Monday, October 16, 2023

کیا معاشرے میں فیک امیج بلڈنگ کو فروغ دینا جرم نہیں ہے؟ اگر یہ جرم ہے تو اس کی روک تھام کے لیے دنیا میں کیا نظام ہے؟ اس وڈیوں میں جس جرم کا ارتکاب ہو رہا ہے اسے پبلک کو دھوکا دینا کہا جاتا ہے جس کی سخت سزا ہے۔




 یہ تو میں نے بھی ایک یوٹیوب پر دیکھا تھا کے بچے پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے پوسٹر پھاڑ رہے ہیں لیکن مجھے اُسی وقت اس کا اندازہ نہیں تھا کے یہ سب کچھ   ایک اسٹیج مینج ڈرمہ ہے۔
اس قسم کے فیک امیج بناکر نشر یا پبلش کرنا، اول تو عوام کو دھوکا دینے کی کوشش ہوتی ہے جو ایک سنگین جرم ہے دوئم اپنے مخالف کی معاشرے میں سماجی، سیاسی اور مالی ساخت کو نقصان پہنچانا ہے جو فوجداری جرم کے علاوہ سیول کیس بھی بنتا ہے جس کے لیے متاثرہ پارٹی کو حرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور دنیا میں اس پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔
ہمارے سامنے سوال پاکستان کا ہے۔ کیا پاکستان میں ایسے جرائم کے خلاف کوئی قانون یا اس پرعمل ہوتا ہے؟ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 1980 کے بعد پاکستان میں مسلسل لاقانونیت کے کلچر کو فروغ ملتا رہا اور معاشرے کو انارکی کے رجحانات کی طرف دہکیلا جاتا رہا ہے۔ 
اس کے بہت ساری سماجی، معاشی، مذہبی یا کلچرل پہلوں ہونگے لیکن میرے نزدیک جب کوئی معاشرہ یا ریاست اپنے نظام کے اندر خفیہ اور متبادل نظام کے فروغ کی اجازت دے دیتا ہے جو خود اس کے قانون و انصاف سے متصادم ہو تو وہ ریاست اور معاشرہ لاقانونیت کے ایسے کلچر میں پھنس جاتا ہے جس سے نکلنے کی کوشش بھی، خود اس کی اپنے بقاہ کے لئے خطرہ بن جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں قانون و لاقانویت کی شادی کی کوشش بلکل اسی طرح ہے جس طرح روشنی اور اندھیرے کے درمیان شادی کی کوشش۔ یہ وہ کوشش ہے جو پاکستان میں ہوتی ری ہے جسکا نتجہ پاکستان کے معاشی، سماجی، سیاسی اور نفسیاتی مسائل کی بہت سی اور وجوہات کے علاوہ یہی کوشش بنیادی اور ماں نظرآتی ہے۔
مثال کے طور پر پولیس افسران یا بیوروکریٹ قانون و انصاف کے مطابق ریاستی نظام کو چلانے کے ذمدار ہیں مگر جب وہ خود کروڑوں روپے دے کر نوکری لیتے ہوں تو یہ ریاست نہیں بلکے ایک مافیہ ہے۔ جو کروڑوں دیکر نوکری لیے رہا ہے یا رہی ہے تو پہلا سوال یہ ہے کےاس کے پاس کروڑوں آئے کہاں سے؟ دوسرا سوال، اگر اس کے پاس کروڑوں تھے تو وہ نوکری کرنے کے لیے کیوں نکل چلا ہے؟
اصل سوال جو اکثرپاکستانی خوف کی وجہ سے گول کر جاتے ہیں وہ یہ ہے کے پاکستان کی پالیسی 1980 کے بعد مذہبی فرقہ پرستی کی بنیاد پر دہشتگردی کا فروغ اور منشیات کی تجارت کے گرد گھومتی نظرآتی ہے اور ریاستی نظام کو اسی لاقانونیت کے فروغ کے لیے مسلسل استعمال کیا جاتا رہا ہے جو اب خود پاکستان کے وجود کے لئے خطرہ بن چکی ہے مگر ایسا کرنے والے ابھی بھی نظام کے اندر موجود ہیں اور اربوں ڈالر زیر زمین چھپائے ہوئے ہیں جو ریاست کے سامنے ایک متبادل ریاست ہے۔ 
اس کا سب بڑا ثبوت پاکستان کے وزیر داخلہ چوھدری نثارعلی خان نے یہ تصدیق کی تھی کے کس طرح دنیا بھر سے منشیات میں سزا یافتہ مجرموں کو دو طرفہ مائدے کے تحت پاکستان لایا گیا کے یہ باقی کی سزا پاکستان میں گذاریں گے لیکن پاکستان لاکر نہ صرف ان کو رہا کیا گیا بلکے کچھ کو تو سفارتی پاسپورٹ بھی دیا گیا تھا۔ ان میں ایک برمی جو کوکو کے نام سے مشہور تھا اسے پاکستانی قرار دیکر تھالینڈ کی جیل سے رہا کروا کر پاکستان لایا گیا تھا اور پاکستان میں اسے سفارتی پاسپورٹ دیکر رہا کردیا گیا تھا۔ جب پاکستان یہ حرکتیں کرتے ہوئے پکڑا گیا تو خود چوھدری نثار علی خان کا بیان ہے جو اس وقت وزیر داخلہ تھے، کے میرے پاس 43 مجرموں میں سے جیل میں صرف 3 موجود ہیں۔ 
مجھے اس کا شک بہت پہلے تھا بلکے جب میں سعودی عرب میں تھا تو اس وقت منشیات کی کہانیاں اخبارات میں چھپتی ریتی تھی۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو روف کلاسرا نے یہ خبر دی تھی کے حکومت آذربیجان سے دو طرفہ مائدے کے ذریعے چار پاکستانیوں کو جو منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں سزا یافتہ ہیں اور آزربیجان کی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں کو پاکستان لانا چاہتی ہے تاکے وہ باقی کی سزا پاکستان کی جیلوں میں گذاریں۔  
مجھے یہ اندازہ تھا کے پاکستانی دنیا کی جیلوں میں بغیر سزا کے تو سڑتے ریتے ہیں لیکن پاکستان ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا مگر منشیات کے سزا یافتہ مجرموں پر اتنا کرم؟ نتجہ یہ ہوا کے اس کے بعد جب چوھدری نثار نے الیکشن لڑا تو وہ قومی اسمبلی کی سیٹ ہار گیا اور پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ جیتا۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کے چوھدری نثار کو ڈیموٹ (تنازل) کیا گیا ہے۔ اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کے پاکستان میں حقیقی اقتدار فوج یا سیولین کے پاس نہیں ہے بلکے یہ تو عوام اور دنیا کے سامنے ریت کی بوری کے طورپر استعمال ہوتے ہیں۔ اقتدار کی اصل طاقت منشیات کے عالمی نیٹ ورک کے پاس ہے جس کی ایک سیاسی تاریخ بھی ہے جس میں جانے کا اس تحریر کی اس وقت ضرورت نہیں ہے۔ میری یہ دینتدارنہ رائے ہے کے محترم عمران خان صاحب کی پارٹی کو بھی اقتدار میں لانے میں بڑا کرداراسی مافیہ کے اپریشن کے تحفظ کی ضرورت تھا۔ پی ٹی آئی کو میں نے 1997/98میں بنتے ہوئے بیرونی دنیا بڑا قریب سے دیکھا ہے اور مجھے اس کا پورا علم تھا کے اس کے پرچم تلے کن لوگوں کو جمع کیا جارہا ہے اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ 
میں نے یہ تفصیل اس لیے بیان کی ہے کے پاکستان میں سیاسی مفاد کے لیے ایک طرف جعلی پروپیگنڈا ہوتا رہا ہےجس کا پہلا نشانہ سیاست دان بنتے تھے اور اس کی مثال زردار اور نواز کے نام ہیں جن کو چوک و چورائے پر چور چور کے نعرے کی شکل دی گئی تھی اور میری رائے میں چونکے ایسے سیاستدان اس خفیہ نیٹ ورک کے کل پرزے بنے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے انکا جینا ان پر تنگ کردیا جاتا تھا۔ لہذا نواز شریف کے پوسٹر پی ٹی آئی کے نام سے پھاڑے جانے کے جرائم ہوں یا یہ خبر کے پنکی پیرنی کی ملاقات اسد قیصر سے طے ہوچک ہے، مجھے ابھی تک منشیات کے داہرے کے گرد ہی ہر چیز سفر کرتی نظرآرہی ہے۔ طاقت کا محور ابھی تک منشیات مافیہ کا نیٹ ورک ہی ہے تب ہی تو پاکستان کی فوج کا چیف بھی اس کے نشانے سے نہیں بچ سکتا۔ 
لہذا جب تک پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوگی، لوگوں کو اپنے گھروں سے اٹھاکر منشیات مافیہ کے خرکار کیمپوں میں لیجاکر قتل کرنا بند نہیں کیا جایگا، لالچ و خوف کے مذہبی اور ریاستی کلچر کی جگہ قانون و انصاف کا کلچر عام نہیں ہوتا، پاکستان کا جعلی امیج بلڈنگ اور تبائی کی طرف سفرمسلسل جاری ریگا۔ 

 

No comments: