جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈہ نام نہاد حقیقت ٹی وی کا یوٹیوب پر؟
تحریر شبنم چوھدری۔
تحریر شبنم چوھدری۔
آج ریاستوں کو عالمی قانون کا تحفظ حاصل ہے نہ کے ماضی کے مائدوں کا۔ آج یواین چاٹر عالمی قانون ہے۔
اس وڈیوں میں گمراہ کن/غلط تاریخ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے ذریعے بنیاد پرستی کا فروغ، تشدد اور نفرت کی سیات کے نظریات کی آبیاری کے علاوہ مجھے پورے وڈیو میں اورکچھ نظر نہیں آیا۔
مائدہ لوزان اُس وقت ہوا تھا جب اتحادی ترکی کو شکست دینے میں ناکام ہوگے تھے اور امن مائدے کے لیے مذاکرات لندن میں شروع ہوئے تھے۔ اتحادیوں کا یہ موقف تھا کہ ترکی کوئی ملک نہیں ہے۔ یہ سلطنت عثمانی تھی جسے شکست ہوچکی ہے۔ اب خلیفہ مسلمانوں کا ہے نہ کے ترکی کا اس لیے حسین بن علی حجاز کا حکمران ہے جواس کا جاہز وارث ہے۔ ترکی نے ایک طرف پورے ترکی کے لوگوں سے ایک نیشنل پیکیڈ پر دسخط لیے تھے اور دوسری طرف جنگ کر کے اتحادیوں سے ترکی بولنے والے سارے علاقے جن میں ازمیر خاص طور پر شامل تھا خالی کرالیے تھے۔
جنگ بندی کے بعد لندن میں مذاکرات ہوئے۔ ترکی کے نمائدے ابزیوچ نے جو پرفارمنس دیا تھا اسکی آج تک پوری سفارتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سلطنت برطانیہ کا وزیرخارجہ جب ترکی پر شدید تنقید ختم کرکے بیٹھتا تو ابزیوچ کھڑا ہوکر ایک ہی بات کہتا "تمیں نیشنل پیکیڈ منظور ہے یا نہیں" پھر واپس بیٹھ جاتا۔ تقریبا" آدھا درجن دفعہ ایسا ہی ہوا۔ برطانیہ اور فرانس ترکی کو عثمانیہ کا علاقہ قرار دیکر اپنے مفتوحہ علاقے سمجھتے تھے اس لیے وہ ترکی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ابزوچ جو یہ کہتا تھا کہ تمیں نیشنل پیکیڈ منظور ہے یا نہیں، اس کا مطلب یہ تھا کہ اگرنیشنل پیکیڈ منظور نہیں توہم جنگ جاری رکھیں گے۔ یہ ترک تھے جنہوں نے روس، اٹلی، فرانس اور براطانیہ سب کے خلاف جنگ لڑی اور اپنے ترکی کو محفوظ رکھا۔ یہ کمال اتاترک کی مہارت تھی جو خود عرب علاقوں میں عربوں/ یورپین فوج کے خلاف، سطلنت کی فوج کی کمان کرتا رہا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی ساری فوج کو اس بات کا تجربہ میدان جنگ میں ہوا تھا کہ اسلام/مذہب نام کی کوئی چیز/بانڈ نہیں ہے۔ یہ ایک دھوکہ ہے جو مکار اور چالاک لوگ استعمال کرکے اپنے سیاسی/مالی مفادات حاصل کرتے تھے۔
عبدلوھاب نجدی کی وھابی تحریک جس نے ایمپائر کے خلاف اٹھارویں صدی میں نجد سے بغاوت کا آغاز کیا تھا، برطانیہ نے اس کی تنظیم سازی اسی طرح کی تھی جس طرح افغان مجاہدین/طالبان۔ سلطنت کے خاتمے کے بعد خلافت حسین بن علی کو منتقل ہوگی تھی۔ استنبول میں متوازی خلافت ترکوں رکھی ہوئی تھی یعنی خلیفہ مکہ/مدینہ/عرب عوام کے بغیر جس طرح مشرقی پاکستان کی آزادی کے بعد مغربی پاکستان نے نورلامین کو وزیراعظم بنایا ہوا تھا۔ جب حسین بن علی نے اپنی خلافت کو پورے عرب علاقوں تک پھیلانے پر غور و فکر شروع کیا تو برطانیہ کو اس کی خبر ہوگئی، بلکل جس طرح مجایدین کو ریپلیس کرنے کے لیے طالبان تیار رکھے ہوئے تھے اسی طرح حسین بن علی کو رپپلیس کرنے کے لیے وھابی تحریک رکھی ہوئی تھی۔ وھابی تحریک نے حجاز پر حملہ کردیا اور مکہ کو دو ہفتوں تک اپنے فوجی گھیرے میں لے رکھا تھا۔
لوگ مکہ چھوڑ چکے تھے۔ مسجدیں اور کعبہ ویران پڑے تھے۔ پھر دو ہفتے کے بعد حیسن بن علی مکہ چھوڑ کر شام چلا گیا اورتب 1924 میں وھابی تحریک کا عبدالعزیر کی قیادت میں مکہ پر قبضہ ہوگیا. برطانیہ کا جنگی بحری جہاز جدہ
کی پورٹ پر موجود تھا۔ جب برطانوی پارلمنٹ میں سوال ہوا تو برطانوی حکومت کا جواب یہ تھا کہ ہم عرب خودمختار حکمرانوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے لیکن ہماری نوآبادی کے کسی فرد کو نقصان نہیں پنچنا چاہے۔ بلکل اسی طرح جس طرح طالبان کی حمایت برطانیہ /امریکہ سعودی عرب/پاکستان/یواے ای کے پیچھے چھپ کرکرتا تھا۔
وھابی تحریک کے مقدس مقامات پر قبضے کے بعد ایک طرف اسرائلی جماعت کو وجود میں لایا گیا اور دوسری طرف 1925 میں اخوان المسلمین کو حسن البنا کے ذریعے بنیاد ڈالی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر کی وفدپارٹی کی حکومت نے برطانیہ سے یہ مطالبہ کیا کہ لیگ آف نیشن میں براطانیہ کی جگہ وہ خود نمائندگی کرینگے۔ پہلے ان کے حکمران کو بادشاہ کا درجہ دیا جیسا کہ آج کل پاکستان میں صدارتی نظام کی باتیں ہوتی ہیں اور پھر اخوان المسلمین کو وجود میں لایا گیا مگر وفد پارٹی عوام کے پاس گئی اور عوام نے نمائندگی ان کو دے دی۔ مقامی حالات میں تضاد اور تصادم کی پالیسی کے طور ایک طرف مسلمانوں میں مذہبی سیاسی سوچ اور دوسری طرف جیوش کو اپنی کھوئی ہوئی تاریخ کی ہڈی ڈالکر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ یہاں کی سیاسی ضرورت باہر کی نیوٹرل ایمپائر کی بنی رہے۔ اسی فلسفے کے تحت الیاس کاندلوی کو 1927 میں سعودی عرب بھیجا گیا تاکہ ھندوستان میں بھی مذہبی تضادت کو تیز کرکے برطانیہ کی ضرورت کو ہمیشہ کے لیے متصادم قوتوں کے درمیان ایک نیوٹرل ایمپائر کی ضرورت کے طور ناگزیر بنایا جائے۔ سوائے بریلویوں اور دیوبندیوں کے تاریخی ریکارڈ یہ اشارہ کرتا ہے تبلیغی، اخوان المسلمین، جماعت اسلامی سب اس وقت کی حکومت نے بنوائی تھی اور یہ تعلق ہمیں افغان جہاد اوراب تک نظر آتا ہے۔ کیا امریکہ طالبان کو ختم کرنا چاہتا تھا؟ بلکل نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساری مذہبی سیاست کی سامراج کوضرورت کیوں رہی ہے؟ میرے نزدیک ایک تو نیوٹرل ایمپائر کی ناگزریت کی سوچ اوردوسرا 1920 کا بالشوک انقلاب۔ اس انقلاب کے بعد ریڈیو ماسکو کی طرف سے یہ اعلان کہ آج سے ہم دوسرے ملکوں پر قبضہ نہیں کرینگے اور اسی پالیسی کی بنیاد پرہم اپنی فوج پرشیا (ایران) سے واپس بولاتے ہیں۔
یہ سامراجی اور نوآبادتی نظام جو کبھی مذہب کے نام پر کبھی قوم کے نام پر قائم رہا، پر کاری ضرب لگی تھی۔ آج بھی جہادی اسلام اور ھندو مذہبی نیشنل ازم کی تحریک سامراجی اور نوآبادیاتی نظام ہی کو اپنا آیڈیل سمجھتے ہیں ۔ کہنے کو تو مذہبی تاریخی وراثت مگر یہ حوس ملک گیری، حوس زر اور حوس زن سب ایک ہی سوچ کے غیر انسانی اور درندگی کا پتہ دیتی ہے۔ ہم تو جہادی دہشتگردوں کی درندگی روز دیکھتے ہیں۔ اس لیے ایسی سیاسی سوچ معاشرے کو اندرونی تضادات کو حل نہیں تیز کرکے تصادم سے دوچار کرکے ترقی سے روک دیتی ہے۔ عوام کو نہ امن نصیب ہوتا ہے نہ روزگار۔ یہ وہ حالات ہوتے ہیں جو دوسری افواج کو قبول کرنے کی امن کی ناگزریت بن کرسامنے آتی ہے۔ کیا اگر طالبان، بن لادن اور ان کی حمایت کرنے والی قوتیں افغانستان میں ایسے حالات پیدا نہ کرتے تو امریکہ افغانستان میں آسکتا تھا؟ جواب نفی میں ہے۔
جاسوس کی پہلی پہچان یہ ہوتی ہے کہ جو وہ خود ہوتا ہے اس کا الزام دوسروں پر لگاتا ہے۔ ٹرم المناٹی یا جیوش کہاں سے آگے؟ پوری دنیا میں جیوش سب سے تھوڑا مذہبی طبقہ ہیں۔ ان کو مسلمانوں اور سلطنت عثمانیہ کو چھوڑ کر ہر ایک سے مارپڑتی رہی۔ 1200 اور 1400 میں ان سے گولڈ چھین کر انگلینڈ اور اسپین سے نکالا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں چھ ملین جیوش اور جپسی قتل ہوئے۔ برطانیہ بھی اسرائلی کو کب قائم کرنے جارہا تھا۔ اسرائل کے جتنے رانما ہیں ان پر دہشتگردی کے الزامات تھے۔ کنگ ڈیوڈ کے ہوٹل کو بم سے تباہ کیا گیا تھا جو برطانوی فوج کی قیام گاہ تھی۔ سیکڑوں برطانوی فوجی مارے گے تھے۔ اس تاریخی پس منظر میں داڑھی برقعہ کنجرخانہ یہ کون سی ٹرمزالمناٹی/یہودی کا سودا سیدھے سادے مسلمانوں کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
یو این کے وجود میں آنے کے بعد عالمی قوانین اور سلامتی کا نظام یواین چاٹر کے تعابے ہے۔ یہ کس نے اس جاہل کو بتا دیا کہ 1923 کا مائدہ آج بھی قائم ہے؟ اس کو عالمی قوانین کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر توعراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی تھی۔ کویت تاریخی طور پر عراق کا ایک صوبہ تھا مگر عراق کی بیوقوف حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آج کویت اس کا صوبہ نہیں ایک آزاد اورخود مختار ملک ہے۔ آج ہر ملک کی آزادی، اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا تحفظ عالمی قانون کا حصہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ عراق کو کیوں چھوڑتا یا افغانستان پر آنے کے لیے اقوام متحدہ کی منظوری کیوں درکار ہوتی؟ یہ جو شخص اس وڈیوں میں بکواس کررہا ہے، اس کے خیالات تو صدر ٹرمپ کے نقطہ نظر کے بہت قریب ہیں۔ مزید یہ کہ نیریشن کرنے والا عمران خان کا بھی حمایتی نظر آتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ پنکی پیرنی اور طارق جمیل کےنیٹ ورک کا کارندا ہوسکتا ہے جن کا گذر بسر ہی دو نمبر سیاست پر ہے۔
مصطفے کمال اتاترک کی قیادت اگر پہلی جنگ عظیم کے بحران میں ترکوں کو میسر نہ آتی تو ترکی اپنا وجود ہی کھودیتا۔ اسی لیے ترک اسے اپنا بابا قوم مانتے ہیں۔ مذہبی درندے اور جہادی دلہنوں کا پیوپار کرنے والے ایجنسیوں اورمافیہ کے تنخواہدار کیا جانیں بابا قوم کیا ہوتا ہے؟
نوٹ: یہ نقطہ نظر مصنفہ کا اپنا ہے۔ یوناٹیڈ کشمیر جرنل کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment