Sunday, November 7, 2021

معاشرے نہ جعلی سیاسی پروپیگنڈے پر چلتے ہیں اور نہ ہی عقائد کے تصورات کی جنت تخلیق کرنے سے۔ مغرب اور پاکستان کا موازنہ کرنا دن اور رات کا موازنہ کرنا ہے۔ #پاکستان #مہنگائی #یوکے #یوایس



کیا پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو مسلسل گمراہ کرنے سے معاشی، سیاسی، ثقافتی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے یا یہ کے اس قسم کا پروپیگنڈا کرنے والوں کو عوام کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں ہوتا بلکے وہ عوام کے دکھ درد کے خلاف آواز اٹھا کر اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کررہے ہوتے ہیں؟
مغرب میں جب ہم پیٹرول کی قیمت کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے عوام کے لیے متبادل پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ہوتا ہے۔ مغرب کی طرز کا منظم پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام پاکستان کیا تیسری دنیا کے ممالک میں بہت کم ہے۔
مغرب میں کم آمدنی والوں کو گھر کے کرائے میں ریاست حصہ دیتی ہے۔ پچاس سال سے اُپر شہریوں سے بس اور ریل کا کرایہ مقامی طور پر نہیں لیا جاتا۔ یوک میں ہلتھ سروس فری ہے۔ ساٹھ سال سے اُپر شہریوں سے ادویات میں بھی ایک پائی نہیں لی جاتی اور عام پبلک سے جو ساٹھ سال سے نیچے ہوں صرف پانچ پونڈ ایک پرسکرپشن کے ایک آٹیم کی لی جاتی ہے اوراگر تین آٹیم ہونگےتو پوری پرسکرپشن کے پندرہ پونڈ لئے جاتے نہ کے ادویات جو قیمت خرید ہے۔ 
میں نے کویڈ 19 کی بیماری کے سبب تین دفحہ ایمبولنس طلب کی تھی، دو دفحہ ہسپتال میں داخل رہا اور پہلی بار ہسپتال نہیں گیا لیکن ہمارے ہاں ایمبولنس کے ساتھ ایک یا دو میڈیک پورے نظام سے لیس ہوتے ہیں جو مریض کو اس کے گھر میں بلڈ پریشر، شگور، ای سی جی ٹسٹ کرلیتے ہیں یہ جاننے کے لیے کے مریض کو ہسپتال میں لیجانہ ضروری ہے یا نہیں۔ ہر بار میری ایمولینس پندرہ یا بیس منٹ کے اندر میرے گھر پہنچ گئی تھی۔ ایک عورت جو اپنے آپکو برٹش پاکستانی کہتی تھی اپنے انٹرویو میں کہے رہی تھی کے پانچ پانچ گھنٹے ایمولینس نہیں آتی؟ مجھے نہیں پتہ کے وہ کون سے یوکے میں ریتی ہے؟ اگر ایمبولینس خالی نہ ہو تو یوکے کی ہیلتھ سروس مریض کو لانے اور لیجانے کے لئے ٹیکسی کا بندوبست کرتی ہے۔ 
پہلا بچہ پیدا ہونے پر یوکے میں 21.15 پونڈ ہر ہفتہ ملتے ہیں۔ دوسرے بچے کی پیداہش پر میرے خیال میں  14 پونڈ ہیں۔ یہی اصول پورے یورپ اور نارتھ امریکہ میں ہے۔ ان معاشروں میں عوام سے ٹیکس لیا جاتا ہے جو واپس غریب عوام پر خرچ ہوتا ہے نہ کے امیروں پر جس طرح پاکستان میں ہوتا ہے۔ 
پاکستان میں غریبوں کو کچھ نہیں ملتا جب کے ٹاپ لوگوں کو ریاست کے خرچے پر سب کچھ فری ملتا ہے جس میں پلاٹ بھی دیئے جاتے ہیں جس سے ان کو باقاعدہ سرمایادار بنایا جاتا ہے۔ کیا ان کی آمدنی اس قابل نہیں ہوتی کے وہ اپنے بل خود پے کرسکیں؟ کیا یہ پالیسی امیر کو اور امیرتر اور غریب کو اور غریب ترنہیں بناتی؟
لہذا پاکستان کا جاسوسی نظام جرائم کے مراکز کا کھوج لگا کر جرائم کو جڑ سے ختم کرنے کے بجائے تاکے معاشرہ جرائم سے پاک اور پرامن ہو تو سرمایا کاری ہوسکے اور غربت دور کرنے کے حالات پیدا ہوں، وہ دنیا بھر میں اپنے نیٹ ورک کو سیاسی پروپیگنڈے اور جرائم کے فروغ کے لیے استعمال کرتے نظر آتے ہیں جس کا نتجہ پاکستانی سماج آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی سمت جاتا رہا اور آج پاکستان کے ساٹھ فیصد عوام غربت کی لیکیر سے نیچے رینے پر مجبور ہیں۔ 
کیا افغانستان میں نیٹو کے ساتھ تعاون کو پاکستانی معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا؟ کیا جب امریکہ کے ساتھ سمجھوتا کیا تھا تو دہشتگردوں کو ساتھ شامل کرکے سمجھوتا کرنا ممکن نہیں تھا تاکے افغانستان اور پاکستان میں امن ہوتا اور دنیا کا سرمایہ اور امیر ملکوں کےلوگ پاکستان اور افغانستان کا رخ کرتے؟ کیا ایک طرف نیٹو سے تعاون اور دوسری طرف دہشتگردی کا فروغ اچھا فیصلہ تھا؟ کیا اس کے پیچھے منشیات کی تجارت اور کچھ کا ارب پتی بنا تھا جبکے ایسی عوام دشمن پالیسیوں سے معاشرے کو تبائی سے دوچار 
کرنا محب الوطنی تھی؟
ملکوں کے حکمرانوں کے کام جو شہریوں کے لیے ہوتے ہیں خود بولتے ہیں ان کو نہ کسی پروپیگنڈے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی جمہوری معاشروں کے ریاستی نظام میں وزیر اطلاعات ہوتا ہے۔ 

No comments: