جب آپ حدیث کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی بتایں کے حدیث میں خرابی کیا ہے؟ جو مذہب آج ہمارے پاس ہے وہ سنیوں کے نام سے ہو یا شیعہ امامیہ کے نام سے، یہ نبی کا نہیں بلکے دو سو سال بعد عباسی خلیفہ متوکل کے عہد سے شروع ہوتا ہے جس نے حدیث لٹریچر کو اسلام کا حصہ بنایا اور قران کی تعبیر و تشریع حدیث کی روشنی میں ہونا شروع ہوئی اور بغداد میں بیٹھ کر دو سو سال بعد نبی اور صحابہ کے نام سے کہانیاں گھڑی گئی جن کا کوئی تحریری ثبوت نہیں تھا اور یہ عمل قران سورہ بقرہ کی ایت 282 سے بھی متصادم ہے۔ سورہ بقرہ کی ایت 282 عام عوام کو اپنے درمیان لین دین کے ثبوت کے لیے تحریر کو لازمی قرار دیتی ہے اور اگر وہ لکھنا نہیں جانتے تو کاتب کو کہیں کے وہ ان کو لکھ کر دے۔ کاتب انکار نہ کرے چونکے اس کو لکھنا اللہ نے سکھایا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے قران کی عبارت مٹافورک اظہار ہے۔
کیا لوگوں کے لیے قرض کے لین دین کا ثبوت اتنا ایم تھا کے قران ان کو لکھنے کے لیے کہے رہا ہے مگر نبی سے منسوب بات جو آنے والی نسلوں کو قیامت تک رانمائی اورقران کی تعبیروتشریع کرنے کی ضرورت ہو، کو تحریر کے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکے دو سو سال بعد بغداد میں بیٹھ کرکچھ لوگ جو ایک دو نسل پہلے خود زرتش تھے نبی کے نام سے زبانی کہانیاں لکھ کر ایک نئے معاشرتی کلچر کی بنیاد رکھیں گے۔
قران اللہ کا پیغام ہے جو جبرائیل کے ذریعے نبی تک آیا اور نبی نے اپنی زبان اور آواز میں اس کا اظہار کیا جو نبی کی سنت ہے اور نبی نے اسے کاتب وحی سے لکھ وایا۔ سنت کا مطلب پہلے سے موجود راستہ ہوتا ہے اس لیے اسلام کی خود سنت جیوش اور کرسچن مذہبی کہانیاں اور مکہ کا کلچر تھا اور قران اپنے ماحول سے مخاطب تھا۔ قران کی روح ہر عہد کے لیے زندہ ہے نہ کے اسکی لٹرل عبارت۔ مزید یہ کے اس عبارت پر اضافی کہانیاں لکھ کر معاشرے کی فطری نشو نما کو اپائج بنانے کے لیے بنیاد پرست جیوش ربانکل عقائد کی طرف اسلام کو موڑنا تھا جو خلیفہ متوکل کے بعد موڑ دیا گیا تھا اور آج تک مسجد اور مدرسہ اسلام کی اسی فکر کا قیدی ہے اور اسی کو پھیلایا جاتا رہا ہے۔
مولوی صاحب قبرکی حمایت یا مخالفت کی کسی حدیث کی ضرورت نہیں بلکے جو چیز قران میں نہیں ہے اس کو نبی کے نام سے منسوب کرنا قران میں اضافہ یا کمی کرنے کے مترادف ہے اور یہی سب کچھ خلیفہ متوکل کے عہد میں حنبلیوں نے کیا تھا جو اج تک ہو رہا ہے۔ کیا قران سورہ بقرہ ایت 106 سورہ نحل ایت 101 سورہ الرعد ایت 39 کو بنیاد بناکر ناسخ و منسوخ کی تھیوری تخلیق کرکے قران کو منسوخ کرنے کی حنبلیوں کی کوشش نہیں تھی؟ کیا جب حدیث لٹریچر کو اسلام کا حصہ بنایا گیا اور حدیثین قران سے متصادم ہونے لگی توناسخ و منسوخ کی تھیوری کو استعمال کرکے یہ اصول نہیں اپنایا گیا تھا کے اگر قران اور حدیث میں تصادم ہو تو حدیث قران کو منسوخ کردیگی؟ کیا اس اصول کو دباو میں آنے کے بعد کے مخلوق اپنے خالق کو کیسے منسوخ کر سکتی ہے تو ابوالحسن العشری کے عہد میں اس اصول کو تبدیل کیا گیا کے اگر قران اور حدیث میں تصادم ہو تو قران حدیث کو منسوخ کردیگا۔
جب سوال قبر کا آتا ہے تو سب سے پہلے خود مسجد نبوی کے اندر نبی کی اپنی قبر موجود ہے۔ یہ وہ ٹھوس ثبوت ہے جو ہر دوسری چیز جن میں خود قران کو بھی شامل کرکے دیکھا جائے تو بھاری ہے۔ قران کے پہلے نسخے ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ قران کے نسخوں کو جلانے کا سوال بھی موجود ہے۔ قران کاتب وحی لکھتے تھے مگر کاتب وحی کی ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی تحریر موجود نہیں ہے لیکن مسجد نبوی کے اندر نبی کی اپنی قبر ان کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی قبروں کا موجود ہونا وہ ثبوت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
نبی کا گھر مسجد نبوی کے اندر تھا لیکن راستہ باہر سے تھا جس کے 9 بیڈ رومز اور ایک بیٹھک تھی۔ جہاں پر نبی کی قبر ہے یہ حضرت عائشہ کا بیڈ روم تھا۔ کیا یہ نبی کا مزار نہیں ہے جو نبی کے خاندان اور صحابہ نے خود تعمیر کیا تھا؟ کیا ان سب کو اسلام اور قران کی سمجھ نہیں تھی تو اٹھارویں صدی کے بندے کو نجد سے اٹھ کر اسکی سمجھ آگئی جسے ہمفرے نے بنیاد پرست اسلام کے لیے تیار کیا تھا؟
یہ مسجد نبوی میں آپ خود پڑھ سکتے ہیں رسواللہ اس کے اندر نبی کا اپنا مقبرہ ہے جو حضرت عائشہ کا بیڈ روم تھا۔ حضرت عائشہ کے بیڈ روم کو لکڑی کا دروازہ لگا تھا جبکے باقی 8 بیڈ رومز کو دروازے نہیں تھے۔ دروازہ نہ ہونے کے سبب لوگ کچھ پوچھنے کے لیے نبی کی بیویوں کے بیڈ رومز میں چلے جاتے تھے جس کا نتجہ یہ ہوا کے اونٹ کے بالوں سے بنا ہوا رسی نما پردہ ان کے بیڈ رومز کے دروازوں پر لٹکا دیا گیا تھا اور اس کے بعد سورہ الااحزاب ایت 53 اتری تھی کے جب ان سے کچھ پوچھو تو پردے کے پیچھے سے پوچھو یعنی بیڈ رومز میں جانے سے منع کیا گیا تھا۔ مولویوں نے بغداد میں بیٹھ کر دو سو سال بعد دروازے کے پردے کو بنی کی بیویوں کے جسم کا پردہ بنا دیا جو آج تک چل رہا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کے حجاب، محرم، سنگسار کی سزا اور شراب پر پابندی دو سو سال بعد خلیفہ متوکل کے وقت کی بدعات کو اسلام کا حصہ حنبلی سکول نے بنایا تھا جو قران سے متصادم ہے اور یہ قران کو مسخ کرنے کی سب سے بڑی مثال ہے۔
نبی کے والد کا نام عبداللہ تھا جس کا مطلب ہے اللہ کی عبادت کرنے والا۔ نبی کے دادا حضرت عبدالمطلب نے جب ہاتھی والے ابہرا کے ساتھ مذاکرات کئےتو حضرت عبدالمطلب نے اس سے پوچھا کے تم نے میرے دو سو اونٹ اپنے قبضے میں کیوں لئے ہیں؟ ابہرا نے جواب میں کہا کے میں تو تمارا کعبہ گرانے آیا ہوں۔ تمیں اپنے کعبے کی فکر نہیں مگر اپنے اونٹوں کی فکر ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کے کعبہ اللہ کا ہے اور اللہ اس کی حفاظت کریگا۔ اونٹ میرے ہیں جن کا تحفظ میری ذمداری ہے۔ حضور کے دادا نے اسے کعبے کی آمدن سے تیسرا حصہ دینے کی پیش کش کی مگر ابہرا نہیں مانا کے بت پرستوں کے گھر کو گرانا میرا فرض ہے تاکے لوگ اللہ کے گھر جو یمن میں اس نے کرسچنوں کا گرجا تعمیر کیا تھا، میں آکر عبادات کرینگے۔
جب مذاکرات ناکام ہوئے تو حضرت عبدالمطلب نے واپس کعبہ میں جاکر حتیم پر کھڑا ہوکر یہ دعا کی کے اے اللہ یہ گھر تیرا گھر ہے اس کی حفاظت تو ہی کرسکتا ہے۔ اس کے بعد قریش کو کہا کے اپنے تیر اور کمان لیکر پہاڑوں پر چڑ جاو اور مقابلہ کرو۔ ابہرا کو شکست ہوئی، اللہ نے بت پرستوں کا ساتھ دیا اورعیسوی وحی کے علمبردار کا ساتھ نہیں دیا اور پیغبر کے مذہب کو مانے والوں کو شکست ہوئی تھی۔
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کے مکہ پٹرا میں تھا یا یہ کے جب حجاج بن یوسف نے مکہ پر ابن زبیر کی خلافت کے خلاف حملہ کیا تھا تو ابن زبیر حجر اسود کو ساتھ لیکر موجودہ مقام پر چلا گیا تھا جہاں پراس نے موجودہ مکہ کو دوبارا تعمیر کیا تھا جو آرکیلوجیکل ثبوتوں اور قران میں مکہ کی جو تصویر ہے کو بنیاد بناکر کچھ اسکالرز کا دعواہ ہے کےلیکن ابہرا کی کہانی سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کے لوگوں کے کلچرل کی تاریخ کو محفوظ بنایا جاتا ہے نہ کے اسے تباہ کیا جاتا ہے۔ قبر،انسان کی ہڈیاں اور دانت ہمارے اپنے وجود کی تاریخ کا ثبوت ہیں۔ جن علاقوں میں ریگستان ہو اور ریت مسلسل شفٹ کرتا ہو، صبح اور شام کا نقشہ مختلف ہو، تو وہاں پر انسان کا ہر نشان ریت کے نیچے دب جاتا ہے۔ لوگ اپنے پیاروں کو دفنا کر واپس گھر آتے ہیں تو دوسرے دن قبرکا نشان بھی نہیں ہوتا۔ نجد روبہ الخالی کے ریگستان کا حصہ ہے جہاں اب شہر آباد ہوئے ہیں۔ آج سے چالیس پچاس سال قبل ریت شفٹ ہوتا تھا اور صبح شام کا نقشہ مختلف ہوتا تھا۔ اس لیے ریگستان کے کلچر کا اپنا ماحول اور تاریخی ارتقاء ہے۔
مکہ کا کلچر اسلام سے قبل بھی اپنے ارد گرد کے کلچر سے آگے تھا۔ مکہ کے لوگ تاجر تھے۔ تاجر کسان سے سوچ میں بھی آگے ہوتا ہے اور زندگی میں بھی منظم ہوتا ہے۔ اسے ہر شام نفع نقصان کا حساب اور وقت پر کام پر پہنچنا ہوتا ہے۔ جبکے کسان فصل کے بہونے، تیار ہونے اور موسم کے حالات کا انتظار کرتا ہے۔ معاشرتی ماحول کی ضرورتیں ہی انسان کی زندگی اور روئے کی تشکیل کرتی ہیں نہ کے تبلیغ اور مسجدوں کے وعظ یا سیاستدانوں کے بھاشن۔
شراب نہ قران نے حرام قرار دیا ہے نہ ہی نبی کے عہد سے لیکر خلیفہ متوکل کے دور تک حرام قرار دیا گیا تھا۔ حنبلیوں نے سورہ بقرہ کی ایت 219 کے لفظ آثم کا ترجمہ گناہ قرار دیکر گریک فلسفے کے اصول کو امپورٹ کر کے، کے ہرمرد فانی ہے، ذاکر مرد ہے اس لیے ذاکر فانی ہے۔ اس اصول کو قران پر اپلائی کیا کے قران کہتا ہے کے "ہر گناہ حرام ہے اور شراب گنا ہے اس لیے شراب حرام ہے۔" جب کے لفظ آثم منافع کے مدمقابل استعمال ہوا ہے جسکا ترجمہ گناہ اور ثواب نہیں کیا جاسکتا بلکے نفع اور نقصان ہوتا ہے۔ مزید یہ کے رواية حفص عن عاصم قران میں آثم کبیر لکھا ہے جبکے میں نے خود برٹش لابریری میں عبداللہ ابن مسعود کے قران کی عبارت دیکھی ہے جہاں پر آثم کبیر نہیں بلکے آثم کثیر لکھا ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کے ماہرین لسانیات اور ماہرین قانون نے اپنی قانونی اور لغوی ضرورتوں کے مطابق قران کی عبارت کو بھی متاثر کیا ہے۔ قران میں شراب کے پینے کو نہ حرام قرار دیا ہے نہ نبی کے دور میں حرام تھا بلکے اس کو حرام قرار دینے کی بحث امام شافعی اور امام ابو یوسف تک چلتی رہی۔ مولوی صاحب کو یہ بھی علم ہونا چاہے کے چار سو سال بعد جب سنیوں نے اجتہاد بند کیا تھا تو شعیہ امامیہ نے اجتہاد کھولا تھا۔ اس چار سو سال کے عرصے کو فارمیشن پریڈ کہا جاتا تھا۔ اس عرصے میں یہ بنیادی اصول طے ہوا تھا کے ہر چیز حلال ہے تاوقتکے قران نے صاف لفظوں میں "حرمت علیکم"، حرام نہ قرار دیا ہو۔
رشتے اور سیکس کے بارے میں سورہ نساء ایات 23 اور24 ہیں جہاں واضح طور پر لفظ "حرمت علیکم" سے حکم شروع ہوتا ہے اور23 کا حکم 24 میں ایکسٹنڈ ہوکر دوسروں کی بیویاں بھی شامل کرتا ہے لیکن لانڈیوں کے ساتھ سیکس کی اجازت ہے جو مکہ کا کلچر تھا۔ شادی بیاہ اور سیکس کے بارے میں یہی ایات اپریٹنگ ہیں لیکن قران کے عام بیان کی کوئی ایت مولوی اٹھا کر سیاق و سباق سے الگ کرکے اپنےاپنےفرقہ پرستانہ نظریات کے تحفظ کے لیے قران کو مسخ کرنے کی تاریخ تو بہت پرانی ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کی چیزوں میں جو حرام ہیں سورہ المائدہ ایت 3 میں درج ہیں اور حکم اسی طرح شروع ہوتا ہے "حرمت علیکم"۔ کیا اس لسٹ میں شراب شامل ہے؟ نہیں۔ قران نے جس چیز کو حرام قرار دیا اس کے لیے لفظ "حرمت علیکم" لکھا ہے۔ جہاں تک اُس وقت کے کلچر کا سوال ہے تو مکہ اور مدینہ میں جو شراب پی جاتی تھی اسے نبہادہ کہتے تھے جو آنگوروں سے نہیں بنتی تھی بلکے کجھوروں سے بنتی تھی اور مکہ/مدینہ کے کلچرمیں
نبہادہ غذا کا حصہ تھا۔
مولوی صاحب سنی سنائی باتیں کررہے ہیں کے جب انسان نشے کی حالت میں ہوتا ہے تو اسے کچھ نہیں پتہ ہوتا کے وہ کیا کہے رہا ہے یا کررہا ہے۔ یہ گمراہ کن سوچ ہے۔ شراب کے نشے میں بیوی خاوند بھی کم سیکس کرتے ہیں اس لیے کے شراب پینے کے بعد انسان کا جسم سکون کا طلبگار ہوجاتا نہ کے کسی قسم کی سرگرمی۔ اسی لیے پریشان حال لوگ شراب سے اپنے دکھوں کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے سبب وہ الکولک ہوجاتے ہیں۔ نشے کی حالت میں انسان کو ہر چیز کا پتہ ہوتا لیکن اس کے جسم میں طاقت کم ہوجاتی ہے۔
میری دوست جو بلجیم سے آکر لندن میں میرے ساتھ رہتی رہی تھی ہر رات جن کی پوری بوتل پی کر سوتی تھی جس میں چالیس فیصد الکحول ہوتا ہے۔ اس نے نہ عام حالت میں اور نہ ہی نشے کی حالت میں میرے ساتھ سیکس کیا ہے۔ ہم دونوں ایک ہی فلیٹ اور بعض اوقات ایک ہی بیڈ پر سوتے تھے اور میری مرضی بھی تھی لیکن اس نے انکار کردیا تھا۔ جو معاشرے جنسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں ان کو اپنے اردگرد سیکس کے علاوہ دوسری کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔
حضرت عمر پر جب قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کو اٹھاکر گھر لایا گیا تو سب سے پہلے ان کو پینے کے لیے نبہادہ دیا گیا تھا جو ان کے زخموں سے باہر آنے لگا تھا۔ اُس کے بعد ان کو پینے کے لیے دودھ دیا گیا اور وہ بھی زخموں سے باہر آنے لگا تھا۔ کیا اگر شراب حرام ہوتا تو خلیفہ کی فیملی اور صحابہ انکو حرام چیز پینے کے لیے دیتے؟ کیا خلیفہ خود حرام چیز پیتے؟ جلال الدين السيوطي. تاريخ الخلفاء صفحہ 138 پر ملاحظہ کریں۔ قران کی سورہ بقرہ ایت 219 المائدہ ایات 90اور 91 سورہ یوسف ایات 36 اور41 سورہ محمد ایت 15میں لفظ خمر استعمال ہوا ہے جس پر اج تک یہ طے نہ ہوسکا کے یہ لفظ کون سے لوگوں کی زبان یا بولی میں استعمال ہوتا تھا اور نہ ہی اسکا اج تک صیح ترجمہ ہوسکا ہے۔ مکہ اور مدینے کے لوگوں میں یہ لفظ نہیں بولا جاتا تھا۔ اب کچھ اسکالرز نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ لفظ سریک آرمیک سے قران میں آیا ہے۔ مجھے ایک ایت بتا دیں جس میں شراب، جواہ، سود، ناچ گانے، کے بارے میں"حرمت علیکم" لکھا ہو یعنی حرام قرار دیا ہو؟ قران کا عام بیان حکم نہیں ہوتا بلکے آہین سازی کے عمل کو روکنے کے لیے قران کو سورس آف لا قرار دیا گیا جب کے امام آبو حنیفہ نے اپنے چالیس شاگردوں کی آہین سازی کے لیے کیمٹی بنائی تھی لیکن انکو جیل جانا پڑ گیا تھا۔ امام ابوحنیفہ نے یہ تھیوری دی تھی اوروہ صیح تھی کے انسانوں کے درمیان میثاق کی وہی طاقت ہے جو قران کے حکم کی ہے۔
حرمت علیکم قران میں لامکسم ہے۔ کیا لامکسم کے ساتھ سزا نہیں ہوتی؟ کیا کسی عدالت کا فیصلہ جس سے یہ پتہ چلے کے شراب، جواہ، سود، ناچ گانے، حجاب نہ کرنے، محرم نہ قبول کرنے والوں اور والیوں کو سزا دی گئی ہو؟ کیا عدالتیں اور جج نہیں تھے جہاں کیس جاتے تھے اور فیصلے ہوتے تھے؟ عدالتوں کا ریکارڈ ہی بتائے گا کے اس وقت کی سچی کہانی کیا ہے نہ کے عراق میں بیٹھکر فلا نے فلا سے کہا کے میں نے نبی سے یہ کہتے ہوئے سنا تھا۔
کھانے پینے کی جن چیزوں کو حرام قران دیا ہے ان پر کوئی سزا اس لیے نہیں ہے کے کھانا پینا فرد کی ذات سے تعلق رکھتا ہے جس میں دوسرے فرد یا دوسرے کے حقوق متاثر نہیں ہوتے جبکے رشتہ اور سیکس کو جن کے ساتھ حرام قرار دیا ہے اس کی سزا، گواہ سب کچھ سورہ نور اور سورہ نسا میں اتنی تفصیل کے ساتھ موجود ہے کے جس کے لیے کسی حدیث کی کہانی کی ضرورت نہیں۔ اس لیے موجودہ اسلام سیاسی چکر بازی کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس کا مقصد لوگوں کے عقائد کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے جس کی مثال ہم طالبان، داعش اور جہادیوں + مذہبی سیاستی جماعتوں کی سوچ و فکر سے ظاہر و باہر ہے۔
شراب اور قبر دو مختلف چیزیں ہیں اور سعودی عالم کا بیان میرے نزدیک قران کے مطابق ہے لیکن چونکے وہ حنبلی ہے اور حنبلیوں کو دنیا میں پہلی دفحہ انہوں نے ہی 1925کے بعد اپنایا تھا۔ لہذا وہ خلیفہ متوکل کے بعد کی کہانی کو نبی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ثبوت کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔
جس طرح لانڈیوں کے ساتھ سیکس مکہ کا کلچر تھا اور قران نے اسے بحال رکھا تھا اسی طرح نبہادہ بھی مکہ اور مدینہ کے کلچر کا حصہ تھا جو وہاں کا شراب تھا جسے حرام نہیں قرار دیا گیا اور سارے صحابہ نبہادے کا استعمال کرتے تھے۔ جہاں تک قانون کی کلاسیفیکشن جو فقہ کے قانون کی بنیاد ہے، کا تعلق قران سے نہیں بلکے یہ بھی گریک فلسفہ سے لیا گیا جسے ہم اسٹاکک ازم کہتے ہیں جس کے بانی زینوں تھے۔
جس طرح سورہ نحل ایت 67 غذا اور شراب کو ایک ساتھ ملاکر بیان کرتی ہے اور عقل والوں کے لیے اس میں نشانیہ ہیں قراردیتی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے شراب نشہ کم اورغذا کا حصہ زیادہ تھا اور ہے۔ انسان نے جب روٹی اور چاول کھانا بھی نہیں سیکھا تھا تو اس وقت بھی انسان کا گذارہ پھلوں اور شراب پر ہوتا تھا۔ شراب نے انسانی تہذیب کو منظم ہونا سیکھایا ہے۔ شراب ہی نے تہذیبوں کے اندر قانون سازی کے روجحان کو فروغ دیا ہے۔
ہر ایک خود پڑھ سکتا ہے کے جو چیزیں کھانے پینےکی ہیں قران نے لفظ "حرمت علیکم" صاف لفظوں میں حرام قرار دیا ہے وہ المائدہ ایت 3 میں لکھا ہے جس میں شراب شامل نہیں ہے۔ اس لیے ہماری دلیل ثبوتوں کی بنیاد پر ہے کے موجودہ اسلام وہ وھابی، سلفی، حدیثی، توحیدی، دیوبندی، تبلیغی، جماعتی، طالبانی ، شعیہ امامیہ جو بھی ہیں وہ مولویوں کے خود ساختہ عقائد ہیں ان کا نبی اور قران سے تعلق نہیں ہے۔ یہ اپنے اپنے فرقے کے سیاسی مقاصد کے لیے قران کی عبارت کو صدیوں سے مشرق سے کھینچ کر مغرب کو لیجانے اور مغرب سے کھینچ شمال کو لیجانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بات عقائد کی نہیں بلکے انسان وہی ہوتا ہے جو اسے ماحول بناتا ہے اور ماحول کا بنا ہوا انسان اپنے تعصبات کا قیدی ہوتا اور اس کے تعصبات کا اظہار عقائد کی شکل میں ہوتا جو دلیل اور ثبوت سے ہمیشہ جھگڑتا رہا ہے۔
رسم و رواج، معاشرتی قدریں اور قاعدے قانون معاشرے کی معاشرتی ضرورتوں کا سبب ہوتے ہیں جو زماں و مکاں کی حدود و قیود سے باہر نہیں ہوتی۔ جب معاشرتی ضرورتیں بدلتی ہیں تو رسم و رواج، معاشرتی قدریں اور قاعدے قانون بھی بدل جاتے ہیں۔ اسی لیے قران کہتا ہے کے ہر عہد کی اپنی کتاب ہوتی ہے۔ قران نے نہیں لکھا کے ریویل یا وحی کی کتاب ہوتی ہے لیکن ترجمہ کرنے والے نے اپنے ذہین کے تعصب کو ترجمہ میں بریکٹ لگا کر اللہ کی تصیح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا آپ اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کے سیاسی مقاصد کے لیے پہلے قران کی عبارت کو بدلنے، مسخ کرنے یا منسوخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تھی لیکن موجودہ عہد میں ترجمہ کرتے ہوئے قران کی عبارت کو مسخ کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ ایک طرف یہ داعواہ کرتے ہیں کے یہ اللہ کا کلام ہے لیکن دوسری طرف اسی کلام اللہ کا ترجمہ کرتے ہوئے اپنی بریکٹ لگا کر اللہ کی تصیح کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment