Tuesday, March 23, 2021

یہ دلیل کے قران کی کچھ آیات دہشتگردی یا دوسروں سے نفرت کو فروغ دیتی ہیں لہذا انکو قران سے خارج کردیا جاہے وہی سوچ ہے جو فرقہ پرست سیاسی مولویوں کی سوچ کے قران کی ہر آیات اپنے وقت اور ماحول کے لیے نہیں تھی بلکے قیامت تک کے لیے ہے؟



میرے نزدیک وسیم رضوی کی تجویز کے محرکات سیاسی بھی ہوسکتے ہیں۔ اس قسم کی تجویز اور بحث سےاسلام کےسماجی سیٹ اپ کے اندر ریفارم  میں توکوئی مدد نہیں ملتی البتہ اس قسم کی کوششں سے نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کا ماحول ضرورپیدا ہوتاہےجس سےبی جے پی اپنےفرقہ پرست ایجنڈے  کو آگےبڑھانے میں کامیاب ہوگی اور اپنی سیاست کے لیےھندو ووٹ بنک کو مذہبی سوچ کی بنیاد پراپنی جیب میں ڈالنے میں کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔ 

جہاں تک قران میں تبدیلی یا ترمیم کاتعلق ہےتو قران خود اس کا ترجمان ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت 106 اورسورہ نحل کی آیت 101 ہیں جوخود قران کی عبارت کی تبدیلی جوکے بہتری کی سمت قدم ہو کی بات کی ہے۔ اسکا بنیادی اصول یہ ہے کے کوئی چیزساکت و جامد نہیں ہے۔ مزید یہ کےہرتبدیلی جوبہتری کے لیے ہواچھی ہوتی ہے۔ اقبال کے حرکت کے نظریہ کی بنیاد بھی قران کے اسی اصول پررکھی گئی ہے۔
 یہ سوال جیوش کی تنقید پر کھڑا ہواتھاکےمسلمان ہرروزتبدیلیاں کرتے ہیں، کا جواب بھی تھا۔ انکی تنقید کعبے کو یروشلم سے مکہ تبدیل کرنے کا سبب تھا۔ آج ہمارے لیے اسکا کیا مطلب ہے کے قران تبدیل ہو؟ میری رائے یہ نہیں۔ میری رائے میں اس کا مطلب  یہ ہے کے قران رانمائی کرتا ہے کے ہر وقت ہرلمحہ تبدیلی اوربہتری کی ضرورت ہوتی ہے۔  تبدیلی شروع کے اسلام میں بڑی تیزی سے پھیلنے کا سبب بھی تھی لیکن بعد کے جیورسٹ نے اُن آیات کو قران کے اندر  ترمیم کے سوال کے طور پر کھڑا کردیا تھا جس سے صرف پہلے تین سوسال میں اٹھارا ورکس لکھے گے تھے۔ اسلام کی تاریخ میں سب سے بڑا مذہبی مسلہ ناسخ و منسوخ کا تھا جس پر نہ کبھی اتفاق ہوا ہے کے قران منسوخ ہوتا ہے کے نہیں نہ یہ کے کون کون سی آیات یا یہ کے جو منسوخ ہوئی ہیں ان کی جگہ کون سی آیات آئی ہیں۔ 
ناسخ و منسوخ میرے ابو جی کی زمیں کا کیس نہیں تھا بلکے سستانی صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کے  قران کی عبارت کوہی ناسخ اور منسوخ کا ٹیگ لگا تھا۔ انکے پیش رو آیت اللہ روحی نئی تھیوری لائے تھے کے یہ آیات پہلی والی کتابوں کو تبدیل کرنےکی بات تھی جو کے ان کا نقظہ نظر تھا مگر کسی ثبوت کے بغیر۔ ہرمولوی کی اپنی سوچ ہے مگر حقیقت یہ ہے کے جب خلیفہ متوکل آیا تو اس نے حنبلی سکول کو اسلام پر مسلط کیا جنہوں نے حدث لٹریچر کو نہ صرف اسلام کے کلچر میں قبول کیا بلکے حدیثیں گھڑنے کا ایک رواج شروع ہوگیا تھا جو بنیادی طور پرجیوش مذہب کی اورل تورہ کی شکل تھی اور حدیثوں کی شکل میں اسلام میں داخل کرکے قران کو تبدیل کرنے کی کوشش۔ 
اسی بنیاد پرحنبلیوں نے یہ اصول طے کیا تھا کے اگر قران اور حدیث میں تضاد ہو تو حدیث قران کو منسوخ کردے گی یعنی مخلوق اپنے ہی خالق کو منسوخ کردے گی، جسے سو سال کے عرصے کے بعد العشراتی کے دور میں دوبارا تبدیل کر کے قران حدیث کو منسوخ کرنے کا اصول اپنایا گیا۔ 
فاطمیوں کو چھوڑ کر دونوں سنی اور شیعہ امامیہ نے حنبلیوں کے اس مغالطے اور گمرائی کے گرد آج تک مسلمان عوام کو گمانے کا ٹھیکا اٹھا رکھا ہے۔ یہ حقیقت کے چار سو سال کے بعد جب سنیوں نے اجتہاد بند کیا تو شعیہ امامیہ نے اجتہاد کودوبارا کھول دیا تھا مگر دونوں نے گمرائی سے نہ نکلنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ 
قران کی عبارت اپنے وقت اورماحول سے مخاطب ہے نہ کے آج کے عہد سے۔ رسم و رواج، اخلاقیات، قاعدے قانون معاشرے کی سماجی حقیقت کا نتجہ ہوتے ہیں اور معاشرتی ماحول کی ضرورت کے بدلنے سے بدلنا ناگزریت کا سوال ہوتا ہے۔ قران کے لیے جیوش/کرسچن مذہب اور مکہ/مدینہ کا کلچرایک پراہری یا تاریخی حقیقت تھی جو اسے ورثے میں ملی تھی۔ ورثہ مطلق سچ نہیں ہوتا بلکے ماحول کا مسلط کردہ سچ ہوتا ہے۔ اس لیےآج  قران کی روح رانمائی کرتی ہےنہ کےعبارت۔ قران ہرلمعہ بدلنے کی بات کرتا ہے، دن اور رات پر غور کی بات کرتا ہے، اللہ کے وجود کو زمین اور آسمان کےدرمیان نور قرار دیتا ہے۔ قران یہ کہتا ہے کے جو کام آج کیا ہے کل اس سے اچھا کرنا، جو قانون آج بنایا ہے کل اس سے اور بہتر بنانا جو انصاف آج کیا ہے کل اس سے اوربہتر کرنا نہ کے میری عبارت کا قیدی بن کر رہ جانا جو بت پرستی کی ہی ایک شکل ہے۔ قران کاہنات کوسائنسی فکر و نظر سے دیکھنےاور سمجھنے کا مطالبہ کرتا ہے نہ کے فرقہ پرستانہ نظرسے۔ 
سماج مادی حقیقت ہےجو قانون طبیعیات  کے داہرے میں آتا ہے نہ کے مابعد الطبیعیات۔ جس کے ماملات حواس خمسہ کے ذریعے تائید یا تصدیق کی طلباگار ہوتے ہیں اورحواس خمسہ یا حواس خمسہ کے اکسٹینڈ ٹولز کی مدد سے ہی حاصل شدہ ڈاٹے کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں نہ کے عقیدے کے بنیاد پر کے   کس کا عقیدہ کیا کہتا ہے؟
انسانی جسم مادی قانون کے تعابے ہے اسی لیے نبی خود قران میں کہتا ہے کے میں تم جیسا ہی انسان ہوں۔ قران جو کہتا ہے کے شہید مرے ہوئے نہیں ہیں وہ زندہ ہیں تو کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کے وہ مابعد لطبیعیات میں زندہ ہیں نہ کےطبیعی قوانیں کے اندر۔ مذہب کو طبیعی قانون کےتعابےلانے کا مطلب ہےکے ہم اللہ، نبی اور قران کو مادیت کےقانون کے اصول کے تحت جاننے اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسی سوچ اسلام اور قران سے متصادم ہے۔ 

اس کی شکل ہمیں بریلوی اوردیوبندی لڑائی یاحدیثی اوربریلوی لڑائی میں نظر آتی ہے۔ مثلا" حدیثی اللہ کےساتھ محمد نہیں لکھتےجبکے بریلوی ایک طرف اللہ اوردوسری طرف محمد لکھتے ہیں۔ کیوں؟ دیوبندی/حدیثی نبی کو حاضرو ناضر نہیں مانتے جب کے بریلوی نبی کو حاضر و ناضر مانتے ہیں۔ غلطی کیا ہے؟ دونوں عقیدے کو قانون طبیعیات کے اندر دیکھتے ہیں اس لیے دونوں کا وجود جو مادی حقیقت ہے وہ قانون طبیعیات کے تعابے ہے نہ کے مابعد الطبیعیات۔ جبکے اسلام کی بنیاد کلمہ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ ہے جس کا مطلب ہے اللہ ہے اور محمد اس کے روسول آج اس وقت بھی ہے نہ کے تھا۔ یہ جو ہے دونوں کے بارے میں، اللہ اوررسول کاہونا ہے، وہ ہونا مابعدالطبیعیات کا تصور ہے نہ کے مادی حقیقت۔ کیا اللہ کا کبھی مادی وجود تھا یا ہوگا؟ نہیں۔
لوگوں کی یہ نفسیات ہوتی ہے کے وہ اپنے عقائد کے تصورات کو مادی حقیقت میں تلاش کرتےہیں اورمیری سمجھ کے مطابق اسی سوچ وعمل کا نام پت پرستی ہے۔ قران کی عبارت کا یہ تصورکے وہ ہمیشہ اپنی مادی شکل میں اپلائی ہوتی ہے، یہ تصورو خیال قانون طبیعیات کے اندرکا خیال ہے جسکا مطلب ہے کے ہم قران کو اپنی اصل پوزیشن سے تبدیل کرکے بت کی شکل میں بدلنے کے کوشش ہے۔
اس لیے مسلہ قران کا نہیں ہے مسلہ مسلمان کا ہے جن کو بدلنے کے لیے سرسید، محمد عبدو، جمال الدیں افغانی، اقبال اور علی شریعتی نے بہت کام کیا مگر یہ مسلمان ہے جس نے قران کو اپنی مرضی کے تعابے کرنے سے گریز نہیں کیا تو اقبال اورعبدو کس باغ کی مولی ہیں۔ مسلمانوں کےاندر سب سےبڑی بیماری یہ ہے کےجوکم پیش دوسرے لوگوں میں بھی موجود ہےمگرمسلمانوں میں زیادہ ہے اوربلخصوص ھند/پاک کا مسلمان اپنے مذہبی نظریات کو قبائلی/نسل پرستانہ سیاسی مفادات کے لیےزیادہ استعمال کرتا نظر آتا ہے اوراب مسلمانوں سے یہی نسخہ سیکھ کرسیاسی حربہ کے حربے کے طور پربی جے پی اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کامیابی سے استعمال کررہی ہے۔ قران میں تبدیلی کے شوشے سے بی جی پی کو ہی فائدہ پہنچے گا۔
تحریر افضل طاہر۔


No comments: