حدیث اور قران

قران (2:282) میں دو انسانوں کے درمیان لین دین کو تحریری شکل دینے پر زور دے رہا ہے جس کا مطلب یہ  ہے کہ قران چیزوں کو فطرت اور ساہنس کی آنکھ سے دیکھتا ہے نہ کے سنی سنائی بات یا ایک شخص یا چند اشخاص جو دعواہ کریں اور اس کو مان لیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قران، ثبوت کا جو معیار مقرر کرتا ہے، حدیث لٹریچر اس پر پورا نہیں اترتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان لین دین کے ثبوت کا معیارتو تحریر کی ضرورت ہو اور نبی سے منسوب بات کو جس کو پوری انسانیت کے لیے معیار بناکر پیش کیا جائے اس کو بغیر تحریر کے چھوڑ دیا جائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ دو سو سال بعد جب نہ صرف نبی کے ساتھی جاچکے ہوں بلکے دوسری نسل بھی گزر چکی ہو تو پھر ان کے نام سے کہانیوں کو سچ مانا جاسکتا ہے؟ یقینا" یہ قران کے اصول کے خلاف ہے۔ ہاں حدیث لٹریچر کو تاریخ تسلیم کیا جاسکتا ہے جو ہر وقت کے اپنے حالات کا ایک عکس ہوتا ہے مگر اس کو نہ ہی نبی اور نہ ہی نبی کے ساتھیوں کے ساتھ منسوب سچی کہانی قبول کیا جاسکتا ہے۔ قانون، انصاف، سیاست، تہذیب و معشیت سماجی حقیقت ہے نہ کہ عقیدہ۔ ان کا تعلق ٹھوس ثبوتوں پر ہوتا ہے۔  




مسلمانوں کا اکثر رویہ عقیدے کو مطلق شکل میں دیکھنا بلکہ ان کے نزدیک اسلام ایک عقیدے کا نام اور عقیدہ تبدیل کرنے اور کرانے کی ہی ایک تحریک تھی جس کے سبب مسلم معاشرہ جمود اور عقیدہ پرستی کا شکار ہوتا رہا ہے۔ قران کی آیات (11:118) اور (10:99) نہ صرف لوگوں کے عقائد کو تبدیل کرنے سے روکتی ہیں بلکہ نبی کو بھی اس سے روکا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ قران فطرت کے قوانین کی بالادستی کا اعلان کرتا ہے نہ کے فوک الفطرہ۔  قران کے ذریعے اللہ خود کہے رہا کہ اگر میں سب لوگوں کو ایک ہی عقیدے کا بنالیتا تو پھر بھی وہ اختلاف کرتے۔ کیوں؟ اس لیے ہر چیز فطرت کے قوانین کے تابعے ہے اور اختلاف انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہر چیز زمین کی طرف ہی گرے گی اس لے کے کشش ثقل ہے جسے ہم قانون فطرت کہتے ہیں۔ کشش ثقل تو ہمشہ سے تھی مگر یہ نیوٹن تھا جس کے دماغ نے اس وقت سوچنا شروع کیا جب ایک سیب اس کے سامنے گرا۔ کہ یہ سیب اُپر کیوں نہیں گیا نیچے ہی کیوں آیا ہے؟ یہ سچی کہانی ہے۔ اس کے بعد انسانوں نے فطرت کے اس قانون کو دیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش شروع کردی اور آخرکار اس سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہوا اور اس کا نام کشش ثقل رکھا اور جہاز اڑانے شروع کردیے۔ 
اسی طرح جب ہم  قران (30:22) کو پڑھتے ہیں تو وہ زمین و اسمان کی تخلیق اور اس کا مختالف نو ہونے اور انسانی سماج میں زبان،  عقیدہ، رنگ، نسل اور جنس کے فرق کو علم والوں کے لیے نشانیاں قرار دیکر ڈہیورسٹی (diversity) کو سلیبریٹ (celebrate) کر رہا ہے نہ کہ نفرت۔  اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے رنگ، نسل، زبان، عقیدہ اور جنس کے فرق پر نفرت قران کے خلاف ہے۔ اس قرانی حقیقت کے مدمقابل اس وقت ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر مسجد میں دوسرے مذہب، عقیدے، فرقے، جنس اور مختلف لگنے والے انسانوں سے نہ صرف نفرت کی جاتی ہے بلکہ ان کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا شکار دوسرے عقیدے اور فرقے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ خواتین اپنے لباس کے سبب اور لکھنے پڑھنے والے اپنے نقطہ نظرکے سبب ٹارگٹ بنتے ہیں۔  
لہذا نبیوں کی تاریخ جو نبی آخرالززماں پر منتج ہوتی ہے ایک سماجی، سیاسی، تہذیبی اور فکری تحریک تھی جس نے معاشرے میں ریفارم اپنے وقت اور جگہ کے مطابق لائی تھی اور اسی زاویہ نطر سے اس کو دیکھنا اور بچوں کو تعلیم دینی ہوگی نہ کہ اس کو ایک عقیدہ پرستی کی تاریخ بناکر پیش کیا جائے۔ اسلام فکری آزادی کا بہت بعد تک علمبردار رہاہے اور اس کا تیزی سے پھیلنے کا سبب ہی اس کا دنیا کو دیکھنے کا انداز ساہنسی اور دنیاوی تھا نہ کہ فوک الفطرہ کی عقیدہ پرستی کے خول میں بند ہوکر جو بعد میں اسلامی معاشرے پر غالب آیا ہے اور اس وقت تک اپنی جاہلت کے جوہر دیکھا رہاہے۔ اس جاہلت کو مسجدوں، مدرسوں مذہبی سیاسی پارٹیوں کے ذریعے پھیلایا جارہا ہے جس سے مسلم معاشرہ مسلسل زوال پزیر ہے اور تحقیق و تخلیق نہ ہونے کے برابر رہی گئی ہے۔

جو عربی یا انگریزی نہیں سمجھ سکتے ان کے لیے قران کی آیات 11:118، 10:99 اور 30:22 کا اردو ترجمہ نیچے دیاجاتا ہے۔



No comments: