Sunday, December 26, 2021

آج کی سب سے بڑی خبر: "یہ عقیدہ رکھنا کے اللہ ہر جگہ موجود ہے - کفر ہے ۔" اب یہ پتہ چلا کے اللہ ہر جگہ موجود نہیں بلکے محدود حد کے اندر بند ہے۔ سورہ نور ایت 35 سورہ ق ایت 16 کی تردید ہے۔ آج کا اسلام فیک اسلام۔




جدہ سے نور ٹی وی نے مولویوں کا ایک فتوہ نشر کیا ہے کہ جولوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کے اللہ ہر جگہ موجود اور وہ حاضر و ناضر ہے وہ لوگ کافر ہیں۔

محمد عاقل جو نور ٹی وی جدہ سے مذہبی معملات پر کال کرنے والوں کو جواب دیتے ہیں، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں عبدالعزیز بن باز جو ایک دور میں سعودی عرب کا شیخ السلام تھا کی آواز میں جواب دیا  کے جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کے اللہ حاضر و ناضر ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والے لوگ کافر ہیں۔ یہ دلیل کسی قران کی ایت کی بنیاد پر نہیں اور نہ ہی اسلام کے پہلے فراڈ لٹریچر سے دی گئی ہے جسے خلفیہ متوکل کے بعد سنہ کے نام سے اسلام میں داخل کرکے قران کو مسخ کیا گیا اور اسلام کو یہودیوں کے ربانکل راستے پر ڈالا گیا تھا جہاں سے اسلام کا تارِیخی سفر تنازل کی طرف مڑتا ہے۔ 
ہمارے مولویوں کا فراڈ تاریخی ہے اور صدیوں سے جاری ہے لیکن عوام کو اس حقیقت سے کبھی واقف نہیں ہونے دیا گیا اور ہمیشہ توہین مذہب کے رواج کے سبب ان مولویوں کے خرفات کو تحفظ ملتا رہا ہے۔ آج یہ مولوی اپنے خرفات کو فتوہ قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سنیوں میں کوئی فتوہ نہیں ہے۔  فتواہ صرف شیعہ امامیہ میں ہے اور ان کے مرجی فتواہ دے سکتے ہیں۔ شیعہ امامیہ نے اسلام کے چار سو سال بعد اجتہاد کو کھولا تھا جب کے چار سو سال بعد سنیوں نے اجتہاد کو بند کردیا تھا۔ سنیوں میں کسی مسلے پر اختلاف کا فیصلہ کورٹ کرتا ہے اور کورٹ کا فیصلہ مانا جاتا ہے نہ کے فتواہ۔ اگر فتواہ دینے والے حنبلی فقہ کے پیروکار ہیں تو چار سو سال بعد کی بندش چاروں پر لگتی مگر ایک طرف امام کی تھیوری فراڈ اور دوسری یہ 
 کے حنبلی سکول کو مانتے ہیں دوسرا فراڈ ہے۔ کیا مکہ، شام ، بصرا اور قاہرہ کے جیورسٹ امام نہیں تھے؟ ان میں سے تو بہت سارے شافعی اور مالک سے بھی سنیر تھے۔ بات دراصل یہ ہے محمد ابن عبدالوھاب فقہ کو نہیں مانتے تھے اور انہوں نے اپنا فقہ دینے کی کوشش کی مگر دے نہ سکا اور جب سعودی حکومت دوسری بار حجاز کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں 1924 میں کامیاب ہوئی تو وہ الحدیث کہلاتے تھے لیکن جب نظام چلانا پڑا تو پتہ چلا کے قران و سنت نظام نہیں ہے  عبارت ہے اور عبارت سے سماجی نظام نہیں چلا کرتے بلکے سماجی نظام چلانے کے لیے پوری تفصیل چاہے ہوتی جو عملی تو پر کام کر سکے تب انہوں نے حنبلی سکول اختیار کیا جس نے یہ تھیوری تخلیق کی تھی کے سنہ اور قران میں تضاد ہو تو سنہ قران کو منسوق کر دے گے۔ یعنی مخلوق اپنے خالق کو منسوخ کردیگی۔ اس تھیوری کو نوی صدی کے فلسفی ابوالحسن العشراتی نے تبدیل کیا کے سنہ اور قران میں تضاد کا مطلب سنہ منسوخ ہوجاتی ہے نہ کے قران۔ اب یہ نیا فتواہ جو قران کی بہت ساری ایات کو منسوق کرتا ہے۔ 
 سورہ نور ایت 35 بتاتی ہے کے اللہ کیا ہے؟ اللہ زمین اور آسمان میں نور ہے۔ یعنی روشنی ہے۔ کیا باتھ روم میں روشنی نہیں ہوتی؟ جہاں روشنی ہوتی ہے وہاں اندھیرہ نہیں ہوتا اور جہاں اندھیرہ ہوتا ہے وہاں روشنی نہیں ہوتی۔ کیا یہ فتواہ اور یہ   سوچ قران کی اس ایت کی نفی نہیں کرتی؟ سورہ ق ایت 16اللہ کو انسان کی شہے رگ سے بھی زیادہ قریب قرار دیتی ہے توکیا یہ نہام نہاد فتواہ اس آیت کی نفی نہیں کرتا؟
آج کا ممبر و محراب گمرائی، جاہلت، فتنہ، فرقہ پرستی، بچوں،  عورتوں اور کمزورں/اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈے کا مرکز اور بدی کا سرچشمہ بن چکے ہیں۔ افغانستان کے خوارجی اور دہشت گرد کفار نے بندوق کے زور پر افغان عوام کو غلام بنایا ہوا ہے، خواتین کو لانڈیاں اور دہشت کا بازار گرم ہے۔ یہ بدی اور کفر بھی تو پاکستان کی انہی مساجد سے نکلا ہے جو آخری نبی کے نام کا ٹیگ لگا کر ابوجہل کی اولاد کی فصل تیار کرتے ہیں اور یہی کچھ دوسرے مذاہب بلخصوص ھندوازم کے ساتھ ہوچکا ہے۔ وہاں پر بھی مندرانسان کو انسان کے بجائے شیطان بناکر فتنہ، نفرت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور معصوم انسانوں کو مذہب کے نام پر قتل کرانے پرلگا چکا ہے۔ ایسی مسجدوں اور مندورں کو آگ لگا دینی چاہے جو انسانوں کو فسطائیت کی طرف لیجانے کا کردار ادا کرتے ہوں اور سماج میں محبت و آمن کے بجائے نفرت  کے بیج بوتے اور جاہلت کو فرورغ دیتے ہوں۔  

No comments: