کیا اسلام میں ناچ گانا حرام ہے؟
یہ وڈیو کشمیری شادی کا ہے جس میں میوزک اور گانے پر خواتین ناچ رہی ہیں۔ اسے یوٹیوب پر لاکھوں نے دیکھا ہے لیکن میں نے یہ بات نوٹ کی کے وڈیو کا ردعمل کا بٹن ڈس ایبل ہے۔ میری رائے میں ہوسکتا ہے کچھ لوگ نے برا بہلا لکھا ہو کے ناچ گانا اسلام میں حرام ہے وغیرہ وغیرہ جس کا نتجہ کمنٹس کے بٹن کو ڈس ایبل کرنا پڑا گیا ہو۔ اسی لیے میں نے اس وڈیو کو اپنے بلاگ پر پوسٹ کے ساتھ اس سوال کو بحث کا حصہ بنایا ہے کے کیا اسلام میں ناچ گانا حرام ہے؟
جو لوگ اس موقف کے عامی ہیں جن میں ہمارے علما کی ایک بڑی اکثریت اور انتہاء پسند مذہبی گروپس پیش پیش ہیں مگر اس دلیل کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے۔
قران کی تعبیر و تشریع کا جو اصول فارمیشن پریڈ جو دوسو سال سے چار سو سال کا عرصہ ہے یہ طے ہوا تھا کے اسلام میں ہر چیز حلال ہے تاوقت کے قران واضح طور پر کسی چیز کو حرام قرار نہ دیتا ہو۔ مثال کے طور پر شادی اور جنسی تعلقات کی سورہ نساء آیات 23 اور24 ہیں جن میں حکم شروع ہی حرمت علیکم سے ہوتا ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کی چیزیں جن کی لسٹ سورہ مائدہ ایت 3 ہے کا حکم بھی لفظ حرمت علیکم سے شروع ہوتا ہے۔ قران کا عام بیان جس سے نہ کوئی حکم نکلتا ہو اور نہ ہی سزا کا تعین ہوتا ہو، کو حکم بنانے کی کوشش سماجی ضرورت کو قران کا غلاف پہنا کر سماجی عمل کو مذہبی بناکر مذہبی طبقات کی بالادستی، انکی عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ انکے سیاسی اورمعاشی مفادات کا تحفظ نظر آتا ہے جو نہ صرف قران اور اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش ہے بلکے عورتوں کے انسانی حقوق اور مقامی معاشرتی عمل اور کلچر کو قران سے متصادم اصول پر غلام بنانے کی کوشش بھی تاریخی طور پر رہی ہے۔
شراب پر پابندی خلیفہ متوکل کے بعد قران و سنت کو جواز بناکر نہیں، بلکے انالجی کی بنیاد پر لگائی گئی تھی جو قران سے متصادم ہے۔ سنگسار کی سزا قران میں نہیں ہے بلکے جنسی تعلقات کی سزا قران میں سورہ نساء اور سورہ نور میں مکمل طور پر موجود ہے۔ سورہ نساء کی ایت 25 کے مطابق اگر ایک عورت جو لانڈی تھی اور آزادی لینے کے بعد شادی کرتی ہے اور شادی کے بعد زنا کی مرتکب ہوتی ہے جس کے چار عینی شائدین ہوں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پنیٹریشن ہوتے ہوئے دیکھی ہو تو عام بیوی کی سزا سے آدھی سزا کی حق دار ہوگی۔ کیا سنگسار کی آدھی سزا ہوسکتی ہے؟
عام سزا سو کوڑے ہے جس کی آدھی سزا پچاس کوڑے ہے۔ دراصل قران نے سنگسار کی سزا قبول اس لیے نہیں کی تھی کے اس سزا کو ظالمانہ ہونے کے سبب حضرت عیسی نے منسوخ کردیا تھا اور اسلام نے بھی اسے قبول نہیں کیا جبکے یہ سزا یہودیوں کی مذہبی کتاب توریت اور ھندوں کی مذہبی کتاب منوہ میں موجود ہے۔ اس لیے سنگسار کی سزا بھی خلیفہ متوکل کے بعد حنبلی سکول نے قران سے متصادم ہوتے ہوئے بھی بحال کی جو بغداد میں یہودی مدرسوں کا اثر تھا۔
حجاب/محرم کے لیَے سورہ نور ایات 30 اور31 استعمال کی گئی تھی جبکے سورہ نور ایت 27 سے لیکر 31 تک پراویسی کے تحفظ کی بات ہے۔ مزید یہ کے نور ایت 30 مرد کو اپنی نگایں نیچے رکھنے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی بات کرتی ہے اور اسی طرح نورایت 31 عورت کو اپنی نگایں نیچے رکھنے
اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی بات کرتی ہے۔ اگر چہرے کا پردہ ہوتا تو عورت نگایں کیسے نیچے رکھے گی؟ دوسری اور ایم بات یہ ہے کے شرمگاہ جسم کے کس حصے کو کہا جاتا ہے؟ عورت کے لئے اضافہ صرف اتنا ہے کے وہی ظاہر کرو جسکو ظاہر کرنے کی ضرورت ہے یعنی اپنی چھاتی بھی ڈھانپوں۔ عورت اور مرد کے لباس میں اتنا فرق ہے کے مرد کو شرمگاہ کی حفاظت کی بات ہے جبکے عورتوں کو شرمگاہ کے ساتھ چھاتی کی بھی بات ہے۔ عورت کی چھاتی کی بات اس لیے ہے کے اُس وقت مکہ/مدینے کے کلچر میں عورتیں بچے کو دودھ پلاتے ہوئے اپنی چھاتی نہیں ڈھانپتی تھی جو آج بھی پوری دنیا میں عورت مرد کے درمیان ایک مسلہ موجود ہے۔
لہذا مرد اور عورت کے حجاب میں فرق تصویر کے ذریعے بیان کیا جائے تو یہ تصویر ہے جو آج تیراکی اور کھیلوں میں عورت/مرد پہنتے ہیں۔
بارویں صدی کے جیورسٹ ابن تعمیئی نے سورہ الااحزاب کی ایت 59 کو اسلامی تاریخ میں پہلی بار استعمال کرکے نہ صرف عورت کے جسم کا پردہ بلکے چہرے کے پردے کا جواز بنانے کی کوشش اس طرح کی کے اس ایت کا لفظ "ان یعرفن" تاکے تم پہچانی جاو کو اس طرح بدلا کے "ان یعرفن" کے درمیان "لا" لگاکر "ان لا یعرفن" بنادیا تاکے تم نہ پہچانی جاو۔ ابن تعمیئی کی کتاب جو عورت کے لباس کے بارے میں ہے صفحہ 9 پر الازہر یونیورسٹی کی لائبریری، قاہرہ، مصر میں موجود ہے۔ مزید یہ کے برصغیر کے مولویوں نے لفظ "جلابیبھن" کو چادر بنا دیا اور ترجمہ اپنی چادروں کو چہرے پر ڈالنا بنا دیا جبکے آیت کی عربی میں نہ چادر ہے نہ چہرا۔ مزید یہ کے عرب معاشرے کی عورتوں کا چادر سے کوئی تعلق نہ قبل اسلام تھا نہ اسلام کے بعد تھا۔ عرب معاشرہ شروع سے مرد عورت دونوں اسکارٹ پہنتے ہیں جسے ثوپ کہاجاتا ہے جو یورپ کے قریب ہے۔ چادر ھندوستان اور ایران کے کلچر کا حصہ رہا ہے۔ جلباب اورکوٹ قسم کا لباس تھا جو اپر کلاس کی خواتین پہنتی تھی جس کا سر اور چہرے سے کوئی تعلق نہیں تھا نہ ہے اورجس کا پس منظر سورہ نور ایت 24 ہے۔ چونکے مسلمان عورتوں کو لانڈیاں سمجھ کر جنسی تعلق کے لیے اپروچ کیا گیا تھا جس پر مسلمان عورتوں نے نبی سے شکایت کی تھی جس کے بعد سورہ الااحزاب ایت 59 اتری جو پہچان کے بارے میں تھی اور ہر چیز کی پہچان چہرے سے ہوتی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے قران چہرے کو چھپانے سے منع کرتا ہے۔ اُس وقت کی یہی ضرورت اس ایت کے
اترنے کا سبب بنی تھی۔ جیسا کے میں پہلے اپنے بلاگ میں لکھ چکا ہوں کے ہر معاشرے کی معاشرتی ضروتوں کا ماحول رسم و رواج، اخلاقیات اور قاعدے قانون کا سبب ہوتا ہے جو اپنے وقت اور جغرافیکل ضرورتوں سے باہر نہیں ہوتا اور جب یہ ضرورتیں بدلتی ہیں تو رسم و رواج اور قاعدے قانون کا بدلنا بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔
اس بات سے جو سورہ نور ایت 33 میں بیان ہے اُس وقت کے ماحول کی بھی تصدیق ہوتی ہے "کے اپنی لانڈیوں کو زبردستی جسم فروشی پرمجبور مت کرو اگر وہ پارسائی پسند کرتی ہیں اور خوشی سے نہیں کرنا چاہتی۔" قران سورہ توبہ ایت 71 عورت مرد کو دوست قرار دیتی ہے لیکن لفظ اولیا کا بریلویوں کے علاوہ کسی نے بھی ترجمہ دوست نہیں کیا۔ دوست ترجمہ کرنے سے یہ ایت حجاب/محرم کی جعلسازی کی تھیوری کو زمیں بوس کر دیتی ہے جبکے یہی لفظ سورہ نساء ایت 144 میں ہے اور یہاں پر سب نے ترجمہ "دوست" کیا ہے۔ کیا حجاب/محرم کی تھیوری کی موجودگی میں عورت/مرد کی دوستی ممکن ہے؟ قران کو کیوں عورت مرد کو دوست کیوں قرار دینا پڑا؟ کیا یہ اُس سوچ کا جواب نہیں ہے جو آج بھی موجود ہے کے عورت مرد کی دوستی یا میل ملاپ بہلائی کی ترغیب نہیں دیتا بلکے دوستی اور آزادنہ میل ملاپ جنسی رشتہ استوار کرنے کا ماحول بناتا ہے؟ کیا ماں بیٹا، باپ بیٹی، بہین بھائی، دیور بھابھی عورت مرد نہیں ہیں؟ کیا ہم جو پابندیاں عورت پر لگانا چاہتے اور جس نام نہاد خاندان کی عزت کا بوجھ عورت کے کاندوں پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ مرد کے کاندوں پر کیوں نہیں ڈالتے؟ کیا یہی سوچ ماں بیٹا اور باپ بیٹی کو اکیلا دیکھ کر شک میں مبتلا نہیں ہو جاتی؟ کیا لوگوں کے ذہین کے اندر ماحول کی وجہ سے جو تعصب، خوف، لالچ ہوتا ہے اس کے لیے عورت کی آزادی اور برابر کا انسان ہونے کا حق قربان کیا جاسکتا ہے؟ عورت کو اللہ نے برابر کا انسان پیدا کیا ہے اور ہر بالغ انسان دنیا میں قانون کے سامنے اور آخرت میں اللہ کے سامنے خود جوابدے ہے نہ اس کے رشتہ دار، معاشرہ یا نام نہاد پارسائی کے پرچم بردار۔
اسی لیے اقبال نے کہا تھا، خود نہیں بدلتے قراں کو بدل دیتے ہیں۔
مزید یہ کے واقع افک کی کہانی بھی حجاب/محرم کی تردید کرتی ہے۔ جب حضرت عائشہ واپس آتے ہوئے قافلے سے پیچھے رہ گئی تھی تو دوسرے دن صفوان بن معطل کے ساتھ آئی تھی۔ کیا حجاب/محرم کی موجودگی ٘میں حضرت عائشہ صفوان بن محطل کے ساتھ اکیلی آسکتی تھِی یا یہ کے نبی کی بیوی اگر محرم اور حجاب ہوتا تو خود خلاف ورزی کرسکتی تھی؟ کیا نبی اس کے خلاف ایکشن نہ لیتے؟ اس کے علاوہ جنگ جمل میں حضرت عائشہ اپنی فوج کی قیادت مدینہ سے کرتے ہوئے عراق کے شہر بصرہ کے میدان تک کا سفرکرتی ہیں اور اپنے دماد کی فوج کا مقابلہ اونٹ پر بیٹھ کر میدان جنگ میں اپنی فوج کی کمان کرتی ہیں۔ اگر محرم/حجاب ہوتا تو نبی کی بیوی ایسا نہیں کرسکتی تھی اور مزید یہ کے صحابہ کیسے قبول کرتے؟ کیا جنگ کے دونوں طرف نبی کے صحابہ شریک نہیں تھے؟ اس لیے آج کا اسلام نبی کا نہیں اسلام نہیں بلکے خلیفہ متوکل کے بعد کا اسلام ہے۔
میوزک اور ناچ گانے کے خلاف کوئی قران کی ایک بھی ایت یا حدیث سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اسلام میں میوزک اور ناچ گانا جائز نہیں کی سوچ تاریخی طور پرقبائلی بنیاد پرستی کے سبب مولویوں کے اپنے ذہین کی اختراع ہے۔ مولویوں کے خود ساختہ اسلام کے خلاف میوزک/ناچ گانے کی حمایت میں حدیثیں موجود ہیں۔ میوزک اور ناچ گانا ہر کلچر کی نا صرف بنیاد ہے بلکے قران کا اظہار زیادہ ترنم میں اور کم نثر میں ہے۔ ساز و آواز نہ صرف انسان بلکے ہر جاندار کی روح کی غذا ہے۔ تلاوت اور وجد کا کیا مطلب ہے؟ کیا اسی لیے ساز و آواز کو انسان کی روحانی غذا نہیں قرار دیا جاتا؟
یہ بخاری کی حدیث 3005/1 مشکوۃ اردو ترجمہ کے ساتھ جلد دوم صفحہ 81 پر: "جب میں اپنے خاوند کے گھر لائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو آپ میرے بستر پر تیرے بیٹھنے کی طرح بیٹھ گئے، ہماری کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور ہمارے آباء و اجداد میں سے جو جنگ بدر میں شہید ہوگے تھے، ان کی بہادری کا تذکرہ کرنے لگیں کہ اچانک ان میں سے ایک لڑکی نے شعر کہا 'اور ہم میں وہ نبی ہے جو کل ہونے والی بات جانتا ہے' آپ نے فرمایا یہ چھوڑ دے اور وہی کہہ جو تو پہلے کہہ رہی تھا"۔
کیا یہ حدیث ثبوت نہیں ہے کے لڑکیاں نبی کے لیے گاتی اور میوزک بجاتی تھی اور نبی خود پسند کرتے اور سنتے تھے؟ کیا حدیثوں اور قران کا استعمال ہمارے مذہبی طبقات کے لیے پک اینڈ چوز کا معیار ہے؟ کیا اسی پک اینڈ چوز کو تسلیم کرنے کے سبب اسلام اور مسلمانوں کا کلچر انتہاء پسندی، نفرت اور تشدد کا شکار نہیں ہوا؟ کیا اس مسخ شدہ اسلام کو تسلیم کیا جاسکتا ہے جو انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق سے متصام ہو؟ خواتین کے حقوق غصب کرنے کے نظریات کو فروغ دیتا ہو؟ کیا محرم اور حجاب کی موجودگی میں نبی اور لڑکیوں کے لیے ایسا کرنا ممکن تھا؟ کیا نبی اپنے ہی قانون اور اصول کو خود توڑ سکتے تھے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کے اسلام میں بنیاد پرستی کے رجحان کا سبب بغداد میں جیوش ہردیز فرقے کا اثر تھا جن کے بغداد میں مدرسے تھَے؟ کیا خود حدیث لٹریچر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کے بہت بعد میں آسلام عراق میں بنیاد پرستی کی طرف گیا جو نبی کے اسلام کے خلاف بغاوت تھی۔ اس حدیث سے یہ بات پورے طور پر ثابت ہوجاتی ہے کے گانا اور میوزک بجانا نہ صرف اسلام میں جائز ہے بلکے یہ تو نبی کی سنت ہے۔
No comments:
Post a Comment