج کے ساتھ لڑائی میں جان ہار گے تھے۔
بھارتی فوج ابھی تک اس تنظیم کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتی نظرآ رہی ہے لیکن بنیادی سوال جموں کشمیر کے عوام کی جمہوری خوہشات کو کچلنے کے نتجہ نے نوجوانوں کو مسلح مذائمت کی طرف راغب کیا تھا اور ہے۔
بھارت کے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ اب مسلح مذائمت کا تھیٹر وادی کے بجائے پیر پنجال کی طرف منتقل ہو گیا ہے جہاں اس سال مسلح اپوزیشن کے 24 ارکان نے اپنی جانیں قربان کیں جب کہ بھارتی فوج کے 21 ارکان۔
سوال یہ ہے کے حراست میں دی جانے والی اذیت اور تشدد کے وڈیوں کسی انسان دوست کا کام ہے جس نے پپلک کئے ہیں یا فوج نے خود ایسا ہونے دیا ہے۔ اس قسم کے حربے مافیہ، دہشتگرد اور ریاستی اہلکار بھی کرتے رہے ہیں۔ اگر فوج نے تشدد اور اذیت کی وڈیوز خود پپلک کئے ہیں تو کیا یہ فوج کی طرف سے کشمیری عوام کے خلاف نفسیاتی جنگ کا ایک حربہ تو نہیں ہے؟
وڈیوں کلپ میں بربریت کا مشاہدہ کرنا گہرے خوف اضطراب کو جنم دے سکتا ہے، جو لوگوں کو کنٹرول اور ہیرا پھیری کے لیے زیادہ حساس بناتا ہے۔ اس کا مقصد اختلاف رائے کو خاموش کرنا اور کسی بھی مخالفت کو روکنا ہوتا ہے۔
ان ویڈیو کلپس کو پروپیگنڈا ٹولز کے طور پربھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جو گروپ کی بے رحمی اور طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اس طرح کے مواد کو پھیلانا کمیونٹیز کے اندر اختلاف، اور بداعتمادی کا بیج، سماجی ٹوٹ پھوٹ کو ہوا دینا اور پرامن حل کے کسی بھی امکان میں رکاوٹ ڈالنا ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی گرفت کو مقامی آبادی کو دبانے کے لیے ایسی ہی وحشیانہ تصویر کشی کی ضرورت رہی تھی۔
لغت نے اس قسم کے تشدد کے لیے مخصوص اصطلاحات مختص کی ہیں، دہشت گرد یا دہشت گردی۔ وہ تشدد جس کے ذریعے دوسرے یا دوسروں کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش ہو۔ ہم کسی قاتل یا سیریل کلر کو دہشت گرد نہیں کہتے کیونکہ اس کا مقصد قتل کرنا تھا نہ کہ اپنے متاثرین کو دہشت زدہ کرنا۔ بھارت گزشتہ 75 سالوں سے جموں و کشمیر کے عوام کی جمہوری امنگوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ الحاق کا عارضی معاہدہ آگے بڑھنے، ریاست کی جبری تقسیم کو ختم کرنے اور حتمی تصفیہ کے لیے لوگوں کو اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کی اجازت دینے کی بنیاد تھی تاکے منتخب نمائندے کسی مستقل حل پر متفق ہوسکیں لیکن نوآبادیاتی طرز سیاست نے جموں کشمیر کو پاک بھارت کے دمیان ایک فٹ بال بنایا ہوا ہے جہاں عوام مر رہے ہیں۔
حق خود ارادیت جدید جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہے۔ میں لندن کو آزاد ریاست بنانے کے مطالبے کے لیے سیاسی جماعت بنا سکتا ہوں۔ یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ میری پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یا نہیں لیکن مجھے یا میری پارٹی کو ایسا کرنے سے نہ کوئی روک سکتا نہ مجھے غدار یا سلاخوں کے پیچھے ڈال سکتا۔
اسی لیے جمہوری کلچر ہر قسم کے سیاسی تشدد، جنگوں، ہلاکتوں اور تباہی کا متبادل ہے۔ لہٰذا ہر جانی نقصان کی ذمہ داری، وہ سیکورٹی پرسنل کے ممبران ہوں، عام عوام یا مسلح مذائمت کار اپوزیشن کے ممبران، سب کی ذمداری دہلی میں بیٹھے ہندوستان کے حکمرانوں کی دہلیز پر ہے جو ریاست کے عوام کو حق رائے دہی سے محروم کرکے دہلی سے ایک واسرائے کے ذریعے نظام حکومت چلا رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment