میری نطر میں پاکستان کی موجودہ صورت حال پر یہ ایک بہترین تجزیہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کے پاکستان کے اُن اداروں کو بدنام کرکے عوام میں بے اثر اور انکی ضرورت کو کم کرنے کی کوشش شروع سے ہی رہی ہے۔ لیکن ان محترم کو اس بات کا علم نہیں کے عوام کی سیاسی طاقت کو تقسیم کرنے کا جو سماجی اور سیاسی حربہ ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے وہ عوام کو نفسیاتی بنیاد پر تقسیم کرنا ہوتا ہے جس کے لیے مذہبی اور قباہلی تعصبات کا ہتھیار کارگر رہا ہے۔ اسلام میں جدید مذہبی سیاست جس پر بہت زیادہ اثر وھابی تحریک کا ہے، جو خوارجییت کی جدید شکل تھی، کی داغ بیل بھی ہمفرے نے محمد ابن عبدالوھاب کو تیار کر کے ہی ڈالی تھی۔ اسی تحریک سے اخوان المسلمین، تبلیغی جماعت اور جماعت اسلام نکلی ہیں۔ سعودی عرب کی ضرورتوں اور خود عبدالعزیر نے جب یہ دیکھا کے یہ مذہبی انتہاء پسندی معاشرے کی سماجی ترقی کے لیے زہر ثابت ہورہی ہے تو اُس نے خود ان اخوانیوں کے خلاف دوبارا جنگ لڑ کر ان کو نیوٹرل کیا تھا۔ لیکن پاکستان کی مذہبی انتہاء پسندی ریاستی پالیسی کی حصہ رہی ہے اور اس کے ساتھ بہت بڑے مفادات جن میں میری نظر میں جرائم کا فروغ بھی جڑا ہوا ہے یا ضیاء کے اقتدار کے بعد جڑ چکا ہے۔
ڈاکٹر اقبال میری نظر میں پوری اسلامی تاریخ کے ایک درجن بڑے دانشوروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے مسلم معاشرے کو سائنسی نظر سے دیکھا اور اسکو آگے کی سمت بڑھانے کی صیح فکر دی۔ اسلام اپنے عہد کی ایک سیکولر، سائنسی اور سماجی تحریک تھی نہ کے عقیدہ پرستی کا کوئی گرہو۔ پاکستان میں بدقسمتی سے اقبال کی فکر پر مودودی کی عینیت پرستی اور موقع پرستی کا غلاف چڑا کر عوام کو گمراہ کیا گیا۔ اقبال اور مودودی دو متضاد پول کے نمائندے تھے۔ سر ان کو تخلیقی ورک کی بنیاد پر ملا تھا جس کا سیاست سے نہ اس وقت کوئی تعلق تھا نہ اب ہے۔ سلمان رشدی کو بھی سر کا خطاب ملا تھا۔ سلمان نے بک آف دی بکرز کا ایواڑ غیر انگش بولنے والا ادیب ہوتے ہوئے بھی جیتا تھا جبکے یہاں کی اسٹبلشمنٹ اسکے خلاف اس بنیاد پر تھی کے مذہبی سیاست ان کی اتحادی رہی تھی۔ جناح، گاندی، نہرو کو سر کا خطاب کیوں نہیں ملا؟ ان کا سیاست کے علاوہ کوئی فکری کام نہیں تھا۔ سیاست برطانیہ سے آزادی کی تھی جس کا حصہ خود اقبال بھی تھا اور جو نوآبادیاتی نظام سے جمہوریت اور حق خود اختیاری کا سفر تھا۔ اقبال سے پہلے ٹیگور کو سر کا خطاب مل چکا تھا اس لیے اقبال کے بارے میں یہ سوچ کمزور دلیل کی بنیاد پر ہے۔
No comments:
Post a Comment