Saturday, November 12, 2022

Karachi to Sukkur Bullet Train Project #Karachi #Sukkur #Pakistan #BulletTrain




پاکستان کے وجود کے اسباب بہت سارے ہیں۔ بہت ساری قوتوں کے مفادات اس سے جڑے ہوئے تھے۔ ان قوتوں میں سب سے نمایا خود برطانیہ تھا۔ چونکہ برطانیہ نے اپنے نوآبادیاتی نظام کو بچانہ تھا جس کے لیے سب سے بڑا خطرہ بالشوک انقلاب بن کر ابھرا تھا جس نے عوام کے حق آزادی اور قوموں کے حق 
خود اختیاری کو تسلیم کیا تھا۔
 
ھندوستان کی آبادی کے درمیان مذہبی تفریق اور نفرت کو بڑھانہ بلخصوص دو بڑے مذہبی طبقوں یعنی ھندوں اور مسلمانوں کے درمیان کی نفرت، برطانوی راج کے اقتدار کو بچانے اور جاری رکھنے والی سوچ کے نزدیک یہ حکمت عملی امید کی ایک کرن تھی۔
 
میری رائے میں یہی وجہ تھی کے جب آزادی کی تحریک بڑھانا شروع ہوئی اور نتجے کے طور پر برطانوی پارلیمنٹ نے 1935کا آزادی ایکٹ پاس کیا تھا تو پھر 1937 میں بشتون علاقوں کے علاوہ  پورے ھندوستان کے لیے شریعت ایکٹ پاس کیا گیا تاکے سماجی طور پر مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے والی قوتوں کو کامیابی نہ ملےاور اس کا لازمی نتجہ مذہبی نفرت کی شدت بڑھے گی جس کا نتجہ اس سماجی فکر کو فتح نصیب ہوگی کے ایسے حالات میں تیسرے فریق کی موجودگی لازمی ہے ورنہ یہ دو طبقے مذہبی نفرت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ آمن سے نہیں رہ سکتے۔
 
اس سیاسی  حکمت عملی نے کچھ نہ کچھ کام تو کیا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ نے برطانیہ کو صاف جواب دے دیا کے وہ ھندوستان کو مزید نوآبادی رکھنے کی برطانیہ کی پالیسی کی نہ حمایت کرسکتا ہے نہ ہی مدد تو پھر دو ریاستی حل نکالا گیا جو بھی پرآمن کے بجائے قتل عام پر منتج ہوا تھا۔ 

اسی مذہبی نفرت نے ایک طرف تقسیم کے وقت پڑوسی کو پڑوسی کا خون بہایا اورلاکھوں معصوم لوگ قتل ہوئے اور  لاکھوں اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے اور میں خود جو اس تقسیم کے بہت بعد پیدا ہوا تھا تو اس نفرت اور تقسیم کی  سیاست کی مختالف شکلیں پاکستان میں بھی دیکھتا رہا ہوں۔ مثلا" احمدی اور مسلمانوں کا جھگڑا، شعیہ سنی جھگڑا، کراچی میں مہاجر ورسس  پنجابی+ پشتون لڑائی یا بریلوی دیوبندی 
نفرت اور کفر کے فتوے۔

اس کا نتجہ یہ ہوا کے ھندوستان کی طرح پاکستان کو بھی برطانیہ ایک منظم سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی نظام دیکر آیا تھا، مگر پاکستان اسے چھوڑ کر دوبارا مذہبی یوٹوپیا کی تصوراتی نوآبادیاتی فکر کے زیر اثر قبائلی نظام کو گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے ملٹی کلچرل شہری آبادیوں پر مسلط کر کے بہتر نتائج کی توقع کرتا رہا ہے۔ آج پاکستان میں فرد کے حقوق اس کے اپنے نہیں بلکے اس کی فیملی کے ساتھ نتھی کرکے دیکھے جاتے ہیں۔ خاوند نے بیوی کو قتل کردیا تو بیٹے ماں کے قتل میں باپ کو مافی دے دیگا۔ کیا ایسا معاشرہ زیادہ دیر زندہ رہ سکتا ہے؟
 
میں نے یہ مختصر تبصرہ عبدالرحمن صاحب کے ولاگ پر اس لیے کیا ہے کے ایک تو انہوں نے کہا ہے کے کراچی پورے سندھ کو کھلاتا ہے اور دوسرا یہ کے اس پروجیکٹ سے %55 کرپشن میں چلا جایگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کے سماج کو پتہ ہے 55% کرپشن میں چلا جاتا ہے۔
 
کیا کرپشن کا خاطمہ معاشرے کی ذمداری نہیں ہے؟ کیا گاڑیاں یا جہاز اس لیے نہ بنائے جایں کے ان سے ایکسیڈنٹ ہوکر لوگ مر جاینگے؟ کیا کرپشن کے خاتمہ پر پاکستان کے تعلیم اداروں میں کوئی تعلیم و تربیت کا نظام ہے؟ ماں کی گود سے بچی کے سر دوپٹہ اور بچے کو قران پڑھانے سے انہیں کلچر میں یک رخہ تو بنایا جاسکتا ہے لیکن سائنسی شعور، فکر اور اپروچ سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اگر کرپشن ہے تو اس کو روکنے کا حل کیا ہے؟
 
 کیا مبہم بیان اور نعرے بازی کسی بیماری کا کبھی حل رہا ہے؟ کیا کرپشن اگر پاکستان کے معاشرے کی ایک بڑی بیماری ہے تو اس کے سائنسی حل پر معاشرے کی کوئی تعلیم و تربیت ہوئی 
یا یہ کے جذباتی مذہبی نعرے سماجی مسائل کا حل ہیں؟

 کیا سیاسی مقاصد کے لیے مبہم اندار میں کرپشن کے خلاف نعرے پاکستان کا سیاس ٹریڈ مارک نہیں بن چکا ہے؟ کیا اس کی  سب سے بڑی مثال عمران خان نہیں ہے؟ کیا پاکستان سکیورٹی اسٹبلشمنٹ نے پاکستان میں ادارہ جاتی کرپشن کو نہ صرف متعارف کرایا بلکے لاقانونیت، انتہاء پسندی، مذہبی تشدد اور کرائم کے فروغ کو ریاستی پالیسی کا اہم حصہ اور سٹیٹ سکرٹ نہیں بنایا ہوا تھا/ہے؟ کیا اسی اسٹیٹ سکرٹ کو دنیا سے چھپانے کے لیے سیاستدانوں پرنام نہاد کرپشن کے الزامات لگاکر بدنام کرنے کا رواج 1990 سے نہیں ہے تاکے دنیا کی توجہ اصل کی طرف نہ جاسکے؟
جہادی تنظیمیں، ان کی دہشتگردی کی سیاست اور منشیات کی تجارت ریاست کی خفیہ پالیسی کا حصہ 1980 سے بنائی گئی  تھی جو نہ صرف اب تک جاری ہے بلکے انتہائی پچیدہ شکل اختیار کرچکی ہے جس کا نتجہ یہ ہوا کے اب خود پاکستان اپنی بقاء اور  فوج کو اپنی بقاء کی فکر ہوچکی ہے۔ اس کی ایک مثال دنیا بھر کے ممالک سے پاکستان نے دو طرفہ معائدے کی بنیاد پراُن سارے مجرموں کو باقی سزا پاکستان میں کاٹنے کے وعدے پر پاکستان لایا تھا لیکن پاکستان لاکر سب کو چھوڑ دیا۔ ان میں ایک برمی شہری بھی تھا جو بنکاک کے جیل میں منشیات اسمگلنگ کے جرم میں سزا کاٹ رہا تھا اسے پاکستان نے اپنا شہری ظاہر کرکے پاکستان لاکر نہ صرف چھوڑ دیا  بلکے اسے سفارتی پاسپورٹ دیکر چھوڑا جسکا نام میڈیہ کے مطابق "کوکو" بتایا گیا تھا۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جو میرے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔

جہادی پالیسی اور منشیات کی تجارت ریاستی اور بین الاقوامی طور پر غیر قانونی ہےاور ریاست قانون کے مطابق اپریٹ کرتی ہے۔ اگر ریاست خود لاقانونیت کے لیے روم چھوڑ دیگی تو ریاست کا خود وجود خطرے میں پڑھ جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے ولاگرز اور قلمکار آدھی بات لکھتے یا بولتے ہیں پوری نہیں جس کا سبب مسائل حل ہونے کے بجائے اور پچیدہ ہوجاتے  ہیں۔ اسی صورت حال سے پاکستان دوچار کے۔
 
کراچی کو اس نقطہ نظر سے پیش کرنا کے وہ پورے سندھ کو کھلاتا ہے لیکن یہ نہ بتانا کے کیسے تو اس کے پیچھے بھی نوآبادتی سیاست کا عنصراور سوچ غالب نظر آتی ہے۔ کراچی سندھ کا دارلحکومت ہے۔ کچھ سال قبل پورے سعودی عرب کی اکانومی لندن شہر کے برابر تھی۔ تو کیا لندن شہر برطانیہ یا انگلینڈ کو کھلاتا ہے جہاں کا میر ایک رنگدار انگلش ہے؟

 جس طرح برطانیہ ھندوں مسلم لڑانے کا کارڈ استعمال کرتا تھا؛ انڈیا کشمیر میں جموں ورسس کشمیر یا ھندو ورسس مسلمان کارڈ استعمال کرتا رہا ہے اسی طرح پاکستان کی مرکزی حکومت تاریخی طور پر کراچی کے مہاجر جن کی مقامی شناخت ھندستانی تھی کو سندھیوں کے قومی حقوق کوغصب کرنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ عبدالراحمن صاحب کی سوچ بھی جو ان کے ولاگ سے جھلکتی ہے اسی مرکزی حکومت کی سوچ کے زیراثر ہے جو جدید عہد کی ضرورتوں کا حل نہں بلکے نو آبادیاتی سوچ کی ترجمان اور نوابادیاتی نظام کی ضرورت ہے۔ 

No comments: